پنڈت نہرو کے ہمالیہ جیسے مغالطے


سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پنڈت نہرو کے فرقہ وارانہ مسئلے کو بین الاقوامی مسئلہ قرار دیا اور ان کی کوتاہ نظری پر کڑی تنقید کی۔ پنڈت نہرو نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا تھا کہ انگریز اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کو لڑاتے اور مذہب کارڈ کھیلتے رہے، چنانچہ وہ مذہب پر ان الفاظ میں غصہ اتارتے ہیں کہ جس چیز کو مذہب یا منظم مذہب کہتے ہیں، اسے ہندوستان میں اور دوسری جگہ دیکھ کر میرا دل ہیبت زدہ ہو گیا ہے۔ میں نے اکثر مذہب کی مذمت کی اور اسے یکسر مٹا دینے کی آرزو تک ظاہر کی ہے۔ قریب قریب ہمیشہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قائم شدہ حقوق اور مستقل اغراض رکھنے والوں کی بقا کا حامی ہے۔

مولانا مودودی اس حقیقت کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ ہندوستانی قوم کے اس لیڈر نے مذہب کے خلاف نفرت کا اظہار بڑی کثرت سے کیا ہے اور جہاں ہندو اور مسلم کا نام آتا ہے، وہ چیں بہ جبیں ہو کر کہتے ہیں کہ ”مذہب کو بیچ میں کیوں لاتے ہو؟“ مولانا لکھتے ہیں کہ اگر پنڈت جی ذرا سمجھ سے کام لیتے، تو یہ بات ان پر واضح ہو سکتی تھی کہ ہندوستان میں پہلے حقیقی اختلافات موجود تھے۔ انگریزوں نے ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں انہیں دو قسم کے لوگوں سے مدد ملی۔

ایک وہ خودغرض جو اپنے ذاتی فائدے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں میں تنازعات بھڑکاتے ہیں اور یوں اپنے ذاتی مفاد اور برطانوی سلطنت کے مفاد کی خدمت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ بے وقوف لوگ جو ان اختلافات کی حقیقت کو سمجھنے اور انہیں دانش مندی کے ساتھ حل کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ پنڈت جی کا یہ نظریہ ترقی کر کے یہ صورت اختیار کر گیا ہے کہ مذہب نے ہندوستانی قوم کو فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔

ہندوستان کے سب سے بڑے لیڈر نے اس مسئلے کا حل یہ تجویز کیا ہے کہ مذہبی قومیتوں کو مٹا کر ایک قومی حکومت قائم کی جائے۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ غیر مذہبی عقائد کی تبلیغ کر کے ایک عظیم اکثریت کو ہم نوا بنایا جائے۔ تیسرے مرحلے میں جو اقلیت اس معاشی مذہب کی پیروی قبول نہ کرے، اسے ڈرا کر، دھمکا کر، لوٹ مار اور غارت گری کر کے ایک وسیع پیمانے پر تمدن میں انقلاب پیدا کیا جائے۔

اس کے بعد پنڈت جی پہلا حملہ اسلامی قومیت پر کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم سرے سے کوئی قوم ہی نہیں ہو۔ یہ محض برطانوی سامراج کا ایک داؤ اور چند سامراجی ایجنٹوں کا پروپیگنڈا ہے جس نے تمہارے دماغ میں ہوا بھر دی ہے، حالانکہ سیاسی اور معاشی طور پر ہندوستان میں صرف ہندوستانی قوم ہی پائی جاتی ہے اور اس قوم کے اندر ایک دوسری قوم کا موجود ہونا ایک لغو تخیل ہے۔ پھر وہ اپنے مشاہدات بیان کرتے ہیں کہ میں عوام الناس پر نظر ڈالتا ہوں، تو اسلامی تہذیب کی نمایاں ترین نشانیاں یہ نظر آتی ہیں : ایک خاص قسم کا پاجامہ، نہ زیادہ لمبا نہ زیادہ چھوٹا، ایک خاص طریقے سے مونچھوں کو مونڈنا یا ترشوانا مگر ڈاڑھی کو بڑھنے کے لیے چھوڑ دینا، ایک خاص قسم کا ٹونٹی دار لوٹا۔ عورتیں اب ساڑھی پہننے لگی ہیں اور آہستہ آہستہ پردے سے باہر آ رہی ہیں۔ اسی طرح مسلمان اور ہندو کاشت کاروں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا۔

مسلمان جسے اپنی تہذیب کہہ رہے ہیں، وہ اب زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی۔ زمانے کے انقلابات اسے مٹا رہے ہیں، مٹائیں گے اور خود مسلمان قومیں اسے چھوڑ رہی ہیں اور پوری دنیا ایک تہذیبی وحدت بنتی جا رہی ہے۔ اس کے بعد وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اسلامی تہذیب اور اسلامی قومیت صرف سرکار برطانیہ کے سہارے ہی جی سکتی ہے، لہٰذا جو لوگ ان دونوں کو باقی رکھنا چاہتے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بدیسی حکومت ہمیشہ قائم رہے۔ اب اگر ان مصیبتوں سے نجات چاہتے ہو، اگر آزادی کی خواہش ہے، تو اس قومیت اور اس تہذیب کے تحفظ کا نام لینا چھوڑ دو، ورنہ جو کوئی نام لے گا، ٹوڈی کہلائے گا۔

قومیت اور تہذیب کی خبر لینے کے بعد پنڈت جی اسلام کے نظام اجتماعی کی طرف آتے ہیں تاکہ اسے درہم برہم کر کے جمہور مسلمین کو جدید ہندوستانی قومیت میں جذب کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مسلمانوں کو قومی جمیعتوں کے بجائے عام افراد تک براہ راست پہنچنے کا منصوبہ بنایا ہے جو مفلس اور کمزور اسلام اور اس کی تہذیب کے اصولوں سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے، اس لیے انہیں بآسانی توڑا جا سکتا ہے یعنی انہیں شدھی بنایا جا سکتا ہے۔

مولانا مودودی نے اس خطبۂ صدارت کا حوالہ دیا ہے جو پنڈت جواہر لال نہرو نے آل انڈیا نیشنل کنونشن میں دیا تھا جس میں کہا تھا کہ آج جماعتوں اور ملتوں کی بنیاد معاشی مفاد پر رکھی جا رہی ہے اور اس لحاظ سے ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب ملتوں کا بھلا اس میں ہے کہ اپنی بے کاری اور غریبی کو سامنے رکھ کر تبدیلی اور قومی آزادی کے لیے آگے بڑھیں۔ جب کبھی ہم اوپر کے لوگوں سے منہ موڑ کر عام لوگوں کی طرف نگاہ ڈالیں گے، تو ہمیں ان معاشی مصیبتوں کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔

جو سوال ایک زمانے سے فرقہ وارانہ مسئلہ میں دبا ہوا ہے، اس کا صحیح حل یہی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ کتنے معصوم اور کتنے بے ضرر ہیں یہ الفاظ، مگر کتنے زہریلے ہیں! یہ دراصل شدھی کی تحریک ہے ایک دوسری شکل میں۔ یہ مذہبی شدھی نہیں، سیاسی اور معاشی شدھی ہے اور اس کا نتیجہ وہی ہے جو مذہبی شدھی کا ہے۔ یہ بھی زہر ہی کا گھونٹ ہے مگر دیکھیے کیسے کیسے ہوش و گوش کے لوگ اسے شیر مادر سمجھ کر نوش فرما رہے ہیں۔

مولانا کے اس گہرے تجزیے سے نیشنلسٹ مسلمانوں کی آنکھوں سے غفلت کے پردے اٹھنے لگے اور یہ احساس شدت کے ساتھ اجاگر ہوتا گیا کہ یہ فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اس کے بعد مسلم سیاست اس رخ پر چل نکلی تھی۔ (جاری ہے )

معذرت: گزشتہ کالم میں سید امیر علی کلکتہ ہائی کورٹ کے جج کے بجائے محرر شائع ہو گیا۔ اس فروگزاشت پر بڑی ندامت محسوس ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments