آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک


کمرے میں داخل ہوتے ہی سگریٹ کا دھواں میرے نتھنوں میں گھس جاتا جو پہلے ہی ایسے کسی حملے کے منتظر ہوتے تھے، پھر ناک میں عجیب و غریب ارتعاش سا پیدا ہوجاتا جس پر گلا بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا اور پھر چھینکوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا، جب ذرا حواس بحال ہوتے تو میں اپنے روم میٹ وجاہت علی رانا کی طرف دیکھتا جو اپنے بستر پہ نیم دراز ہو کر انتہائی خشوع و خضوع سے سگریٹ کے گول گول مرغولے ہوا میں اڑا رہا ہوتا تھا۔

عین اس لمحے مجھے اس پر کسی ایسے صوفی و سالک کا گمان ہوتا تھا جو گیان کی دنیا میں کھو کر کائنات کے سر بستہ رازوں پر غور کر رہا ہوتا ہے۔ وہ یوں کہ میری دھواں دار چھینکوں سے بھی اس کے پایہ ثبات میں ذرا لغزش نہ آتی تھی۔ ان لمحوں میں مجھے اس کی خیالی دنیا میں مخل ہونا کسی گناہ کبیرہ سے کم نہیں لگتا تھا لہٰذا جیسے ہی اس کی نیم وا نگاہیں مجھ پہ پڑتیں میں فوراً سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کی غرض سے کوئی سوال پوچھ لیتا تھا تاکہ رانا صاحب میری طرف متوجہ ہوں اور میری حالت دیکھ کر اس کار ثواب میں ذرا سا توقف برت لیں، مگر اکثر ایسا ہوتا نہیں تھا، رانا صاحب کے کش میں کسی وجہ سے ذرا سا توقف آ جاتا تو رانا صاحب پھر کسی گھاگ بیٹسمین کی طرح سنگل کی بجائے چوکوں پہ آتے تھے یعنی تین تین چار چار کش ایک ساتھ لگانا شروع کر دیتے تھے۔

اسی طرح ایک دن میں اپنی حساس ناک پونچھتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رانا صاحب دھونی سلگائے بیٹھے ہیں اور پورا کمرہ دھویں سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے تین چار زور دار چھینکیں ماریں مگر ان معمولی حملوں کا ان پر رتی برابر اثر نہ ہوا، میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اس نامراد دھویں کو کس طرح کمرے سے باہر نکالوں، اسی اثنا میں رانا صاحب نے ذرا سی انکھیں کھول کر مجھے دیکھنا شروع کر دیا، میں نے فوراً سوال کر ڈالا ”رانا صاحب! اتنی گہرائی میں جاکر آپ کیا سوچ رہے ہیں، کہ آپ کو میرے آنے کی تو الگ بات میری فلک شگاف چھینکوں تک کی خبر نہ ہوئی؟

”یار میں سوچ رہا ہوں سگریٹ چھوڑ دوں، مجھے سانس بہت چڑھنے لگا ہے“ ۔ رانا صاحب یہ بات تو آپ پچھلے ڈیڑھ سال سے مسلسل سوچ رہے ہیں اور اس عظیم منصوبے سے وقتاً فوقتاً مجھے آگاہ بھی کر رہے ہیں، مگر اس پہ عملدرآمد پتہ نہیں کون سی نامعلوم وجوہات کی بناء پر موخر کرتے آرہے ہیں ”۔“ بس یار، اب تو بس ہو گئی، تم نے دیکھا مجھ سے بھاگ دوڑ ذرا نہیں ہوتی، کھانسی کا دائمی مریض بن گیا ہوں اور اس پر ستم یہ کہ سگریٹس مہنگے بھی بہت ہو گئے ہیں ”رانا صاحب نے سگریٹ کی راکھ جھاڑتے ہوئے انتہائی متانت سے کہا تو میں نے موقع غنیمت جانا کہ اب گرم لوہے پہ چوٹ لگانے کا وقت آ گیا ہے۔

”بالکل ایسے ہی ہے رانا صاحب! میں ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پڑھ رہا تھا کہ سگریٹ پینے والوں کی اوسط عمر کافی کم ہو جاتی ہے اور وہ بہت جلد داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں“ یہ سنتے ہی رانا صاحب کی آنکھوں میں غصہ در آیا اور وہ جذباتی انداز میں گویا ہوئے ”او بھائی جان! آپ کو شاید نہیں پتہ ایسی تحقیقاتی رپورٹس میں سب بکواس لکھا ہوتا ہے، یہ اعداد و شمار فضول اندازوں کی پیداوار ہوتے ہیں“ ۔ میں سمجھ چکا تھا کہ میرا تیر بالکل غلط نشانے پہ جا لگا تھا اور میری غلط حکمت عملی کا صائب نتیجہ یہی نکلے گا کہ رانا صاحب ایک بار پھر سگریٹ چھوڑنے کے فیصلے کو موخر کر دیں گے۔

ہاسٹل کے کمرے میں ہم دو لوگ ہی تو رہتے تھے۔ لیکن تعجب کی بات تھی کہ میرے آنے جانے، بات چیت کرنے، غمزدہ یا خوش ہونے کا رانا صاحب پہ ذرا سا بھی اثر نہیں ہوتا تھا، میں کبھی کوئی بات کرتا تو اکثر اس کا جواب نہ پاتا، وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ رانا صاحب کانوں میں ہینڈز فری لگائے بڑی سکرین والے اپنے موبائل فون پر ہالی وڈ کی کلاسیکل مووی دیکھ رہے ہوتے تھے اور عالم یہ ہوتا تھا کہ ایک ہاتھ میں موبائل فون اور دوسرے ہاتھ میں سلگتا ہوا سگریٹ تھام رکھا ہوتا تھا۔ اس رنگینی طبع کا نتیجہ تھا کہ ان کا کوئی ایک سوٹ بھی ایسا نہیں تھا جس میں سگریٹ کی چنگاری نے ایک آدھ چھید نہ کر ڈالا ہو، اس شرر افشانی سے تکیہ اور بیڈ شیٹ تک بھی محفوظ نہیں تھے۔

کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا تھا کہ رانا صاحب دوسروں کو سگریٹ نوش بنانے کا اضافی ٹاسک لے کر دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ کمرے میں ملنے آنے والے ہر کس و ناکس کو سگریٹ ایسے خلوص اور اپنائیت سے پیش کرتے جیسے دیہاتی لوگ ستو اور سردائی پیش کرتے ہیں۔ کچھ مفت بروں نے تو چلن بنا لیا تھا جب بھی ہمارے کمرے کے سامنے سے گزرتے دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھ لیتے ”رانا صاحب ایک سگریٹ مل جائے گا“ ۔

رانا صاحب سگریٹ نوشی کے معاملے میں انتہائی دور اندیش آدمی تھے، وہ دو تین ریزرو پیکٹس اپنے سامان میں ضرور رکھتے تھے، مگر ایک بار ذرا چوک گئے کہ پہاڑی علاقے کے ٹرپ پر بہت جلد اپنے سگریٹ ختم کر بیٹھے، دکان کا وہاں نام و نشان تک نہ تھا لہٰذا وہ گھڑیاں سگریٹ کے ہجر میں رو رو کر کاٹیں۔ وہ واحد دن تھا جس دن میں یہ سوچ رہا تھا کہ کاش کاش کوئی سبیل بن جائے اور میں رانا صاحب کے لیے سگریٹ لے آؤں۔

صبح کے وقت اکثر رانا صاحب مجھ سے قبل بیدار ہو جایا کرتے تھے، مگر ایک بار اتفاقاً میں جلد بیدار ہو گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رانا صاحب نیند کی حالت میں اپنے تکیے کے نیچے کچھ ٹٹول رہے ہیں، اس کھوج کے نتیجے میں جب سگریٹ کی ڈبی انھیں مل جاتی ہے تو وہ لائٹر کی ڈھونڈیا شروع کر دیتے ہیں۔ بند آنکھوں کے باوجود وہ سگریٹ ڈبی سے نکال کر لائیٹر سے اسے سلگاتے ہیں اور پھر داب داب کے کچھ کش لگاتے ہیں اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھیں کچھ وا ہونا شروع ہو جاتی ہیں پھر وہ جلدی سے اٹھتے ہیں اور واش روم کی راہ لیتے ہیں۔ چشم فلک نے یہ نظارہ نجانے کتنی بار دیکھا ہو گا، میں نے تو یہ منظر ایک آدھ بار ہی دیکھا

ایک روز علی الصبح ہم سب پریڈ میں موجود تھے، سردی اس کڑاکے کی پڑ رہی تھی کہ رگوں میں خون جما جا رہا تھا، دھند کی وجہ سے حد نگاہ صفر ہو چکی تھی۔ ہمارے کالج کے کمانڈنٹ صاحب اپنی لمبی سی سیاہ اچکن پہن کر واک کرتے ہوئے گراؤنڈ کے اردگرد گھوم رہے تھے۔ واک کرتے ہوئے ان کی نگاہ ایک کونے میں چھپ کر سگریٹ پیتے ایک جوان پر پڑ گئی، انھوں نے اسے ایسے پکڑا جیسے عالمی دہشت گردی میں ملوث کسی مجرم کو پکڑا جاتا ہے۔ وہ اس سنگین مجرم کو پکڑ کر سیدھا پریڈ گراؤنڈ کے سٹیج پر لے آئے CDI نے دیکھا تو فوراً پوری پریڈ کو ہشیار باش کروا دیا۔

کمانڈنٹ صاحب نے مائیک ہاتھ میں لیا اور یوں گویا ہوا ”پنجاب پولیس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دیں ہیں، حتیٰ کہ ہمارے ان گنت جوانوں اور افسران نے اپنی جان کا نذرانہ تک پیش کر دیا ہے، جہاں ہمارے پاس ایسے جوان ہیں جو ہمارے محکمے کے ماتھے کا جھومر ہیں، وہیں اس محکمے میں کچھ کالی بھیڑیں، کچھ گندے انڈے، کچھ کمینہ صفت لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنھوں نے اس محکمہ کی عزت کو خاک میں ملانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، ایسے ہی لوگوں کی ایک زندہ مثال اس شخص کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہے، یہ آنکھ بچا کر پریڈ سے کر نکل گیا تھا اور چھپ کر سگریٹ پی رہا تھا، ایسے عناصر کی سرکوبی کرنا بہت ضروری ہے، ہم ایسے لوگوں کو اس کالج میں قطعاً برداشت نہیں کریں گے“ ۔

کمانڈنٹ صاحب کی تقریر کے دوران مجھے سخت اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں رانا صاحب تو نہیں پکڑے گئے ہوں، مگر تقریر کے اختتام پر میں نے دیکھا کہ وہ بخیر و عافیت اپنے مخصوص انداز میں پلاٹون میں موجود تھے، پکڑا جانے والا بد نصیب کوئی اور تھا۔ میں سمجھا تھا کہ اس عظیم سانحے کے بعد رانا صاحب سگریٹ سے توبہ تائب ہو جائیں گے مگر یہ بھی میری خام خیالی ہی تھی۔

ایک بار سفر سے واپسی پر مجھے رانا صاحب کے ہاتھ میں چیونگم کا ڈبہ نظر آیا تو میں نے پوچھا رانا صاحب ایک آدھ چیونگم کی بجائے پورا ڈبہ ہی خرید لیا؟ ”تگہ صاحب اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے سگریٹ چھوڑنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے اب جب بھی سگریٹ کی طلب ہوا کرے گی، میں چیونگم چبا لیا کروں گا“ ۔ اگرچہ مجھے کافی حد تک یقین تھا کہ رانا صاحب اس فیصلے پہ قائم نہیں رہ پائیں گے مگر پھر بھی مجھے اس اقدام سے ایک انجانی سی خوشی ہوئی اور میں نے اس فیصلے کی تعریف میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اب کمرے میں ہر طرف سگریٹ کی راکھ کی بجائے چیونگم کے خالی شدہ ہرے ہرے ریپر پھرنے لگے۔ ذرا سا پنکھا کیا چلاتے، کونوں کھدروں میں چھپے ریپر باہر آ کر رقص و سرود کی محفل سجا لیتے، یہ ہرے ریپر مجھے اپنے کمرے کے علاوہ عام گزرگاہوں اور واش روم کے باہر بھی کثرت سے نظر آنے لگے جن سے رانا صاحب کی آمدورفت کا اندازہ ہوتا تھا۔ لیکن ایک بار پھر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا، رانا صاحب نے دوا بدلنے کی بجائے حکیم ہی بدل ڈالا۔

چیونگم کے نصف درجن ڈبوں کا ستیا ناس کرنے کے بعد پھر ایک دن سگریٹس کے پیکٹ خرید لائے، میں نے دوبارہ پرانی روش دیکھی تو سگریٹ چھوڑنے کے منصوبے میں ناکامی پر تعجب کا اظہار کیا۔ اس پر رانا صاحب نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا ”تگہ صاحب یہاں پردیس میں پڑے ہیں، یہاں یہ کام نہیں ہو سکتا، سگریٹ تو یہاں سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد ہی چھوٹیں گے“ ۔ ”نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی“ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔

ہمیں پاس آؤٹ ہوئے پانچ برس ہونے کو ہیں، میں گزشتہ روز رانا صاحب سے ملنے ان کے گھر گیا تو رانا صاحب نے بڑی محبت سے اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، خاطر تواضع کی اور ساتھ ہی سگریٹ سے بھرا پیکٹ میز پر رکھتے بولے ”تگہ صاحب اب یہ مت پوچھیے گا کہ میں سگریٹ کب چھوڑ رہا ہوں“ ۔ اس کے ساتھ ہی ایک زوردار قہقہہ فضا میں بلند ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments