آزادی کے 75 برس بعد بھارت اور پاکستان کا تقابل


پاکستان اور بھارت نے پچھلے مہینے آزادی کی 75 ویں سالگرہ منائی۔ ان پچھتر سالوں میں دونوں ملکوں کی ترقی کا سفر کچھ زیادہ قابل رشک نہیں رہا۔ دونوں ممالک میں کروڑوں لوگ ابھی بھی غربت کی لکیر کے نیچے بے کسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 75 سالوں سے آزادی کے بعد بھی کروڑوں لوگ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان مہیب انسانی مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے دونوں ممالک سالانہ کھربوں روپے اپنی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے میں مصروف ہیں۔

بھارت کروڑوں لوگوں کو سڑکوں پر رات بسر کرنے سے نجات دینے کی بجائے اپنے لڑاکا طیاروں کے لیے سمندروں میں آرام دہ رہائش مہیا کرنے کے لیے جدید بحری بیڑے بنا رہا ہے۔ پاکستان کی سمت بھی ان 75 سالوں میں کچھ اسی طرح ہے جہاں عوام کی سہولتیں بہتر کرنے اور غربت کے خاتمے کی بجائے ہم ٹینک، لڑاکا طیارے، نئی کنٹونمنٹس اور نیا جی ایچ کیو بنانے میں خطیر رقوم خرچ کر رہے ہیں۔

دونوں ممالک کا اپنے قیمتی وسائل کا برابر ضیاع کرنے کے باوجود بھارت تقریباً تمام اہم شعبوں میں پاکستان سے آگے دکھائی دیتا ہے۔ چاہے یہ تعلیم کا شعبہ ہو یا معیشت کا، دفاع کا یا خارجہ تعلقات، پچھلے 75 سالوں میں بھارت نے یقیناً ہم سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

اگر ہم 2020 کے فی کس آمدنی کے اعداد پر نظر ڈالیں تو بھارت ہم سے 6 گنا زیادہ آبادی کے باوجود کئی درجہ اگے 1928 ڈالر پر کھڑا تھا جب کہ ہماری فی کس آمدنی صرف 1189 ڈالر تھی۔ اگر ہم پیداوار کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو صورتحال مزید مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔ پچھلے 28 سالوں میں ہماری جی ڈی پی پی (داخلی پیداوار) صرف دو سالوں 2004 اور 2005 میں 6 فیصد کے قریب پہنچی جبکہ بھارتی پیداوار انہیں 28 سالوں میں 18 سال 6 فیصد سے زیادہ بڑھی۔ اسی طرح اگر پچھلے مالی سال پر نظر ڈالی جائے تو آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی ترقی کی رفتار 8.6 فیصد رہی جبکہ ہماری 4.3 فیصد کے قریب رہی۔

اگر تجارت کے شعبے پر نظر ڈالی جائے تو 1993 میں یہ ہماری جی ڈی پی کا ریکارڈ 38 فیصد تھی جو کہ اب گر کا 28 فیصد کے قریب ہے۔ اگر بھارت پر نظر ڈالیں تو 2020 میں یہ ریکارڈ 56 فیصد کے قریب تھا اور اس وقت ابھی بھی ہم سے بہت زیادہ 38 فیصد کے قریب ہے۔

بھارت کی جی ڈی پی اس وقت ہم سے 10 گنا زیادہ بڑی ہے اور بھارت اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے جبکہ پاکستان بہت نیچے 48 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت کے ایک صوبے مہاراشٹرا کی جی ڈی پی بھی ہم سے زیادہ ہے اور تامل ناڈو کی جی ڈی پی ہمارے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔ یہ صورتحال آزادی کے فوراً بعد ایسے نہیں تھی۔ فی کس آمدنی کے حساب سے ہم آزادی کے بعد تقریباً ساتھ ساتھ تھے۔ 1960 سے لے کر 2006 تک بھارت صرف پانچ سال ہم سے فی کس آمدنی میں آگے تھا مگر 2009 کے بعد سے یہ فرق مسلسل بھارت کے حق میں بڑھتا جا رہا ہے۔

دفاع کے شعبے میں ہمارے اخراجات جی ڈی پی کے لحاظ سے بھارت سے آگے رہے ہیں اور ابھی بھی ہم اس شعبے میں بھارت کے مقابلے میں جی ڈی پی کی اوسط کو دیکھتے ہوئے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ ہماری تاریخ میں سب سے زیادہ جی ڈی پی کی شرح کے حساب سے دفاع پر 1993 میں سات فیصد کے قریب خرچ ہوا اور اس وقت بھی بھی ہم دفاع پر چار فیصد کے قریب خرچ کر رہے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں بھارت نے تاریخ کا سب سے زیادہ دفاع پر خرچ 4.2 فیصد کیا جو کہ اس وقت تقریباً 2.9 فیصد کے قریب ہے۔

ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت آٹھ ارب ڈالر سے بھی کم ہیں اور اس کے موجودہ اعداد و شمار میں بیرونی ممالک اور مالی اداروں کی دی ہوئی امداد شامل ہے۔ اس امداد کو اگر منہا کر دیا جائے تو شاید ہمارے پاس چار یا پانچ ارب ڈالر ہی بچیں گے جو ہمارے ایک مہینے کے تجارتی اخراجات کے لیے بھی ناکافی ہوں گے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 572 ارب ڈالر پر کھڑے ہیں۔ دونوں ممالک کی معاشی طاقت میں اتنا شدید فرق ہے کہ ہم اس وقت عالمی مالیاتی اداروں سے زرمبادلہ کی بھیک مانگ رہے ہیں جب کہ بھارت اس وقت اربوں ڈالر دوست ممالک بشمول سری لنکا کو امداد کے طور پر دے رہا ہے۔

اسی طرح اگر خارجہ پالیسی کے میدان میں دیکھیں تو بھارت بین الاقوامی تکریم کے معاملے میں ہمیں کئی درجے پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ ہمارے قریبی مسلمان دوست ممالک اپنی معاشی ترقی کے لیے بھارت کو ہم سے بہتر ساتھی سمجھتے ہوئے وہاں بہت بڑی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ صورت حال اس قدر بگڑ گئی ہے کہ اب ہمارے دیرینہ مسلمان دوست ممالک کشمیر کے بارے میں بھی ہماری حمایت کے اظہار سے ہچکچا رہے ہیں۔

اگر دونوں ممالک کی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالیں تو بھارت اس وقت سیاسی طور پر ایک مستحکم جمہوری ملک سمجھا جاتا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناتے سے بہت قدر و منزلت ہے۔ جب کہ ہم پچھتر سالوں بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہم ایک جمہوری ملک کے طور پر رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ہم سیاسی قیادت کی نا اہلی اور فوجی قیادت کی متواتر دخل اندازی کی وجہ سے مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہمیں نہ معاشی اور نہ ہی سماجی استحکام میسر ہو سکا ہے۔ ہم اس وقت بھی ایک شدید سیاسی تقسیم کا شکار ہیں اور ہماری قومی قوت مسلسل زوال پذیر ہے۔

اس نہ رکنے والے زوال کے سفر کی وجہ ہماری قومی اداروں پر حاوی اشرافیہ ہے، جسے اپنی مراعات اور طاقت کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہے۔ ہر اہم سیاسی، دفاعی اور قانونی ادارہ، قانون و آئین اور عوامی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی طاقت کو ہر صورت برقرار رکھنے میں مصروف ہے۔ ہم ایک غریب ملک ہیں جو ہر ممکن بین الاقوامی ذریعے سے امداد مانگ رہا ہوتا ہے مگر ہمارے اعلی سرکاری عہدے داروں کا رہن سہن دیکھیں تو ہم ایک انتہائی امیر ملک دکھائی دیتے ہیں۔

آپ جرنیلوں اور ججوں کے سفر کے دوران ان کے حفاظتی قافلے پر نظر ڈالیں تو درجنوں گاڑیاں اور حفاظتی عملہ ان کے ساتھ چل رہا ہوتا ہے۔ ان کی قیمتی پرتعیش گاڑیوں کو دیکھیں تو ہم کسی طرح سے غریب ملک نہیں دکھائی دیتے۔ اور تو اور سابق وزیراعظم جو سائیکل پر چلنے کی باتیں کرتے تھے ان کے حفاظتی پروٹوکول کو دیکھیں تو وہ کسی بادشاہ سے کم نہیں دکھائی دیتے۔ ہم غریب اور قرضوں میں جکڑے ہوا ملک ہونے کے باوجود نئے عظیم الشان جی ایچ کیو کی تعمیر میں اربوں روپے ضائع کرنے میں تامل محسوس نہیں کرتے۔

ملک کی بہبود سے سے لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ آدھا ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے مگر تقسیم پر مبنی سیاسی چالیں عروج پر ہیں۔ اس صورتحال کے جاری رہنے سے ہمارا معاشرہ مزید کمزور ہو گا اور تنزلی کا یہ سفر تیزی سے جاری رہے گا۔ اگر ہم نے اس زوال کو روکنا ہے تو غیر پیداواری اخراجات اور اعلی حکام کی عیاشیوں میں شدید کمی لانی ہوگی ورنہ ہم ایک خونی سماجی تبدیلی کو نہیں روک پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments