مودی کی سالگرہ پر تحفے میں چیتے

نتن سری واستوا - بی بی سی نیوز


مدھیہ پردیش میں کونو ینشنل پارک کے درمیان کا علاقہ چھاؤنی بن گیا ہے کیونکہ حکام کے مطابق اس میں ہیلی پیڈ بنا ہوا ہے، جہاں ہر وقت آمدورفت رہتی ہے۔

اس ہیلی پیڈ سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر 150 میٹر کا قرنطینہ زون بنایا گیا ہے، جس میں 17 ستمبر کو نمیبیا سے آٹھ چیتے یہاں لائے جائیں گے، جہاں اُنھیں ایک وسیع و عریض جنگل میں رکھا جائے گا۔

یہ چیتے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے اس ہیلی پیڈ پر اترنے سے چند گھنٹے قبل یہاں پہنچا دیے جائیں گے اور ان میں سے تین کو ان قرنطینہ زونز میں چھوڑ دیا جائے گا جب وزیر اعظم لوہے کے سہار پر لیور کھینچیں گے۔

لیکن 1.15 لاکھ ہیکٹر کے رقبے والے کونو نیشنل پارک میں چھوڑے جانے سے پہلے ان پانچ سے چھ سال کی عمر کے چیتوں کو ایک ماہ تک قرنطینہ زون میں رکھا جائے گا تاکہ وہ اس آب و ہوا کے عادی ہو جائیں۔

مدھیہ پردیش کے محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار کے مطابق اس ایک ماہ کے دوران چیتے اپنے اپنے علاقوں میں رہیں گے اور شکار نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے انھیں ہر دوسرے تیسرے دن بھینس کا گوشت پیش کیا جائے گا۔ چیتا انھیں 500 ہیکٹر کے زون میں بھیجا جائے گا تاکہ وہ ایک دوسرے کے قریب بھی رہ سکیں اور ضرورت پڑنے پر انھیں الگ بھی کیا جا سکے۔

انڈیا آنے والے چیتوں کو ان کی پناہ گاہوں سے حاصل کیا گیا ہے، جہاں ان کی صحیح طریقے سے افزائش کی گئی ہے۔ جنوبی افریقہ میں ایسی تقریباً 50 پناہ گاہیں ہیں جن میں 500 بالغ چیتے ہیں۔

چیتا کنزرویشن فنڈ نامی ایک معروف بین الاقوامی تنظیم کی ڈائریکٹر لوری مارکر نے بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ہم نے اس منصوبے کے لیے بہت محنت کی اور امید ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

ان کے مطابق دوسرے جانوروں کے گرد رہ کر اب یہ چیتے اب بڑے ہو گئے ہیں۔

وہ انڈیا میں بھی اپنا گھر بسائیں گے۔ پانچ سات سال کا وقت دیں، یہ منصوبہ بہت تیزی سے ترقی کرے گا۔

چیتوں کا ‘تحفہ’

سنہ 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد سے نریندر مودی نے عموماً اپنی سالگرہ (17 ستمبر) گجرات میں منائی ہے۔

وہ اکثر سالگرہ کے دن اپنی والدہ کے پاس جاتے ہیں، سردار سروور ڈیم جیسے اہم مقامات کا معائنہ کرتے ہیں یا 1965 میں پاکستان انڈیا جنگ پر جنگی نمائش کی نقاب کشائی کرتے ہیں یا اس دن کو صفائی کے دن کے طور پر مناتے ہیں یا سکول کے بچوں کے ساتھ اپنی سالگرہ مناتے ہیں۔

لیکن اس بار انڈیا میں چیتوں کی واپسی ان کی ترجیح اوّل ہے۔

کونو پارک میں ان چیتوں کو چھوڑنے کے بعد وزیر اعظم قریبی پالپور گیسٹ ہاؤس میں فارسٹ گارڈز اور تقریباً 150 ‘چیتا فرینڈز’ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

انڈین ایکسپریس اخبار کی صحافی ارم صدیقی کے مطابق جنھوں نے تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے کونو نیشنل پارک کا دورہ کیا، ‘یہ چیتا دوست دراصل 400 نوجوان ہیں جنھیں علاقے کے دیہاتوں میں چیتوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے تربیت دی گئی ہے۔

لوگ گاؤں والوں کی مدد کرتے ہیں وہ یہ بھی بتائیں گے کہ چیتے اور تیندوے میں کیا فرق ہے۔

حکام کے مطابق نمیبیا میں چیتے اور تیندوے جنگل میں ایک ساتھ رہتے رہے ہیں لیکن فی الحال مدھیہ پردیش آنے والے چیتوں کو کونو پارک میں چیتے سے دور رکھا جا رہا ہے۔ تاہم آگے چل کر انھیں جنگل میں موجود 150 سے زائد چیتے سے نمٹنا پڑے گا۔

اس کی ایک وجہ بھی ہے۔

وائلڈ لائف کے فلم ساز اجے سوری، جو کافی عرصے سے شیروں کا مطالعہ کر رہے ہیں نے کہا ہے کہ تیندوے انتہائی جارحانہ ہوتے ہیں جبکہ چیتے ان کے مقابلے میں بہت کم حملے کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تیندوے برادری کے ساتھ اپنے علاقے میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ شیر اور ٹائیگرز نہیں الجھتے مگر چیتوں کے حملے عام ہیں۔‘

دنیا میں اس وقت تقریباً 7000 چیتے موجود ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ جنوبی افریقہ، نمیبیا اور بوٹسوانا میں موجود ہیں۔

انڈیا نے سنہ 1950 کی دہائی میں چیتا کو معدوم قرار دے دیا تھا اور ملک میں ایک بھی زندہ چیتا نہیں بچا تھا۔

ویسے یہ پہلا موقع ہے کہ اتنے بڑے گوشت خور جانور کو ایک براعظم سے نکال کر دوسرے براعظم کے جنگلات میں لایا جا رہا ہے۔

چیتا

انڈیا مثال قائم کر سکتا ہے

انڈیا کی بات کریں تو ایسا نہیں ہے کہ ایسی کوششیں پہلے نہیں کی گئیں۔

ماہر تحفظات اور جنگلی حیات کے ماہر روی چیلم کے مطابق سنہ 1970 کی دہائی میں جب ایران میں شاہ کی حکومت تھی، انڈئا نے وہاں سے چیتے لانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ایران میں اقتدار بدلتے ہی یہ سب ختم ہو گیا۔

اسی طرح کا اقدام سنہ 2009 میں بھی لیا گیا، جس کے تحت کونو نیشنل پارک جیسے تین مقامات پر چیتوں کو آباد کرنے کے لیے ایکارادہ بنایا گیا۔

وزیر ماحولیات جے رام رمیش نے سنہ 2010 میں ایک بڑا اقدام اٹھایا، جس کے ایک دہائی بعد سنہ 2020 میں سپریم کورٹ نے انڈیا کی حکومت کو چیتے لانے کی اجازت دی۔

عدالت نے نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی کو چیتوں کے محفوظ طریقے سے رکھنے کے لیے بہتر جگہ تلاش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ظاہر ہے کہ چیتوں کی آمد کے حوالے سے کافی جوش و خروش ہے اور یہ تجسس بھی ہے کہ کیا شیروں اور چیتوں کی اپنی پناہ گاہوں سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی کوئی تاریخ ہے؟

پراجیکٹ سے وابستہ وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ڈین ڈاکٹر یادویندر دیو جھالا کہتے ہیں، یہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ لیکن یہ چیلنجنگ بھی ہے۔ معدوم ہونے والے جانوروں کو واپس لانے کی کوشش میں یہ انڈیا کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

ڈاکٹر یادویندردیو جھالا کہتے ہیں کہ ‘یہ ولولہ انگیز ہے، مشکل ہے، ایک کھوئے ہوئے خزانے کی واپس تلاش اور بحالی انڈیا کا بڑا کارنامہ ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

دنیا کا تیز ترین جانور 60 سال بعد انڈیا کے جنگلات میں پھر نظر آئے گا

’لوگ یہاں ٹائیگر دیکھنے آتے ہیں لیکن ہمیں تو ان کے ساتھ رہنا پڑتا ہے‘

دس برسوں میں 984 شیروں کی ہلاکت، انڈیا میں جنگل کا بادشاہ غیر محفوظ کیوں؟

بنگلہ دیش میں مافیا شیروں کو مار رہا ہے

یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں ہے کہ کیا یہ منصوبہ کامیاب ہوگا؟

وائلڈ لائف کے فلم ساز اجے سوری نے کہا کہ شیر سرسکا اور پنا ٹائیگر ریزرو میں پچھلی دو دہائیوں میں معدوم ہو گئے تھے، پھر انھیں رنتھمبور اور کنہا کے ٹائیگر ریزرو سے یہاں لایا گیا تھا۔

آج ان کی تعداد ہر جگہ بڑھ رہی ہے۔ گذشتہ صدی میں ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کے ییلو سٹون نیشنل پارک سے سرمئی بھیڑیا ناپید ہو چکا تھا۔ انھیں ایک بڑے نقل مکانی کے پروگرام کے تحت کینیڈا سے لایا گیا تھا اور انھیں دوبارہ آباد کیا گیا تھا۔’

اس وقت حکومت کونو نیشنل پارک میں چیتوں کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔ لیکن انڈیا میں قیمتی جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار کا مسئلہ اب بھی برقرار ہے۔

ورلڈ وائلڈ فنڈ اور لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کی رپورٹ کے مطابق انڈیا اب بھی جنگلی حیات کے شکار کا بڑا گڑھ بنا ہوا ہے۔

ہاتھی دانت اور گینڈے کے شکار کے علاوہ شیر اور چیتے کی کھالیں، ہڈیاں اور جسم کے دیگر اعضا اب بھی سمگلروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ان چیتوں کو کونو پارک میں لانے سے قبل دو ڈرون سکواڈ تیار کیے گئے ہیں، جن کا مشن جنگل کی نگرانی اور چیتوں کی حفاظت ہوگا۔

تاہم، ‘چیتا دوست’ ہو یا ڈرون سکواڈ ان سب کے لیے اپنے حقیقی امتحانات شروع کرنے کے لیے بہت کم وقت بچا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments