اگر لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جائیں تو۔ ۔ ۔


کارل مارکس کا ایک قول مشہور ہے اور میں نے جیسے کئی بار کہیں پڑھا ہے اسی طرح اس قول کو نقل کر رہا ہوں۔ وہ قول اس طرح ہے کہ ”اگر لوگ بھوک اور افلاس سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جائیں تو یہ سرمایہ دار رسیوں اور کفن کی دکانیں کھول دیں گے“

اس وقت ہر طرف سیلاب ہی سیلاب کی تباہ کاریاں پھیلی ہوئی ہیں۔ لوگ بھوک افلاس، بے گھری، دربدری اور بیسیوں دیگر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ لوگ دل کھول کر ہمیشہ کی طرح عطیات اور امداد بھی باہم پہنچا رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب قابل افسوس، قابل مذمت اور ناقابل برداشت واقعات کی خبریں بھی سوشل اور ”ان سوشل میڈیا“ پر چل رہی ہیں کہ آٹے کی قیمتیں دس یا بیس کلو تھیلی کی دو ہزار، ڈھائی ہزار تو کہیں تین ہزار روپے سے بھی تجاوز کر گئیں ہیں۔

عام تمبو یا ٹینٹ جو دو ڈھائی ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک دستیاب تھے وہ دس پندرہ بیس ہزار پر فروخت کیے جا رہے ہیں بلکہ سیکنڈ ہینڈ تمبو یا ٹینٹ بھی مہنگے داموں بیچے جا رہے ہیں۔

گھی دال چاول سبزی پھل اور دیگر اشیائے ضروریہ ناپید ہو چکی ہیں اور ذخیرہ کی جا رہی ہیں۔
فیصل آباد میں ذخیرہ شدہ آٹے کی بوریوں کی ایک کھیپ کو پکڑا گیا ہے۔
امداد دینے کے بہانے بچیوں کے ساتھ انسانیت سوز مظالم اور وحشی حرکات و سکنات کا بازار گرم ہے۔

گاڑیوں، رکشہ، ٹرکس، لاریوں اور دیگر باربرداری کے مالکان نے معمول سے دگنا دام وصول کرنا شروع کر دیے ہیں۔

کرائے کے مکانات رکھنے والوں نے ایک ایک مکان میں کئی کئی لوگوں کو کھپانے کے علاوہ غیر معمولی کرایہ حاصل کرنے کے لئے دن رات بغیر روکے اپنے فرائض منصبی کو بروئے کار لانے کے جتن میں مصروف ہیں۔

بیکری والوں نے بیکری کے آئٹم کو ذخیرہ کرنا اور مال شاٹ کرنے کے وہ حربے آزمانا شروع کر دیے ہیں کہ بندہ سن کر کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کر دیں گے بلکہ پلاسٹک اور کاغذ کے شاپر اور تھیلیاں بھی ناپید ہونا معمول بن گیا ہے۔

کمبلوں اور گرم کپڑوں کی مارکیٹس آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

ادویات تو پہلے سے مہنگی تھی ہی اب بس سیلاب ٹیکس انھوں نے خود سے عوام پر نافذ کرنا شروع کر دیا ہے اور اگر خریدار تھوڑی سی بھی مزاحمت کرنے کی کوشش کرے تو فٹ سے جواب دیں گے شکر کرو کہ ادویات دستیاب ہیں ورنہ سیلاب زدگان کے لئے جا رہی ہیں یہ بھی کہیں سے جگاڑ کر کے دستیاب کر رہا ہوں۔

مارکیٹ میں کہیں بھی جاؤ کوئی بھی چیز خریدیں مہنگائی کی تان سیلاب زدگان پر ہی آ کر ٹوٹے گی۔

جبکہ خیرات زکوۃ اور عطیات بھی یہی عوام ہی دے رہی ہے اور باہر سے بھی امداد آ رہی ہے لیکن یہ سیلاب کے اوپر مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کا جو خودساختہ سیلاب آیا ہے اس کا بھی تدارک ضروری ہے ورنہ مہنگائی کی وجہ سے اگر عوام اللہ نہ کرے خودکشیوں پر مجبور ہو گئے تو یہی منافع خور، ذخیرہ اندوز اور سرمایہ کاری کے دھن میں مست ٹولہ رسیوں اور کفن کی دکانیں کھول کر معمول سے ہٹ کر مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کر دیں گے اور ان میں سے شاید کچھ گورکن بھی بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments