معاشرتی تضادات کا ایک بیان


باجی یہ میری بہو ہے۔
اچھا ماشاءاللہ۔
کتنی بہویں ہیں آپ کی؟

ابھی تو ایک ہی بیٹے کی شادی کی ہے۔ لیکن دو اور رہتے ہیں۔ بیٹی ایک ہی ہے۔ اس کو بھی تین سال پہلے بیاہ دیا تھا۔

مولا نصیب اچھا کرے۔
ارے یہ تو بتائیں ہماری بہو کیا کرتی ہے؟
گھر پر ہی ہوتی ہے۔
اگر مجھے بھولا نہیں تو آپ کا بیٹا تو ڈاکٹر ہے ناں؟ جی جی۔
تو بہو کتنا پڑھی ہے آپ کی؟

جی یہ بھی ڈاکٹر ہے۔ لیکن ہم نے نوکری نہیں کروائی۔ میں نے تو شادی کے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے لڑکیوں کا نوکری کرنا پسند نہیں۔ پھر اللہ کی رحمت ہو گئی تو بس بچوں کے ساتھ مصروف ہو گئی۔ ان کو پڑھانا، لکھانا، اسکول لانا، لے جانا، قرآن سب کچھ یہی کرتی ہے۔

کیا کرنا ہے نوکری کر کے؟
(ساس کا اس خاتون کو جواب، بہو کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ )
کچھ مہینوں بعد :

اسی ساس سے ملاقات کے لئے ایک رشتے دار خاتون گھر آتی ہیں۔ بہو حسب معمول چاق و چوبند مختلف گھریلو امور کو کر اور کروا رہی ہے۔ مہمان خصوصاً ان کی بیٹی کی عیادت کو آئی ہیں۔ جو پچھلے ایک ماہ سے بیمار ہے۔

بہن اب کیسی طبیعت ہے آپ کی بیٹی کی؟
بس اللہ جس حال میں رکھے۔ ٹھیک ہی ہے۔
یعنی زیادہ افاقہ نہیں؟
ہے تو مگر پوری طرح صحت یاب بھی نہیں ہے۔
کتنی چھٹی ہے؟
یہ آخری ہفتہ ہے۔ اب تو اسے ہمت کرنی ہی پڑے گی۔

میں تو کہتی ہوں، نوکری چھوڑ کر کچھ عرصہ اپنی صحت پر توجہ دے۔ جب سے شادی ہوئی ہے۔ وقتاً فوقتاً بیمار ہی رہتی ہے۔

بہن کیسی باتیں کرتی ہیں؟ سرکاری نوکری ملنا کوئی آسان بات ہے۔ طبیعت کا کیا ہے، کچھ دنوں میں بھلی چنگی ہو جائے گی۔ اس لئے تھوڑا پڑھایا تھا کہ بس سارا دن گھر داری میں لگی رہے۔ پھر اسکول پڑھانے سے زیادہ آسان کون سی نوکری ہو گی؟

ایک اور گھر کی اندرونی جھلک:

بیٹا دور پردیس میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بغرض نوکری رہتا ہے۔ ہر ماہ کی پانچ کو خرچے کے پیسے والدین کے بنک اکاؤنٹ میں بلا تاخیر، بغیر یاد دہانی بھجوا دیتا ہے۔ ہر غمی خوشی میں ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ محبت سے ان پر وقت اور وسائل خرچ کرتا ہے۔ اعزا و اقربا اور اپنے بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں بانٹتا ہے۔ تو ماں باپ کا بڑھاپا باعزت، پرسکون گزر رہا ہے۔ اتنے غم گسار اور خیال رکھنے والے بیٹے کی وجہ سے انھیں کبھی نہیں لگا کہ بہو اور پوتے پوتیوں کی وجہ سے ان کا بیٹا کسی بھی حوالے سے ان سے دور ہو گیا ہو۔

بیٹا سال میں دو چکر لگا کے مل جاتا ہے۔ لیکن دونوں بیٹیاں ہر دو ہفتے بعد اتوار کا دن ان کے ساتھ گزارتی ہیں۔ آج بھی گھر میں بڑی چہل پہل ہے۔

اس دفعہ والدہ اور بیٹیوں نے پروگرام بنایا تھا کہ مل کر بازار خریداری کرنے جائیں گی۔ گرما رخصت ہو رہا ہے اور سرما کی آمد آمد ہے۔ اس لئے سب نے سوچا سیل آفرز کا فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن عین نکلنے کے وقت چھوٹی بیٹی ٹال مٹول کرنے لگی۔ کریدنے پر پتہ چلا کہ چھوٹی نند کی یونیورسٹی کا اچانک کوئی بڑا خرچہ نکل آیا تو اسے پیسے بھجوانے پڑے۔

والدہ برہم ہوتی ہیں۔ کہ پتہ نہیں کیسا خاندان ہے؟ ہر وقت بیٹے کا خون چوستے رہتے ہیں۔ کبھی بیماری کے نام پر رقم بٹورتے ہیں۔ کبھی ماہانہ خرچ کے بڑھتے تقاضے۔ اور تو اور چھوٹوں کی پڑھائی کا سارا بوجھ بھی بیچارے تمہارے شوہر پر ہے۔ پتہ نہیں اس بڑھاپے میں اتنی رقم کا کیا کرتے ہیں تمہارے ساس سسر، انھیں بیٹے کا تو کچھ خیال ہے ہی نہیں۔

تیسرے گھر کا نظارہ:

شوہر کی دفتر سے بیوی کو کال آتی ہے کہ اس کے باپ (بیوی کے سسر) کو فالج کا شدید حملہ ہوا ہے۔ وہ دفتر سے نکل آیا ہے۔ جلدی سے بیگ تیار کر دو تاکہ میں فوراً گاؤں جا سکوں۔ گھر پہنچنے پر ہر چیز تیار ہوتی ہے۔ بیوی اسے دلاسا دیتی ہے۔ اپنی بچت بھی نکال کے اس کے سامنے رکھ دیتی ہے کہ نجانے وہاں کیسے حالات ہوں۔ زائد رقم ہو تو بہتر ہے۔ آپ تسلی سے جائیں۔ پیچھے کی فکر نہ کیجیے گا۔ میں سب دیکھ لوں گی۔ اللہ رب العزت مددگار ہے۔ بلکہ ہسپتال سے چھٹی ملنے پر آپ انھیں ادھر ہی لے آئیں تاکہ دیکھ بھال اچھی ہو سکے۔ یوں شوہر رخصت ہوا۔

چند دن بعد واپسی میں والد صاحب بھی ہمراہ تھے۔ وہ خود تو صبح اٹھتا اور نوکری کو روانہ ہو جاتا۔ پیچھے بیوی، بڑے بیٹے کی مدد سے دن رات ایک کرتی رہی۔ دوا کی باقاعدگی، پرہیزی خوراک کی فراہمی، کپڑے لتوں کی صفائی ستھرائی، سیر کروانا، گپ شپ سے دل بہلانا غرض چار ماہ اسے اپنا ہوش نہ رہا اور والد صاحب لکڑی کے سہارے سے چلنے اور اپنے ضروری کام کرنے کے قابل ہو گئے۔

کچھ سالوں بعد شوہر، بیوی اور بچے اتوار کی شام کھانے کی میز پر بیٹھے ہیں کہ بیوی کی والدہ کو دل کے دورے کا پتہ چلتا ہے۔ کہاں کا کھانا اور کہاں کا فیملی ٹائم۔ خبر ملتے ہی بیوی بے چینی سے بیڈ روم کو دوڑتی ہے۔ چادر اوڑھ کر شوہر کے پاس آتی ہے کہ چلیں۔ شوہر ٹھنڈے لہجے میں پوچھتا ہے، کہاں؟

اس وقت اتنی سردی میں جانا مناسب نہیں۔ کل صبح دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی تمہارے دوسرے بہن بھائی ادھر ہی ہیں۔ خیال رکھ لیں گے۔ صبح جانا، شام میں واپسی کر لینا۔ بچوں کا اسکول، میرا دفتر، میں سب کیسے چلاؤں گا۔ ایک دن سے زیادہ تمہارا گھر سے باہر رہنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔

یہاں دس ہزار گھروں کے احوال بھی اگر پیش کر دوں تو رویوں میں یہ تفریق مزید سے مزید تر ملے گی۔ اگر انسانیت کے مروجہ پیمانے پر ناپیں تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آئے گا۔ اور اگر جانچ کا معیار دین اسلام ہو تو یہ اس حکم کے منافی ہے، جس کی رو سے مسلمان وہ ہے، جو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرتا ہے، جو اپنے لیے منتخب کرتا ہے۔

محبت، انسیت اور عزت کی انفرادی و اجتماعی بقا عدل اور انصاف پر ہے۔ اگر وہ رشتوں، تعلقات اور معاشروں سے اٹھ جائیں تو پھر اخلاق، مروت، احساس اور لحاظ کے بے کفن جنازے اٹھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments