جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی


دنیا میں قدیم زمانے سے بادشاہی نظام رائج تھا، جس میں ایک ہی شخص ملک و قوم کے سیاہ و سپید کا مالک و مختار ہوتا تھا، وہ اپنی صوابدید پر کوئی بھی فیصلہ لینے کا مجاز تھا اور کوئی بھی اس کے فیصلے سے انکار نہیں کر سکتا تھا، بھلے ہی اس کا فیصلہ غلط ہو اور بھلے ہی اس فیصلے کا نقصان خود بادشاہ کوہی پہنچنے والا ہو۔ گرچے اس کے مشیر اور وزیر ہوتے تھے مگر وہ سخت ترین حالات میں بھی بول نہیں سکتے تھے، حتی کہ صاحب علم و دانش اور بزرگ ترین لوگ بھی براہ راست کچھ نہیں بول سکتے تھے وہ اگر کچھ بولتے بھی تھے تو اشاروں اور کنایوں میں ہی کچھ لکھ بول سکتے تھے۔

سنسکرت کی مشہور کتاب پنچ تنتر کی تصنیف کی علت یہی بیان کی جاتی ہے کہ اس وقت فلسفی بیدوا نے بادشاہ کو نصیحت کرنے اور حکمرانی کے داؤ پیچ سکھانے کے لیے یہ کتاب لکھی تھی۔ اور چونکہ وہ سیدھے سیدھے بادشاہ کو سمجھا نہیں سکتے تھے اس لیے انہوں نے جانوروں اور پرندوں کی زبان میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی شکل میں یہ کتاب لکھی۔ بادشاہوں کا مزاج اس قدر خوفناک ہوتا تھا کہ اس کے وزیر اور مشیر اگر بادشاہ کو کوئی مشورہ دیتے بھی تھے تو اپنی جان کی قیمت پر دیتے تھے، اگر مشورہ درست ہوا تو انعام و اکرام سے نوازے جاتے تھے اور اگر بدقسمتی سے مشورہ درست ثابت نہیں ہوا تو معمولی سزا یہی ہوتی تھی کہ ان کے بدن سے روح کھینچ لی جاتی تھی۔

حد تو یہ ہے کہ بادشاہ کو ظل الٰہی سمجھا اور کہا جاتا تھا، رعایا یہی تصور کرتی تھی کہ بادشاہ کی زبان سے خدا خود کلام کرتا ہے۔ بادشاہ ہی ایؔتھا، بادشاہ کے اس فیصلے کو بھی کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ ابھی تین چارسو سال پہلے تک ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج رہا اور اس پورے زمانے میں لوگوں کو اس میں کچھ بھی برائی نظر نہیں آتی تھی۔

مگر اسلام نے اسے غلط سمجھا اور اہل ایمان کو اس معاملے میں رہنما اصول دیے۔ اللہ کی ہدایت مسلمانوں کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے باہم دگر مشورہ کیا کریں۔ قرآن نے کہا: ”وامرہم شوریٰ بینہم“ البتہ اسلام نے امیر کو مشیروں کے سامنے بے بس اور لاچار بھی نہیں کیا کہ امیر یا حاکم اپنی مجلس یا پارلیمنٹ کی اکثریت کی رائے کو قبول کرنے کے لیے مجبور رہے اور ہر حال میں رہے، بھلے ہی اس کا ذہن کچھ اور کہتا ہو اور اسے خیر کسی اور طرف نظر آ رہا ہو۔ بلکہ اللہ نے اپنے نبی ﷺکو یہ ہدایت فرمائی ”وش اور ہم فی الامر“ کہ تمام معاملات میں اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کریں۔ پھر فرمایا: ”فاذا عزمت فتوکل علی اللہ“ باہم مشاورت کے بعد پھر جب کسی نتیجے تک پہنچ جائیں تو پھر اس پر جم جائیں اور اللہ پر بھروسا رکھیں۔

بعد کے زمانے میں دنیا میں جمہوری طرز حکومت رائج ہوا۔ اور مختصر مدت میں دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ طریقہ رائج ہو گیا۔ جمہوری طرز حکومت کو بہترین طرز حکومت بتایا جاتا ہے، مگر گزشتہ ڈھائی تین سو سالوں میں دنیا کے مختلف ممالک میں جو تجربات سامنے آئے ہیں وہ بہت چونکانے والے ہیں۔ اور بہت سے لوگوں نے اس نظام پر بھی تنقیدیں لکھی ہیں۔ خود علامہ اقبال نے اس نظام پر تنقید کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس نظام میں بھی شاہی نظام کی طرح کے پرویزی حیلے بازیاں ہیں، نام گرچہ بدل گیا ہے اور بیشتر حاکموں کا مزاج تو اب بھی وہی ڈکٹیٹروں والا ہے۔

جمہوری نظام میں بھی وی آئی پیز اور غیر وی آئی پیز میں فرق کیا جاتا ہے۔ اس نظام کی زمام کار بھی زیادہ تر امیر لوگوں کے ہاتھوں میں ہی رہتی ہے اور دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں امیر خاندان ہی حکومت کرتے رہے ہیں بلکہ کر رہے ہیں۔ جمہوری حکومتوں میں الیکشن کا نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ بے حد و حساب روپے پیسے کے بغیر کامیابیاں نہیں مل سکتیں، الیکشن گردی میں خرچ کرنے کے لیے جس کنڈی ڈیٹ اور پارٹی کے پاس زیادہ دولت ہوگی جیت بھی اسی کی ہوگی، پھر اوپر سے پینترے بازیاں ہیں، دجل و فریب ہے اور دھونس دھاندلیاں ہیں، کہ ان کے بغیر الیکشن جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔

اس نظام کی جب خوبیاں گنوائی جاتی ہیں تو یہی کہا جاتا ہے کہ عوام ہی ملک کے مالک و مختار ہوتے ہیں کیونکہ وہی لوگ اپنے من پسند نمائندے چن کر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ غریب عوام کی تقدیر آج تک بھی نہیں بدلی ہے، بلکہ اب تو امیر و غریب کا فرق پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری ریاستیں گرچہ خود کو سیکولر ازم کی علمبردار قراردیتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا کوئی نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور ان کے حکمراں اپنے اپنے مذاہب اور اقوام کے لیے متعصب بھی ہوتے ہیں۔ وہ بیشتر معاملات اپنے مذہب اور اپنی قوم کے کاز و مفادات کو سامنے رکھ کر ہی لیتے ہیں۔ بلکہ آج کل تو عجیب و غریب صورت حال ہے، اب تو یہ بھی ہو رہا ہے کہ کئی ممالک جمہوریت اور سیکولر ازم کا راستہ ترک کر کے قدیم مذہبیت کی طرف جا رہے ہیں، بعض جا چکے ہیں اور بعض جانے کی پوری کوشش میں ہیں۔

اسی لیے اقبال کہتے ہیں کہ اگر زمام کار مزدوروں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے پھر بھی مزدوروں کی قسمت نہیں بدلی ہے، کیونکہ پرویزی یعنی شہنشاہی حیلے بازیاں تو جمہوری اور سیکولر حکومتوں میں بھی وہی رہتی ہیں۔

زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریق کو ہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

پھر وہ آگے ایک اہم نکتہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکمراں جب تک دیندار اور صاحب ایمان نہیں ہوں گے تب تک چنگیزیت کے مظاہر ہی سامنے آتے رہیں گے۔ پھر چاہے حکومت شخصی ہو یا جمہوری اس سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ فرق تو حکمرانوں کی سوچ سے پڑتا ہے۔ اگر حکمرانوں کی سوچ نہیں بدلی اور صرف حکومت کرنے کا طریقہ بدل لیا گیا تو اس سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ مثل مشہور ہے۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ تو جب انسان کا مزاج ہی ہیرا پھیری والا بنا ہو گا تو محض نظام کچھ بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے اقبال شہنشاہیت اور جمہوریت دونوں کو چنگیزیت سے تعبیر کرتے ہیں۔

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

جب حکمرانوں کے دل میں ایمان نہیں ہو گا اور انسانیت نام کی کوئی چیز ان کے مزاج کا حصہ نہیں ہوگی تو وہ صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہی کام کریں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کر لیں گے کہ اپنی قوم اور اپنے ملک کے لیے کام کریں گے مگر وہ دوسری قوموں اور ملکوں کو نقصان پہنچائیں گے۔ اور یہ دنیا کے سامنے ہے کہ امیر ممالک کس طرح تیسری دنیا کے غریب ممالک کے ریسورسز کو کھا رہے ہیں۔ آئے دن غریب ملکوں پر حملے کر کے انہیں تباہ و برباد کر رہے ہیں اور ان کے وسائل لوٹ رہے ہیں۔

موجودہ دور میں مسلمان ممالک کے لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ وہ خلافت راشدہ والا طریقہ اور خلفائے راشدین والا مزاج اپنائیں۔ اور اگر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق وہ جمہوریت کو کسی قدر بہتر تصور کرتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کا پوری طرح اسلامائزیشن کریں، جمہوری طرز حکومت اور فکر و نظر سے مادیت کے عنصر کو نکال کر اس کی جگہ اسلام کی روح داخل کر دیں۔ یقیناً یہ ان کے لیے ایک بہتر آپشن ہو گا۔ مگر جمہوریت اور سیکولرازم کے جھوٹے دعوے داروں اور خود مسلمانوں میں لبرل اور روشن خیالوں کا زور اور دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ مسلم ممالک کے مسلم حکمراں اور اہل علم یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ اسلام کا اپنا بھی ایک طرز حکمرانی ہے اور ان کے لیے خلافت راشدہ کا اعلیٰ و ارفع ماڈل موجود ہے، جسے نئے زمانے میں وقت و حالات کے تقاضوں کے مطابق بنا سنوار کر ، کچھ حذف و اضافہ کر کے ایک بار پھر دنیا کے سامنے حکمرانی کے ایک اعلیٰ ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

اور مسلم حکمراں یہ سب سوچ بھی کیسے سکتے ہیں جب ان کی تعلیم وتربیت ہی اسلامی تعلیمات اور دینی مزاج کے مطابق نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ ان میں سے بہت سارے تو مسلمان بھی بس ضرورتاً ہیں اور ظاہر داری کی حد تک ہی ہیں۔ کاش وہ اس بات کی اہمیت کو محسوس کریں کہ خود انہیں بھی پر ویزیت کے پھندوں سے نکلنا ہے اور دیگر اقوام کو بھی چنگیزیت کے مکڑ جال سے بچانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments