ناول صفر کی توہین، سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں


اشعر نجمی شاعر ہیں۔ ادیب ہیں۔ ادبی جریدہ اثبات کے مدیر ہیں اشعر نجمی کا ناول صفر کی توہین اس وقت زیر بحث ہے۔

ایسے حساس موضوع پر قلم اٹھانا ہمت کا کام ہے اشعر نجمی نے اس ناول کے ذریعے قاری کے ذہن کو جھنجھوڑنے کی جو کوششیں کی ہے قابل ستائش ہیں۔

اس ناول کو سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
سلسلہ کلامیہ وہ علم ہے جس سے مذہبی عقائد کو عقلی دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں۔

الحاد کا عربی میں لغوی معنی انحراف یا راستے سے ہٹ جانا ہے۔ الحاد کو ایتھزم کہا جاتا ہے جس کا اردو زبان میں مطلب لادینیت لیا جاتا ہے۔ الحاد اسلامی مضامین میں استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح ہے جو منکروں (خدا کے وجود کا انکار کرنے والوں ) کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

ناول کا مرکزی کردار بابو راؤ ناستک ہے ناستک کا معانی ملحد کے ہیں۔ یہ بابو راؤ ملحد ہو چکا ہے اور اپنے نام کے ساتھ ناستک لگا چکا ہے۔ وہ بھگوان سے متعلق عجیب باتیں سوچتا ہے اس کے ذہنی انتشار نے اسے بے چینی اور کرب میں مبتلا کر رکھا ہے یہ ہندو ہے لہذا بھگوان کا منکر ہو چکا ہے۔

ناول کے دیگر کرداروں میں بابو راؤ کی بیوی جو کہ مسلمان اور دینی تعلیم سے مالامال تھی ملحد ہو چکی ہے دونوں کا ایک بچہ ہے۔ باقی کرداروں میں ایک یہودی مرد اور عیسائی عورت کے دو بچے ہیں جو کہ کسی دین کو نہیں مانتے پھر سب سے نمایاں کردار جمیل کا ہے جو کہ ناول کے صفحہ نمبر 83 سے شروع ہوتا ہے اور تقریباً آخر تک جاتا ہے اس جمیل کی نفسیاتی گرہیں ناول نگار نے بہت تفصیل سے کھولی ہیں۔ عام گھروں سے مدرسوں تک کیا ہو رہا ہے۔ اشعر نجمی نے معاشرے کے دہرے معیار پر بڑی مہارت سے نشتر چلایا ہے۔ ناول میں دکھائے گئے مذہبی لوگ یعنی مولوی کسی قدر دوغلے ہیں۔ اس کی وجہ وہ جنسی گھٹن ہے جس کا شکار انہیں بچپن سے عذاب الہی سے ڈرا کر کیا جاتا ہے۔ جنس اور پیٹ کی بھوک دونوں انسان کو حیوان بنا دیتی ہیں۔

مذہبی ریاکاری اور منافقت کے ساتھ ہمارا معاشرہ ہمارے بچوں کو کیا بنا رہا ہے اصل سوال یہ ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں انسان کے ہاتھ میں کی پیڈ ہے لیکن وہ بالکل تنہا ہے۔ انسان کا اکیلا پن بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ لوگوں میں رہتے ہوئے بھی تنہا ہے کیونکہ اس کی ذہنی مطابقت ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ نہیں ہے اسی لیے اسے اپنا وجود مردہ محسوس ہوتا ہے ہندسے زندہ انسان کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ انسان اپنی شناخت کے لیے ہلکان ہو رہا ہے۔ مسلسل تلاش اسے صرف تھکا رہی ہے۔ اور بس۔

کیا انسان کے پاس خدا کے وجود پر سوال اٹھانے کا اختیار ہے؟
خدا کی ذات کیا ہے؟
ایک ادنی کم عقل ذہن اعلی ذہن کی بابت کیسے سوچ سکتا ہے؟

ان سوالوں کو ناول نگار نے اٹھایا ہے۔ دور حاضر کی جدید ایجاد نیٹ نے جنسی مواد کی فراہمی سے جنسی بے راہروی میں تیزی سے اضافہ کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ الحاد پرستی کا تناسب بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ انسانی ذہن کو باغیانہ سوچ میں الجھا کر برین واشنگ کی جا رہی ہے۔ اصل مسئلہ جو نئی نسل کو درپیش ہے وہ یہ ہی ہے اس کی طرف توجہ دلانا ناول نگار کا اصل کمال ہے۔ اثبات کے ادبی جریدوں میں اہم موضوعات۔ عریاں اور فحش نگاری نمبر، صدی شخصیت منٹو اور میرا جی، صدی شخصیت فیض احمد فیض، سرقہ نمبر، احیائے مذہب، اتحاد، انتشار اور تصادم، عالمی نثری ادب، ہم جنس پرستی، الحاد پرستی کو موضوع بنایا جا چکا ہے جو کہ اشعر عجمی کی دور حاضر کے تقاضوں کی طرف توجہ کو ظاہر کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments