13 سالہ ملازمہ کا بہیمانہ قتل اور بیگم جونا گڑھ کی سزا


کافی عرصے پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس میں مصر کے ایک گنجان آباد شہر میں لگنے والے بازار کے بارے میں پڑھا تھا جس کے لئے مہینے کا ایک خاص دن مقرر کیا جاتا تھا اس دن صبح، صبح شہر کے لوگ اپنے اپنے نوخیز جگر کے ٹکڑے لے لے آ کر آتے اور ان کو بازار لگتے وقت شاہراہ کے دونوں جانب لے کر کھڑے ہو جاتے اور پھر خریداروں کا اژدہام اس شاہراہ میں داخل ہوتا اور پسندیدہ بچے کو بہ حیثیت زر خرید غلام لے کر اس کے وارث کو دام چکا کر اپنی راہ لیتا حضرت یوسف علیہ السلام بھی اسی بازار میں عزیز مصر کے ہاتھوں فروخت کیے گئے تھے۔

مجھے نہیں معلوم کہ اس دور میں ان فروخت شدہ غلاموں کے ساتھ ان کے مالکان کیا سلوک کرتے ہوں گے، اور پھر فروخت ہونے کے بعد ان معصوم بچوں اور قدرے نو جوان لڑکوں کو واپس اپنے گھروں کی شکل دیکھنی نصیب نہیں ہوتی تھی کیونکہ یہ فروخت شدہ غلام اپنے زرخرید آقاؤں کے ہمراہ اکثر دور دراز کے ملکوں کو چلے جاتے تھے، پھر ان کے آقا ہی ان کی موت و زیست کے مالک ہوتے تھے مجھے نہیں معلوم کہ وہ بد نصیب غلام کتنے فیصد جیتے تھے اور کتنے ہی اپنے آقاؤں کے ہاتھوں آج کے پاکستان کے معصوم فروخت شدہ غلاموں کی طرح بچپن کی معصوم عمر کی کسی چھوٹی سی خطا یا بے خطا ہی بہیمانہ طریقے سے مار ڈالے جاتے ہوں گے یا زمین کا گڑھا کھود کر زندہ دفن کر دیے جاتے ہوں گے۔

مجھے یہ قصہ اس لئے بے اختیار یاد آ گیا کہ نواب آف جونا گڑھ کی بیگم  منور جہاں نے اپنے محل کی تیرہ سالہ ملازمہ سے ناراض ہو کر اپنی لحیم شحیم حبشن ملازمہ کو حکم دیا کہ لڑکی کے جسم کے نازک اعضا میں مرچیں بھر دی جائیں اور پھر محل سے نکل کر سیر سپاٹے کو نکل گئیں حبشن ملازمہ نے حکم پر عمل درآمد کیا اور مرچیں بھرنے کے بعد لڑکی کو اکیلے کمرے میں بند کر دیا یہ وقت دوپہر سے پہلے کا تھا۔ لڑکی چیختی چلاتی رہی اور شام ہوتے ہوتے لڑکی کی چیخیں ہلکی ہلکی سسکیوں میں بدلتی ہوئی بالآخر خاموش ہو گئیں۔ اس مقدمے مین سندھ چیف کورٹ نے 16 فروری 1953 کو بیگم جونا گڑھ کو تابرخواست عدالت قید اور چھ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اس جرم پر  پاکستان میں آج بھی گھریلو ملازموں کے ساتھ کم بیش ایسے ہی بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔

اب آئیے آج کی دنیا میں چائلڈ لیبر پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں

انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ ( آئی ایل او) تمام دنیا میں اس وقت قریب قریب بیس لاکھ بچے انتہائی خطرناک صنعتی ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر چائلڈ لیبر فورس میں کمی جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان میں اضافہ ہوا جبکہ تمام دنیا میں بائیس ہزار بچے سالانہ دوران مشقت ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی مشقت کے حوا لے سے جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل کے مطابق دنیا میں پانچ سے سے چودہ برس کی عمر کے سولہ کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول کے بجائے محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں اور سات کروڑ تیس لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جو دس برس سے کم عمر ہونے کے باؤ جود چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں۔

دنیا میں پانچ سے سترہ برس کی عمر کے کئی کروڑ بچے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کل چائلڈ فورس کا 93 / فیصد کا تعلق ایشیا اور افریقہ سے ہے اور کان کنی جیسے سخت ترین پیشے سے بھی کئی لاکھ بچے اپنا رزق حلال کما رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دنیا میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے اتنے سخت قوانین بنائے جائیں کہ کوئی سرمایہ دار ان معصوموں کا جسمانی اور معاشی استحصال نا کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments