سوشل میڈیا کی تصویری دنیا


ہمارے اردگرد کے ماحول کے ادراک میں دیکھنے کی حس کو بہت عمل دخل حاصل ہے۔ قدیم دور میں لوگ خاص واقعات کو حافظے کا حصہ بنا کر مصوری کے ذریعے محفوظ کرلیتے تھے۔ یہ عمل پیچیدہ ہونے کے ساتھ انسانی ادراک پر انحصار کرتا تھا جس کی بدولت اکثر اوقات مصوری کے کسی بھی فن پارہ کی بنیاد پر حقائق کی تصدیق یا تردید کرنا مشکل عمل ہے۔ اہل علم نے اس مسئلے کے مستند حل کی تلاش جاری رکھی تاکہ اس کی مدد سے کسی بھی واقعہ کو بعین پیش کیا جا سکے۔

تاریخ نویسی نے الفاظ کی مدد سے انسانی واقعات کو بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن مورخ کسی خاص پہلو کے تحت تاریخ مرتب کرتا ہے جس میں اس کی ذاتی دلچسپی اور واقعات کا فہم دخل انداز ہوتے ہیں۔ تحریک احیائے علوم کے بعد سے مغرب میں تصویر کو متبادل بیانیہ کے طور دیکھا جانے لگا۔ مغرب کے جدید علوم پر اثرات کے زیر اثر ہمارے خطے میں بھی تصویر کو اس طرز پر دیکھا جانے لگا تاہم یہ اس قدر آسان نہیں۔

1855 ء میں پہلی مرتبہ نوآبادیاتی نظام کیمرہ متعارف کروایا گیا۔ انگریزوں کے برصغیر میں کیمرے کی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے بعد اس نے مقامی رسم و رواج کو محفوظ کرنے کا اہم کام سر انجام دیا۔ اس نے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے حتی کہ قدیم قصہ گوئی کی روایت کو منظم انداز میں مقید عکس میں تبدیل کر دیا۔ کیمرے کی ایجاد نے انسانی زندگی پر اتنے گہرے نقوش مرتب کیے ہیں کہ ژاں بوڈرے نے بیسویں صدی کے اختتام پر حقیقت کو تصویر کے متقاضی قرار دیا۔ سوشل میڈیا بوڈرے کے اس خیال کا نمائندہ ہے جس میں انسان تصویری دنیا کے طلسم میں زندگی گزار رہا ہے۔

گزشتہ ایک دہائی سے سوشل میڈیا نے ہماری زندگی کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ ہمارا لباس، طرز زندگی، سوچ و فکر سب اس کے تابع ہو گئے ہیں۔ خصوصاً اس ٹیکنالوجی نے ہماری سیاسی، مذہبی اور اخلاقی زندگی کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔ سوشل میڈیا اپنی ذات میں ایک نوعیت کی عدالتی کارروائی بن گئی ہے جس میں کوئی بھی ایک تصویر یا وڈیو اپنے سیاق و سباق سے باہر استعمال کر کے کوئی بھی شخص اپنے عزائم حاصل کر سکتا ہے۔

عصر حاضر میں سیاست کا دار و مدار کسی بھی سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا سیل پر ہے جو عوام کی رائے کو تصاویر کی مدد سے ہموار کر لے گا ووٹ اسے ہی ملیں گے۔ اسی طرح علم کے شعبے میں بھی سوشل میڈیا کسی کے علمیت، مقبولیت اور پہچان کا معیار بنتا جا رہا ہے۔ کسی بھی سیاسی، سماجی اور دیگر شعبوں سے وابستہ مقبول شخصیت کے ساتھ تصویر لگا کر کوئی بھی اپنے اثر و رسوخ کو ’اوپر‘ تک ظاہر کر سکتا ہے۔ جہاں پہلے یہ مقولہ کہا جاتا تھا ’آپ وہی کچھ ہیں جو دوسروں پر ظاہر کریں‘ اب بات کچھ یوں ہے ’آپ وہی کچھ ہیں جو آپ کا سوشل میڈیا دکھا رہا ہے‘ ۔ اگر آپ کسی مقبول شخصیت کے ساتھ تصویر لگا کر ساتھ لکھ دیں ’آج کی شام ان کے ساتھ‘ تو وہ احباب بھی جو طویل عرصے سے آپ سے ملاقات کا بہانہ تلاش نہ کرپائے ہوں اچانک آپ کے دلدادہ ہو جائیں گے۔

اس تصویری دنیا میں حقیقت کا معیار یہ ہے کہ کسی کی تصویر لگا کر آپ کچھ بھی کہہ دیں لوگ اسے کی پڑتال کیے بغیر تسلیم کر لیں گے۔ اس کی ایک مثال انور مقصود صاحب کے مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر مداحوں کی ایک بڑی تعداد ہے حالانکہ وہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتے۔ نیٹ فلیکس نے گزشتہ سال آن لائن ڈیٹنگ ویب سائٹ ٹنڈر پر ہوئے جعل سازی کے واقع پر ڈاکومنٹری بنائی اس کا شکار ہونے والی خواتین نے تصویر کی بنیاد پر اپنے زندگی کے اہم فیصلوں کو انجام دیا۔ اس واقع کو مغرب کی آزاد خیالی قرار دینے سے پہلے اگر ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو یہی کچھ ہمیں بھی نظر آئے گا۔ ہم تصویر کی بنیاد پر کھانے کی لذت، کپڑوں کے معیار، یونیورسٹی کے تعلیمی معیار اور انسان کی سماجی حیثیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

کرسچن فوکس کے خیال میں ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ سوشل میڈیا تمام مسائل کی جڑ ہے تو یہ کوئی حل نہیں ہے۔ وہ اپنی کتاب میں سوشل میڈیا کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تصویری دنیا کی پشت پر انسان ہیں، وہ اس کے مثبت اور منفی استعمال کے ذمہ دار ہیں ان کی زندگی کی خواہشات، پریشانیاں، غم، خوشی اور تکلیف سوشل میڈیا کی دنیا میں شامل ہیں اس لئے اس کے منفی اثرات کو اس کے پیچھے کے انسان سے علیحدہ کر کے دیکھنا کوئی حل نہیں ہے۔ اس میں ہماری معاشی حیثیت بھی بہت اثرانداز ہوتی ہے جیسے کم آمدنی سے تعلق رکھنے والے ممالک کے لوگ اور امیر ممالک میں بسنے والوں کی سوشل میڈیا ترجیحات بالکل مختلف ہیں۔ اس لئے ان کے سوشل میڈیا سے وابستہ مسائل بھی ایک دوسرے سے فرق ہیں۔ تاہم اس کی تصویری دنیا کا سحر دونوں پر طاری ہے یہ طلسم مسلسل تنقیدی شعور سے ہی ٹوٹے گا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ہم اس طلسم کو توڑنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ سنسر شپ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا کی اس تصویری دنیا کو اپنے معاشرتی اور ثقافتی تناظر میں دیکھنا پڑے گا جہاں یہ ایک بڑی حد تک تفریحی مقام حاصل کر چکی ہے۔ کیا ہم اس کے علمی پہلوؤں کو بحال کر پائیں گے؟ کیا تصویری دنیا کا یہ سراب ہمارے معاشرے کی بنیادوں کا ہلا کر رکھ دے گا؟ ان سوالات کو گہرے طور پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ جس رفتار سے ہم سوشل میڈیا کی بدلتی دنیا میں زندہ ہیں سوچ کے دھارے کو کسی ایک مرکز پر قائم رکھنا ناممکن ہوتا جا رہے ہے سوائے خیالات کو بھی تصویر میں قید کرنے کی کوئی چارہ نہیں (سوشل میڈیا پوسٹ) ، لیکن جب میں یا آپ اس تصویر کو دیکھیں گے تو کون سی حقیقت حاصل کریں گے۔ سوشل میڈیا کی یہ تصویری دنیا جتنی سحر انگیز یہ اتنی ہی فریب دہ بھی ہے جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا ہم اس کے سحر سے باہر آ سکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments