عمران خان اور چائے کی پیالی میں طوفان


چند روز قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کے اینکر کامران خان کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی عام انتخابات کے بعد نئی منتخب حکومت کو کرنی چاہیے اور تب تک کے لیے قانون میں کوئی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس انٹرویو پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’موجودہ حکومت اس ذمہ داری کو مقررہ وقت پر آئین اور ادارے کی بہترین روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی، اہم قومی فیصلے سیاسی مفادات سے مشروط نہیں ہوتے۔ ‘

گوجرانوالہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر توانائی خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف پارٹی کے قائد نواز شریف سے مشورہ کے بعد ہی نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تقرری مقررہ وقت پر ہوگی۔ اس حوالے سے وزیر اعظم اپنے قریبی ساتھیوں کے علاوہ نواز شریف سے بھی مشاورت کریں گے۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ حتمی فیصلہ وزیر اعظم کا استحقاق ہے اور وہی اس سلسلہ میں فیصلہ کریں گے

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے فیصل آباد میں جلسے سے خطاب میں پاک فوج کی سینیئر قیادت سے متعلق بیان دیا تھا جس پر ملکی قیادت اور پاک فوج کی جانب سے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ صدر مملکت عارف علوی نے بھی اپنے ایک بیان میں عمران خان سے اپنے بیان کی وضاحت کرنے کا کہا

صدرمملکت کا کہنا تھا کہ فوج محب وطن ہے، جان دیتی ہے، فوج نے سیلاب میں بھی کام کیا، آرمی چیف سمیت پوری فوج کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا، موجودہ حکومت سمیت سب ادارے محب وطن ہیں۔

پڑھنے والوں کے ذہن میں ہو گا کہ عمران خان نے فیصل آباد کے جلسہ میں انتہائی قابل اعتراض باتیں، جن سے پاک فوج کے سینئر جرنیلوں کے بارے میں شبہات پیدا ہوتے تھے۔ فوج میں اس بیان کو لے کر تشویش پائی گئی جس پر آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز بھی جاری کی، جس کے مندرجات کے مطابق پاک فوج کی سینئر لیڈر شپ کی اہلیت اور حب الوطنی ان کی دہائیوں پر محیط بے داغ اور شاندار عسکری خدمات سے عیاں ہے۔

پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش اور آرمی چیف کی تعیناتی کے طریقہ کار کو متنازعہ بنانا نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی پاک فوج کے مفاد میں ہے۔

جب سے عمران خان اقتدار سے الگ ہوئے ہیں، اس وقت سے پاک فوج پر بے جا تنقید کر رہے ہیں جسے وہ تعمیری تنقید کا نام دے رہے ہیں، فوج ایک عرصے سے اپنے آپ کو نیوٹرل رکھ کر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں متحرک ہے، ملک سیلابی صورتحال سے دو چار ہے اور عمران خان کو نئے آرمی چیف کا تقرر کی فکر اور سیلاب کی تباہی، انسانی جانوں کے نقصانات کے بعد گندم کی فصل اچھی آنے کی خوشی ہے، اس نرالی منطق پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے

فوج اگر سیاست، عدالت، صحافت یا حکومت کے معاملات میں نیوٹرل نہیں رہتی تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتی ہے اور یہاں تنقید نہ صرف جائز بلکہ فرض بن جاتی ہے لیکن عمران خان کی تنقید کی بنیاد یہ ہے کہ فوج آئینی رول تک محدود ہو کر نیوٹرل کیوں بنی؟

آئین سپریم ہے اور آئین کے مطابق وزیر اعظم کو وزارت دفاع کی سفارشات پر پاک فوج کے سربراہ کی تقرری کا اختیار ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پی ٹی آئی کیوں آئین کی پامالی اور غیر یقینی صورتحال پیدا کر کے غیر ضروری بحث کھولنے کی کوشش کر رہی ہے؟ اب جبکہ پی ٹی آئی نہ تو حکومت میں ہے اور نہ ہی اپوزیشن میں کیونکہ انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا ہے، وہ آئینی عمل کو سبوتاژ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ تحریک انصاف اپنے آپ کو قانون کی پاسداری سے اوپر سمجھتی ہے، آرمی چیف کے تقرر کے معاملے کو تحریک انصاف کی منشا کے مطابق سڑکوں یا ٹاک شوز میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا ہے، اس گفتگو کے لئے بہترین فارم پارلیمنٹ کا فلور ہے، جہاں اس معاملے پر آئینی نکتہ نظر کے تحت بات چیت کی جا سکتی ہے

یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 14 اپریل 2022 کو ڈی جی آئی ایس پی آر افتخار  نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ آرمی چیف کسی توسیع کے خواہاں نہیں ہیں وہ شیڈول کے مطابق نومبر 2022 کو ریٹائر ہو جائیں گے، سوال یہ ہے کہ آخر کیوں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی باضابطہ تصدیق کے بعد بھی تحریک انصاف ملکی سیاست میں انتشار پیدا کرنا کیوں چاہ رہی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments