آئین سے انحراف کی وکالت کیوں؟


پاکستان کسی بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے، نہ ہم نوآبادیاتی دور میں ہیں اور نہ ہی یہ ملک کسی کی کالونی ہے۔ یہ ایک آزاد و خودمختار ریاست ہے اور یہاں بسنے والے عوام کسی کے محکوم یا رعایا نہیں ہیں۔ پاکستان کے عوام ایک آزاد و خودمختار ریاست کے شہری اور اس ریاست کے مالک و مختار ہیں۔ یہاں کے شہریوں اور ریاست کے درمیان معاہدہ عمرانی کے تحت آئین تشکیل دیا گیا ہے۔ جس میں کچھ اصول، کچھ قواعد اور کچھ قوانین طے کیے گئے ہیں۔ یہاں امور مملکت کی انجام دہی جمہوری اصولوں پر کرنے کی یقین دھانی کرائی گئی ہے۔ آئین و پارلیمانی جمہوریت اس آزاد و خودمختار ریاست کی اساس ہیں۔ یہاں بطور اصول آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں آئین سے انحراف کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی آمر بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ آئین شکنی کا جو جرم ان سے سرزد ہو گیا ہے اس سے جاں بخشی کا واحد و محفوظ راستہ پارلیمنٹ سے توثیق کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ چنانچہ 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد جولائی 1977 میں جب جنرل ضیاء الحق نے آئین سے روگردانی کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور آئین معطل کیا۔ تب انہیں اپنی غلطی کا پوری طرح احساس تھا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنے اس غیر آئینی اقدام کی پارلیمنٹ سے توثیق کروا کر ریاستی قوانین سے اپنے آپ کو محفوظ بنایا۔ اسی طرح اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے عوام کی منتخب حکومت کو برخاست کر دیا۔ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آئین کو معطل کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے بعد ازاں سترویں آئینی ترمیم کی منظوری کروا کر اپنے غیر آئینی اقدام کی پارلیمنٹ سے توثیق کروائی اور اپنے لیے محفوظ راستہ حاصل کیا۔ 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد سے ملک کے اقتدار پر غیر آئینی طریقے سے قبضہ کرنے والے فوجی آمر بھی مارشل لاء اٹھانے سے قبل آئین معطل کرنے کے اپنے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ سے توثیق کرواتے رہے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اگر انہوں نے اپنے غیر آئینی اقدام کی پارلیمنٹ سے توثیق نہ کروائی اور آئینی تحفظ حاصل نہیں کیا تو ان پر آئین سے انحراف کی تلوار موجود رہے گی۔

قوم نے جنرل پرویز مشرف کی 3 نومبر 2007 کی آئین شکنی بھی دیکھی کہ جب انہوں نے بطور چیف آف آرمی اسٹاف آئین کو معطل کیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ اس بار بدقسمتی سے وہ اپنے اس غیر آئینی اقدام کی پارلیمنٹ سے توثیق نہ کروا سکے اور اس کے بغیر ہی اقتدار سے رخصت ہو گئے۔ پھر قوم نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے اس غیر آئینی اقدام پر ان کے خلاف مقدمہ بھی قائم ہوا اور اس مقدمے میں ان کو سزا بھی سنائی گئی۔

اس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں تمامتر کمزوریوں کے باوجود ناصرف آئین موجود ہے بلکہ اس سے انحراف کا بجا طور پر خوف سب کے دلوں میں راسخ ہے۔

ہوس اقتدار میں مبتلا چند سیاست دانوں کا آئین سے کھلواڑ کر کے اپنے اقتدار کے لیے راستہ ہموار کرنا لگ بات لیکن حیرت انگیز طور پر سینیئر و سنجیدہ سیاسی تجزیہ کار کا آئین سے انحراف کرتے ہوئے قوم کو ماورائے آئین اقدامات کی جانب راغب کرنا اور اس پر دلیل باندھنا باعث افسوس ہے۔ مثلاً آئین میں چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کے ضمن میں بہت واضح طور وزیراعظم کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی صوابدید سے فوج کے سینیئر جنرل میں سے کسی ایک کا تین برس کے لیے بطور آرمی چیف تقرر کریں گے۔ اس منصب پر تقرری کے لیے وزیراعظم کو کسی سے مشاورت کی آئینی ضرورت ہرگز نہیں ہے لیکن ان کا اصرار ہے کہ عمران خان سے اس انتہائی اہم تقرری کے لیے مشاورت کی جائے، دلیل کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ چونکہ عمران خان بہت مقبول ہیں لہذا ان سے مشاورت ایک ضروری امر ہے۔ پھر اپنی غیر آئینی خواہش کی تکمیل کے ضمن میں قوم کو دھمکی آمیز انداز میں وہ متنبہ کرتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عمران خان اگلے آرمی چیف کو ان کی ریٹائرمنٹ تک متنازع بنا کر رکھیں گے۔

یعنی ان کی رائے کے مطابق پاکستان کے امور مملکت آئین اور قانون کے تحت نہیں بلکہ مقبولیت کی بنیاد پر انجام دیے جانے چاہئیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ملک کے موجودہ تمام مسائل کا واحد حل فی الفور انتخابات میں پوشیدہ ہے۔

اول تو یہ کہ یہ نتیجہ انہوں نے کن بنیادوں پر اخذ کیا ہے؟ اور دوم یہ کہ فرض کریں کہ اگر ان کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے ملک میں فوری انتخابات کا اعلان کر بھی دیا جائے لیکن ان انتخابات میں تحریک انصاف حکومت نہ بنا سکے تو ایسی صورت میں پھر کیا ہو گا؟ کیا عمران خان ان انتخابات کے نتائج اور نو منتخب حکومت کو تسلیم کر لیں گے؟ یا پھر وہ انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کر کے اس حکومت کے خلاف بھی روز اول ہی سے تحریک کا آغاز کر دیں گے۔ اگر عمران خان نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا اور ازسر نو انتخابات کا مطالبہ کر دیا تو انتخابات کے انعقاد کا یہ تماشا کب تک جاری رہے گا؟ کیا اس وقت تک تاوقتیکہ عمران خان بذات خود وزیراعظم نہ بنا دیے جائیں؟ لیکن اس خواہش کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ اگر ایسا ہو بھی جائے تو ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں کا اس پر کیا رد عمل ہو گا؟ کیا اس جانب بھی کوئی غور و فکر کی ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ اس طرح کے فرمائشی مطالبات کی منظوری پر ملک کی باقی تمام سیاسی جماعتیں کیا خاموش تماشائی بنی آئین کو مذاق بنتا دیکھتی رہیں گی یا پھر وہ بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ اگر ایسا ہوا تو ریاست کا کیا ہو گا؟ دم توڑتی زبوں حالی کا شکار معیشت کیا رخ اختیار کرے گی؟ کیا پھر ملک میں صرف انتخابات اور احتجاج ہی ہوتا رہے گا؟ یقیناً یہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

دنیا نے صدیوں کے تجربات کے بعد امور مملکت کی انجام دہی اور اقتدار کی پر امن منتقلی کے جو اصول و ضوابط طے کیے ہیں اس کے پس پردہ یہی عوامل کار فرما رہے ہوں گے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہوس اقتدار میں مبتلا سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ جب سنجیدہ اہل علم و دانش بھی ریاست کے امور کی انجام دہی کے لیے آئین سے انحراف کا راستہ دکھاتے ہیں اور ملک کے مستقبل کے لیے ماورائے آئین اقدامات تجویز کرتے ہیں تو ملک کا جمہوریت پسند طبقہ زیادہ خوف اور فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

بجا طور پر پاکستان کے تمام مسائل کا حل قبل از وقت انتخابات میں نہیں بلکہ صرف اور صرف حقیقی پارلیمانی جمہوریت کے نفاذ میں پوشیدہ ہے۔ ہم نے بطور قوم گزشتہ 75 برسوں میں متعدد نظام آزمائے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہر بار مسائل زیادہ پیچیدہ ہو کر اجاگر ہوئے ہیں۔ اب آئین کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور حقیقی پارلیمانی جمہوریت کے تحت ریاست کو چلانے کی ضرورت ہے۔ جہاں آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو دل سے تسلیم کیا جائے۔ ریاستی امور کو صرف آئین کے مطابق انجام دیا جائے کہ اسی کے ذریعے ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکیں گے ورنہ خواہشات کا یہ سلسلہ خدا جانے ہمیں کس انجام کی جانب لے جائے گا۔

(صاحب تحریر پاکستان مسلم لیگ نواز (کراچی ڈویژن) کے سیکریٹری جنرل ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments