برطانیہ میں کشمیری نژاد پاکستانی تارکین وطن اور ان کی مادری زبان


ڈاکٹر کرامت اقبال گزشتہ چالیس سال سے نسلی مساوات اور تعلیم پر کام کر رہے ہیں۔ وہ مقامی حکومتی سکولوں کے مشیر ہونے کے علاوہ محکمہ تعلیم سمیت مختلف سرکاری محکموں کے مشیر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ وہ پسماندہ طبقے کے نوجوانوں کی تعلیم کو بہت بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کے ایک تحقیقی مقالے کو سفید فام مزدور طبقے کے بچوں کی تعلیم بہتر بنانے کے لئے بہت اہمیت دی گئی اور اس سے مدد لی گئی۔ ان کے حالیہ مشاورتی تفویضات میں نیشنل سوسائٹی آف دی چرچ آف انگلینڈ اور لارنس شیرف ٹیچنگ اسکول پر تحقیقی کام شامل ہے۔

کرامت اقبال اکیڈمی ٹرسٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ برطانوی پسماندہ اور مسلمان بچوں کی تعلیم اور پاکستانی کمیونٹی کے مسائل پر ٹائمز ایجوکیشنل سپلیمنٹ سمیت دوسری متعدد مطبوعات میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ وہ تعلیم کی بہتری کے لئے بلاگ لکھتے ہیں اور ٹویٹ بھی کرتے ہیں۔ ان کا زیر نظر مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ مضمون برطانیہ کی بیرا بلاگ ویب سائٹ BERA.www.bera.ac.uk میں 15 اگست 2022 ء کو چھپا۔ اور مصنف کی پیشگی اجازت سے عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے اس کا اردو میں ترجمہ و تلخیص کی گئی ہے۔

برطانیہ ایک کثیر الثقافتی ملک ہے جہاں دولت مشترکہ کے ممالک کے علاوہ دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کے تارکین وطن بہاں آباد ہیں۔ برطانیہ کے سکول 1991 ء سے نسلی لحاظ سے اعداد و شمار اکٹھے کر رہے ہیں جن سے انہیں یہ جاننے میں مدد ملی ہے کہ ان کے سکولوں میں پڑھنے والے کون سے اور کتنے بچے کس نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کون سی مادری زبان بولتے ہیں۔ وہ بچے اس سے استثنا ہیں جن کا تعلق آزاد جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقہ سے ہے کیونکہ ان کی نسل اور زبان بالترتیب پاکستانی اور اردو کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔

حالیہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انگریزی سکولوں میں ایسے بچوں کی تعداد 374031 یا 45 فیصد ہے جو پاکستانی نژاد ہیں۔ یہ تعداد غیر سفید فام نسلی گروہوں میں سب سے بڑی ہے۔ سارہ شفیع کی ایک رپورٹ کے مطابق اس تعداد میں 70 فیصد کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ لیکن اب تبدیلی آ رہی ہے کیونکہ برطانیہ میں 2021 ء کی مردم شماری میں ”ایشیائی کشمیری“ زمرہ تشکیل دیا گیا ہے۔ جس میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو ایشیائی کشمیری کی شناخت کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ تعلیمی نظام کے لئے یہ بہتر ہے کہ وہ اس نئی پیش رفت سے باخبر رہیں۔

متنازعہ علاقہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد اور ان کی مادری زبان کی غلط درجہ بندی کی اصل وجہ 1947 سے شروع ہوتی ہے۔ جب سے پاکستان نے آزاد کشمیر کے نام سے متنازعہ علاقہ کا انتظام کرنا شروع کیا ہے۔ آزاد کشمیر کے پاکستان سے الحاق کرنے پر یہاں کے اکثر داخلی اور خارجی معاملات پاکستان کی وساطت سے طے پاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے باشندوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا اجرا ء محکمہ داخلہ کے سپرد ہیں۔ آزاد کشمیر سے برطانیہ جانے والے تمام افراد کو بھی حکومت پاکستان کی طرف سے پاسپورٹ جاری کیے گئے تھے۔

جب یہ لوگ پاکستانی پاسپورٹ پر برطانیہ گئے تھے تو وہاں اسکولوں اور دیگر حکام نے ان سے نسلی شناخت اور مادری زبان پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ پاکستانی ہیں اور ان کی مادری زبان اردو ہے۔ حالانکہ وہ متنازعہ علاقہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی مادری زبان پہاڑی تھی۔ اس لئے برطانیہ میں رہنے والے آزاد کشمیر کے باشندوں کی غلط درجہ بندیوں کا مسئلہ اس وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ کچھ برطانوی کشمیری والدین اور ان کے بچے اب بھی اس طرح کا جواب دیتے ہیں جس سے ان کی خالص کشمیری اور مادری زبان پہاڑی کی شناخت میں مشکل پیش آتی ہے۔

گزشتہ برسوں میں ماہر تعلیم اور محققین نے پہاڑی بولنے والے بچوں پر تحقیق کر کے ان کی کمیونٹی اور زبان کی درست طور پر درجہ بندی کی ہے۔ ڈروری  نے 2000 ء میں پورے تعلیمی سال میں تین پہاڑی بولنے والی بچیوں کے ابتدائی بچپن میں مادری زبان بولنے کی مشق پر بغور تحقیق کی۔ جبکہ رابرٹسن  اور روزوسکی  نے 2010 ء میں پہاڑی زبان پر ایک جامع تحقیق کی اور کشمیریوں اور برطانوی حکومت دونوں کو پہاڑی زبان بولے اور سمجھے جانے پر کی گئی تحقیق پر توجہ مبذول کروائی۔

برطانیہ پہنچنے پر کشمیریوں کی پہلی نسل نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ ان کی مادری زبان بولنے اور سمجھنے کی برطانیہ میں کیا درجہ بندی کی گئی ہے۔ تاہم 1970 کی دہائی کے آس پاس جیسے ہی انہوں نے یہاں مستقل سکونت اختیار کی تو انہوں نے اپنی شناخت اور اپنی مادری زبان پہاڑی کے لئے مہم چلائی۔ کمیونٹی کے متعدد محققین اور مصنفین نے بھی برطانیہ میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے کے لئے کوششیں کی ہیں، خاص طور پر نوجوان نسل نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔

علی نے 2007 ء میں اپنی زبان میں تعلیم کے حصول میں رکاوٹوں اور مضمرات پر توجہ مرکوز کروائی جس پر حسین نے 2014 ء میں اپنی مادری زبان پہاڑی کی پہچان بنانے کے لئے راہ ہموار کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پہاڑی زبان انگریزی کے بعد برطانیہ میں دوسری سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی مادری زبان ہے۔ دریں اثنا یہ بات بھی زیر غور ہے کہ اس زبان کے لئے کون سا نام استعمال کیا جانا چاہیے۔

نذیر نے 2020 ء کے اپنے مضمون ”میری زبان“ میں زبان کے اس ابہام کے بارے میں لکھا۔
” کیا یہ میر پوری ہے، پنجابی کی ہی ایک بولی پہاڑی یا پھر پوٹھوہاری؟ آخر ہماری زبان کون سی ہے؟”

کشمیری تارکین وطن میں شعرا بھی موجود ہیں ان میں سے دو شعرا نے اپنی زبان کی شناخت کرانے کی جدوجہد میں اپنی آواز شامل کی ہے۔ 2018 ء میں ظفر کنیال نے ان الفاظ میں بیان کیا۔

” کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پہاڑی ہے، بولو پہاڑی۔ دوسرے کہتے ہیں یہ پوٹوہاری، پہاڑی یا پوٹواری ہے۔ ”

نبیلہ احمد نے اپنی فیس بک وال پر لکھا کہ زبان کو کیا نام دیا جائے یہ خود زبان پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ خود اپنا کیا نام رکھتی ہے۔

”نہ میں پنجابی کی بولی ہوں اور نہ ہی ڈوگری پوٹھوہاری۔ اور نہ ہی میں میرپوری تک محدود ہوں، میں پہاڑی ہوں ”

حالیہ مردم شماری کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کشمیری برادری کی کوششیں باآور ثابت ہونے کے قریب ہیں۔ ہم مستقبل قریب میں ان اعداد و شمار کے منتظر ہیں جن میں ہمیں اپنے ان شہریوں کی تعداد کا کچھ اندازہ ہو سکے گا جن کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور وہ پہاڑی زبان بولتے ہیں۔ یہاں یہ تجویز دی جاتی ہے کہ محکمہ تعلیم حالیہ مردم شماری سے نئے زمرے ایشیائی کشمیری کی درجہ بندی کا استعمال کرتے ہوئے سکولوں سے اعداد و شمار اکٹھا کرنے میں سہولت فراہم کرے اور پہاڑی کو اردو، میرپوری یا پنجابی جیسے غلط نام دینے کی بجائے پہاڑی کو کمیونٹی کی زبان کے شناخت کے طور پر استعمال کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments