تجھے کیا خبر میرے درد کی تجھے حال اپنا معلوم نہیں


میں کل شام کو تھوڑا سا فری ہوا تو کسی سنسان جگہ پر چند لمحات تنہائی میں گزارنا چاہا تب مجھے بھی زندگی کی فراخ دلی پے رونا آیا مجھے میرے مرشد کامل فرحت عباس شاہ صاحب کے شعر کا مصرع یاد آ یا کہ ”غموں نے چاٹ لیا میرے غم گسار اب آئے“ بس یہ ہی ہمارے ساتھ بھی ہر روز ہوتا ہے۔ کاش کہ کوئی تو رحم وکرم پر یقین رکھنے والا آ جاتا جو ہمارے سلگتے ہوئے درد میں لپٹے ہوئے بے یارو مددگار انسانوں کا ساتھی بنتا اور کہتا کہ میں ہو وہ انسان ہو جسے خداوند عالم نے اشرف المخلوقات بنایا ہے میں ہی تمہارا ہمدرد ہو۔

مگر شاید یہ میری سوچ ہوگی لیکن ہو بھی سکتا ہے۔ جیسے کیسے خدا کی آزمائش تھی جو کچھ نہ کچھ کم تو گی مگر ابھی باقی ہے۔ ہر حال میں شکر ادا تو کرنا ہی ہو گا کیونکہ یہ ہی تو اصلی حقیقی زندگی کا اصل باب ہے۔ ہم تو سوچ رہیں تھے کہ یہ بڑے بڑے بھاشن دینے والے اس حال میں ڈوبے ہوئے میرے لوگوں کے رہبر بنے گے۔ مگر شاید یہ بھی ایک بھول ہی تھی اس کی مثال تو کیا ہزاروں لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔ سیاسی شخصیات نے ان کے نام تو کیا لینے تھے بلکہ ان وقت کے ماروں کی عزت پامال کرنے والا ہر کام کیا۔

وہاں لوگ پانی میں ڈوب ڈوب کر اپنی جان کی بازی ہار رہے تھے۔ یہاں درندہ صفت سیاستدانوں نے ان کے لاشوں پر بھنگڑے ڈالے ان کے جنازوں کی صفوں میں کھڑے لوگوں کو اپنے جلسوں کے ترانے اور نغمے سنانے میں سر گرم رہیں۔ میں تو حیران ہوا کہ یہ درندگی بے حسی کس میں کیسے آئی تو سوچا کہ ہو سکتا ہے ان ظالموں کو وزیراعظم ہاؤس کی دیواروں کی یاد نے بے ہوش کر رکھا ہے ان کو سوج بھوج نہیں کہ کلمہ طیبہ پڑھنے اور پڑھانے والے ہیں وہ جو ابھی زندہ انسان سے ایک مردہ حالت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کے گھر کی دیواریں بہت مضبوط ہیں۔ ان کے پاس علاج و معالجہ کے لیے بھی وسائل ہیں شاید یہ بھی سوچتے ہو گے کہ یہ موت ہمارے پاس تب تک نہیں آئے گی جب تک ہم نہیں چاہیے گے۔ لیکن یہ تو ابدی زندگی ہے اس نے ایک دن ختم ہونا ہے۔ مگر انسانیت قیامت تک رہے گی بلکہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ مجھے تو نیو یارک کی وہ گلی یاد آ گی جس میں ایک عورت بیٹھی مدد کی اپیل کر رہی تھی کہ اچانک ایک آ دمی آ یا جس نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا اس عورت نے ذرا نہ سوچا اور فوراً اس کی مدد کر دی۔ ہم تو اتنا ایمان مضبوط رکھتے ہیں کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ نیکی کر دریا میں ڈال۔ مگر افسوس کہ یہ سب کہنے کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ کرتے وقت تو ہمیں ہماری ضروریات کا خیال آ جاتا ہے اپنے بچے سامنے آ جاتے ہیں کل کے دن کی روٹی سامنے نظر آ رہی ہوتی ہے۔

کہ اگر کسی کی مدد کر دی تو ہم کیسے کھائیں گے اسی لیے مجھے میرے استاد محترم کا فرمان ذہن نشیں تھا جو میں لکھ رہا ہوں ”خدا سے کی گی تجارت کبھی خسارا نہیں دیتی ایک بار تو کر کے دیکھ“ اسی لیے میرے لیے نزدیک میرے دوسرے بھائی کی ضرورت زیادہ اہم ہے۔ اب کچھ خاص احباب بولے گے تو آپ بھی دیا کرو نہ میں پھر یہ ہی جواب دو گا میں بھی ایک لوئر میڈیم کلاس انسان ہو جو اپنی اوقات سے زیادہ ایسے معاملات میں آ گے کھڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتا ہوں۔ ان ظالموں کی باتوں میں نہ آئے بس اپنے لوگوں کی مدد کرو اور اسی میں ہماری بھلائی ہوگی۔ خدارا ہمیں ایک ہونے کی ضرورت ہے نہ کی ان منافقین کی منافقانہ سیاسی رویوں کی قید کہیں گرفتار نہ ہو جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments