سیاسی جماعتوں کا ڈھانچہ کیسا ہونا چاہئے


پاکستان کے مسائل پر اگر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں قانون سازی کرنے والا طبقہ عوامی مسائل کا نہ تو ادراک رکھتا ہے اور نہ ہی اس کی سیاسی و سماجی بصیرت اتنی ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے کوئی قابل عمل لائحہ عمل دے سکے اب چاہے وہ طبقہ سول و غیر سول بیوروکریسی میں سے ہو یا پھر عوام کے ووٹوں سے ”منتخب“ ہونے والے افراد، ذیل میں ہم اس موضوع کو زیربحث لاتے ہیں اور آگے بڑھنے کے لیے کسی قابل عمل حل کی جانب سفر کا آغاز کرتے ہیں۔

یوں تو کہا جاتا ہے کہ ہر وہ طرز حکومت بہترین ہے جو اس ملک یا ریاست کے باشندوں کے لیے سود مند ثابت ہو مگر دنیا آج اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور عوامی اجتماعی شعور کبھی بھی زیادہ عرصے تک غلط زاویے پر نہیں ٹک سکتا اس لیے اقتدار میں آنے اور رخصت کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہونا چاہیے یعنی جمہوری عمل کے ذریعے عوام اپنی قیادت کا انتخاب کریں اب وہ جمہوری عمل پارلیمانی ہو یا صدارتی، یا پھر متناسب نمائندگی کے ذریعے انتخاب، یہ سب عوامی رائے عامہ سے بننے والے طرز حکومت ہیں اور دنیا میں یہ نظام کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں اور عوامی سپورٹ سے ریاستیں اور سماج آگے بڑھ رہے ہیں مگر ارض پاک اور اس کے باشندوں کے مسائل حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے اور ہماری ریاست ہو یا اس کے باشندے ان کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جمہوری نظام ہو یا آمریت یہاں پر کوئی بھی دیرپا حل دینے سے قاصر رہا ہے

میری نظر میں اس کی اہم ترین وجوہات میں جاگیرداری یعنی فیوڈل لارڈز کے کنٹرول میں موجود نظام ہے سول و غیر سول بیوروکریسی کے اندر ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے اہم عہدوں پر تعینات افراد ہیں ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کسی بھی قسم کی عوامی مفادات پر مبنی پالیسی کو یا تو پاس ہی نہیں ہونے دیا جاتا یا پھر اس میں سقم چھوڑ کر اسے قابل عمل ہی نہیں رہنے دیا جاتا اور کوئی بھی حکومت پھر آسانی سے بلیک میل ہوجاتی ہے اور کسی قسم کی اصلاحات کے بجائے فرسودہ اور دنیا میں متروک طریقہ کار کے ذریعے ہی نظام مملکت چلانے کے لیے دے دیا جاتا ہے چوں کہ میں ایک سیاسی کارکن بھی ہوں اس لیے اس سے سیاسی اور جمہوری طریقے سے کیسے نبٹا جائے اس کا خاکہ پیش کرتا ہوں

ملک کے اندر کوئی بھی سیاسی جماعت یہ تہیہ کر لے کہ وہ اپنے کارکنان کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت کرے گے اور اس کی قیادت گراس روٹ لیول سے لے کر مرکز تک منتخب ہوگی تو اس کے لیے اسے بہت سے وقتی چیلنجز پیش آئیں گے ایک صبر آزما مرحلہ ہو گا مگر چوںکہ یہ ایک بڑا فیصلہ ہے اور بڑے فیصلے لینا ہی کسی قیادت اور جماعت کو عوام میں مقبول بناتا ہے اس لیے سیاسی جماعت کو متناسب نمائندگی نظام انتخاب کے تحت اپنی جماعت میں انتخابات کروانے چاہئیں کارکنان کو سیاسی طور پر ممبر بنانے کے لیے بنیادی سیاسی لٹریچر ازبر کروایا جائے اور انھیں ڈسپلن برقرار رکھنے کی تربیت دی جائے شارٹ کٹ کے بجائے محنت اور پرفارمنس کا عادی کیا جائے اور کسی بھی ممبر کے لیے ووٹ ڈالنے کی شرط یہ ہو کہ وہ کم از کم پارٹی کا 1 سال سے ممبر ہو اور جماعتی انتخابات میں حصہ لینے والے شخص کے لیے لازم ہو کہ وہ کم از کم پارٹی سے 3 سال کا تعلق رکھتا ہو یوں نئے پرانے کی بحث بھی ختم ہو جائے گی اور پارٹی میں ہر شخص میرٹ پر اوپر آ سکے گا اور جماعتی انتخاب ہارنے کی صورت میں بھی وہ گروپ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا وہ تنظیمی ڈھانچے میں بطور سٹیک ہولڈر موجود رہے گا جس سے کسی بھی ایک گروپ کی آمریت کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے گا اور کارکنان کے درمیان ایک صحت مند مقابلے کار رجحان فروغ پائے گا اس کے ساتھ ساتھ اختلاف رائے کے باوجود بھی بڑے مقاصد کے لیے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رواج فروغ پائے گا ایک بہترین ورکنگ ریلیشن قائم ہو گا اور ان کے ممبران اسمبلی پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے اک بہترین ”انٹرنل فورم“ موجود ہو گا۔

جہاں پر ممبرشپ نہ ہونے یا کسی اور وجہ سے انتخابات نہ ہو سکیں وہاں پر ایک سال کے اندر ممبرشپ مکمل کرنے کا ٹارگٹ دیا جائے اور ایک سال کے اندر انتخابات کروائے جائیں، یہاں پر فنڈنگ ایک بہت اہم چیلنج بن کر سامنے آئے گا مگر انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے سروائیول کا رستہ ڈھونڈ لیتا ہے اس لیے مرکزی سطح پر پارٹی فنڈ بنا کر اپنی معاشی ٹیم کے ذریعے ”اخوت“ جیسے ماڈل کو کاپی کر لیا جائے اور اس کے ذریعے فنڈنگ کے مسائل پر قابو پایا جائے تاکہ جو کارکنان پارٹی کو فنڈ نہ دے سکیں وہ اپنی خدمات کے ذریعے پارٹی کو آگے لے کر جائیں، ہر قسم کے ترقیاتی پراجیکٹ یونین کونسل کے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان پر قائم کمیٹی کی نگرانی میں کروائے جائیں اور اس ترقیاتی کام کی مکمل تفصیل اس کمیٹی کے سامنے پیش کی جائے، کسی بھی سیاسی کارکن کو پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کے لیے پارٹی کا شکایات سیل با اختیار کیا جائے، شکایات سیل کے اراکین ہر تین سال بعد تبدیل کیے جائیں اور ریٹائرڈ ممبران پارلیمنٹ کو شکایات سیل کا ممبر بنایا جائے تاکہ عمر کے آخری حصے میں بھی ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے اور ان کی ماضی کی خدمات کے اعتراف کے بدلے میں انھیں عزت سے نوازا جائے

یہاں میں ایک بات کا اضافہ کرتا جاؤں کہ پارٹی میں موجود ”الیکٹبلز“ کی کافی بڑی تعداد پارٹی کی تنظیمی فعالیت کی مخالفت کرے گی کیوں کہ ان کے خیال میں ان کے دھڑے اس سے نقصان اٹھائیں گے مگر متناسب نمائندگی نظام کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ وہ کسی بھی دھڑے یا گروپ کو سسٹم سے آؤٹ نہیں کرتا بلکہ سمارٹ مووز کرنے والا سیاسی دھڑا پارٹی میں اوپر آ جاتا ہے لہٰذا ان الیکٹیبلز کو وقتی طور پر مطمئن کیا جاسکتا ہے

جب تک ہم سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے کو عام آدمی کے سٹیکس میں تبدیل نہیں کریں گے تب تک نہ تو سیاسی جماعتیں مضبوط ہو سکیں گی اور نہ ہی عوامی مسائل کا ادراک رکھنے والی سیاسی قیادت قانون ساز ادارے کی ممبر بن سکے گی

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں مڈل کلاس کی نمائندگی کا دعوی کرنے والی سیاسی جماعتیں اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اہم ترین اقدامات کریں تاکہ سماجی بہتری کا سفر تیزی کے ساتھ شروع کیا جا سکے اور عوامی مسائل کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق حل کیا جا سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments