میں کچھ بھی تو نہیں جانتا! (مکمل کالم)


مجھے ٹھیک سے یادنہیں کہ میں کب سے اِس کنویں میں ہوں، شاید ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے، یا پھر ایک دن، دو دن، ہوسکتا ہے کہ ایک ہفتہ یا شاید اِس سے بھی زیادہ وقت گزر گیا ہو، اندھیرے میں وقت گذرنے کا احساس بھی تو نہیں ہوتا۔ مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں کنویں میں کیسے اترا، شاید کسی نے مجھے دھکا دے دیا ہو یا ہو سکتا ہے کہ میں خود ہی پانی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ہوں اور یہ کنواں مجھے راستے میں مل گیا ہو۔ مگر یہ کنواں تو سوکھا پڑا ہے، پانی کی تلاش میں تو ہرگز میں اِس کنویں میں نہ اترتا۔ اور اگر کسی نے مجھے مارنے کی نیت سے کنویں میں پھینکا تھا تو اُس نے اِس بات کو یقینی کیوں نہیں بنایا۔ اب میں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ شاید یہ اُس کے لیے ممکن ہی نہیں تھا، اِس کنویں کی گہرائی مجھے کافی زیادہ لگ رہی ہے، جب اُس نے مجھے دھکیلا ہوگا تو اسے یقین ہوگا کہ میں زندہ بچ نہیں پاؤں گا۔ لیکن ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہوا ہو، تاہم میرے پاس اِس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں۔ لیکن کیا ہر بات کو دلیل سے ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے؟ شاید نہیں، بعض اوقات ہم دلیل سے ایسی باتیں بھی ثابت کر سکتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور ویسے بھی زندگی ریاضی کی مساوات کے مطابق نہیں گزاری جا سکتی، اگر ایسا ہو تاتو پھر ہر شخص ناک کی سیدھ میں ہی چلتا، بغیر کسی روک ٹوک اور پریشانی کے۔

اوہ، میں بھی کن فضول باتوں میں الجھ کر اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں، مجھے اِس کنویں سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر میں کچھ دیر اور اِس کنویں میں رہا تو میرا دم گھٹ جائے گا۔ یہ دم گھٹنے والی بات بھی میں نے خواہ مخواہ ہی کی ہے، اِس اندھے کنویں میں نہ جانے ایسا کیا ہے کہ سانس لینے میں ذرہ برابر بھی دشواری محسوس نہیں ہو رہی۔ لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مجھے اپنی باقی ماندہ زندگی اسی کنویں میں گزارنی ہے، مجھے فوری طور پر یہاں سے نکلنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ مجھے یہاں سے کچھ نظر بھی تو نہیں آرہا، گھپ اندھیرا ہے، شاید سورج نکلنے میں دیر ہے، لیکن کوئی بات نہیں، ابھی تھوڑی دیر میں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں گے، پھر کوئی نہ کوئی مجھے اِس کنویں سے ضرور باہر نکال لے گا۔ لیکن کیا میں اُس وقت تک یونہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں گا؟ ہوں۔۔۔ آخر اِس میں حرج ہی کیا ہے، ویسے بھی میں اِس اندھے کنویں سے باہر نہیں نکل سکتا تو خواہ مخواہ اپنی توانائی ضائع کرنے کا کیا فائدہ !نہیں، مجھے اپنی کوشش ضرور کرنی چاہیے، یہ غیر عقلی بات ہے کہ میں کوئی تدبیر کیے بغیر کسی غیبی امداد کا منظر رہوں۔ لیکن یہ باتیں کون طے کرتا ہے کہ کون سی بات منطقی ہے اور کون سی غیر منطقی۔

کیا ہم نے تمام اصولوں کو پرکھ کر دیکھ لیا ہے اور کیا ہم لامتناہی تجربات کر کے تمام حتمی نتائج اکٹھے کر چکے ہیں کہ جس کے بعد ہم پورے یقین سے کہہ سکیں کہ فلاں بات ہمارے حق میں بہتر ہے اور فلاں بات سے بنی نوع انسانی کا نقصان ہو گا۔ آخر جن باتوں کوہم درست مانتے ہیں، اُن پر عمل کرنے سے بھی بعض اوقات ہمیں نقصان اٹھانا پڑ جاتا ہے۔ تو ایسا کیوں ہے کہ ہم نےچند خود ساختہ اصولوں کو ہی آفاقی سمجھ لیا ہے اور انہیں ہر صورتحال پر منطبق کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے کسی خوش کُن انجام کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟ کیا اِس اندھے کنویں میں کوئی اصول لاگو کیا جا سکتا ہے، شاید ہاں یا شاید نہیں، میں خود بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ تو پھر کسی بھی اصول کو آفاقی کیسے مانا جا سکتا ہے!

مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماند پڑ گئی ہے لہذا مجھے جلد از جلد یہاں سے باہر نکلنا چاہیے۔ شاید اوپرکچھ لوگوں کی چہل پہل شروع ہو گئی ہے۔ کیا یہ لوگ کنویں میں جھانک کر دیکھ نہیں سکتے کہ میں یہاں گرا پڑا ہوں، لیکن یہ کس قدر احمقانہ خیال ہے، کوئی خواہ مخواہ کنویں میں کیوں جھانکے گا، مجھے چاہیے کہ میں کسی کو مدد کے لیے پکاروں۔ ’کوئی ہے، خدا کے لیے میری مدد کرو، میں اِس کنویں میں گر گیا ہوں۔‘ لیکن یہ کیا! میری آواز تو کنویں سے ٹکرا کر ہی واپس آگئی ہے، باہر تو کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔ مجھے بار بار کوشش کرنی چاہیے۔ ’ارے کوئی ہے، بھائی مجھے اِس کنویں سے نکالو، تمہیں اپنے بچوں کا واسطہ، میری آواز سنو، میں اِس کنویں میں مر جاؤں گا۔‘ شاید کسی نے میری آواز سن لی ہے، اوہ کوئی نیچے جھانک کر دیکھ رہا ہے، مجھے پھر اسے آواز دینی چاہیے ’ہاں، یہ میں ہی ہوں، یہاں نیچے، اِس کنویں میں، خدارا مجھے باہر نکالو۔‘ لیکن شاید یہ میرا وہم ہے، کوئی میری آواز نہیں سُن رہا، اوپر تو کوئی بھی نہیں ہے، مجھے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا، کاش کوئی آئے اور مجھے اِس اندھے کنویں سے نکال کر لے جائے۔

لیکن میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نہ پہلے کوئی میری مدد کوآیا اور نہ اب آئے گا۔ مجھے کیوں یاد آرہا ہے کہ میں پہلے بھی ایسی مصیبت کا شکار ہو چکا ہوں ؟ ہاں، شاید، اور یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں، نہ جانے میرے ساتھ کیا ہوا تھا، میرے ذہن میں کچھ دھندلی سی تصویر بنتی ہے اور بگڑ جاتی ہے، یقینا ً میرا دماغ ماؤف ہو رہا ہے، ورنہ کیسے ممکن ہےکہ مجھے ماضی قریب کی باتیں یاد نہ آئیں !اب میری آنکھیں اندھیرے میں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئی ہیں۔ یہ کیا! اِس کنویں کی دیواروں پر پیر رکھنے کی جگہ بنی ہوئی ہے، یہ بات پہلے میرے ذہن میں کیوں نہیں آئی کہ کنویں میں اترنے اور چڑھنے کے لیے اینٹیں اِس ترتیب سے لگائی جاتی ہیں کہ بندے کے پیر اُس پر آسانی سے ٹک سکیں۔ اوہ، خدا کا شکر ہے کہ میں اِن پر چڑھ کر کنویں سے باہر نکل سکتا ہوں۔ یہ کس قدر آسان تھا۔ میں نے خواہ مخواہ اتنا وقت ضائع کیا، لیکن کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا، اب میں آزاد ہوں، کیا یہ بات کافی نہیں، آئندہ مجھے کوئی مصیبت نہیں آئے گی، میں اِس بات کا اہتمام کروں گا کہ ہمیشہ دیکھ بھال کے قدم رکھوں، اب میں مزید کسی غلطی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کافی دیر ہو چکی، مجھے اب اپنا راستہ تلاش کرنا چاہیے، اندھیرا اب بھی بہت گہرا ہے، یہاں بھی کچھ نظر نہیں آرہا۔ ارے یہ کیا! یہ دیوارکیسی ہے، یہ میں کہاں آگیا ہوں، یہ تو مجھے ایک اور کنواں لگ رہا ہے، پہلے سے بھی بڑا اور گہرا۔۔۔۔ کیا میں اِس سے باہر نکل پاؤں گا، کیا میں کبھی آزاد ہو سکوں گا؟ میں نہیں جانتا، میں کچھ بھی تو نہیں جانتا!

٭٭٭             ٭٭٭

(نوٹ: محترم یاسر پیرزادہ کی حالت واقعی تشویش ناک ہے۔ منیر نیازی کو دریا کے پار دریا کا واہمہ تھا اور ہمارے عزیز دوست کسی اندھے کنویں کی گہرائی اور پھر اگلی کھائی میں بھٹک رہے ہیں۔ اب خدا معلوم یہ جیلیانوالہ باغ کا کنواں ہے جس میں غیر ملکی حکمرانوں کی گولیوں سے بچنے والے ایک کے بعد ایک گرتے رہے یا یہ کنوؤں کا ٹیکسلا سے دہلی تک پھیلا وہ سلسلہ ہے جسے آزادی کا جشن منانے والوں کی وحشت سے خوفزدہ عورتوں نے اپنی لاشوں سے پاٹ دیا تھا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ یاسر پیرزادہ آسیبی کنوؤں کے اس صحرا میں بھٹک گئے ہوں جسے ہم پچھلے 75 برس سے اپنے ناخنوں سے کھودتے ہیں اور پھر اس میں چھلانگ لگا کر مدد کے لئے دکھی پکاریں بلند کرتے ہیں۔ یاسر پیرزادہ کی جلد بازیابی کے لئے دعا تو واجب ہے لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کنوؤں پر وقت کی مٹی ڈال کر ہاؤسنگ سوسائٹیز کھڑی کر دی گئی ہیں۔ یاسر پیرزادہ کنویں کے اندر لاعلم ہے اور اسے معلوم نہیں کہ کنویں سے باہر مگر کسی بھی لمحے لاپتہ ہونے کے اندیشوں میں گرفتار ہم نام نہاد آزاد لوگ بھی اسی کی طرح بے خبر ہیں۔ و-مسعود)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments