مکیش امبانی کی کمپنی میں بیٹی ایشا امبانی کو اہم ذمہ داری، وراثت کی منصوبہ بندی یا انڈیا میں سوچ کی تبدیلی؟

نکھل انعامدار - نمائندہ بی بی سی، ممبئی


مکیشن امبانی اپنی اہلیہ اور تینوں بچوں کے ساتھ
مکیشن امبانی اپنی اہلیہ اور تینوں بچوں کے ساتھ
انڈیا کے دوسرے سب سے امیر ترین شخص مکیش امبانی نے 220 ارب امریکی ڈالر کی مالیت والی اپنی کمپنیوں کے گروپ میں جانشینی کے روڈ میپ میں اپنے تینوں بچوں کے کردار کو واضح کر دیا ہے۔

مکیش امبانی کے بڑے جڑواں بچے آکاش امبانی (بیٹا) اور ایشا امبانی (بیٹی) بالترتیب ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ کے ٹیلی کمیونیکیشن اور ریٹیل کاروبار کی قیادت کریں گے جبکہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے اننت امبانی کو نئی توانائی کو سنبھالنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

یہ کارپوریٹ انڈیا کی سب سے متوقع قیادت کی منتقلی ہے اور اس سلسلے میں کچھ عرصے سے کام بھی ہو رہا ہے۔

مارکیٹ کے تخمینوں کے مطابق ریلائنس انڈیا کی سب سے قیمتی کمپنیوں میں سے ایک ہے جہاں مستقبل میں ہونے والی دولت کی منتقلی کی تفصیلات اس وقت بہت واضح نہیں اور یہ زیادہ تر قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔

لیکن جو بات واضح ہے وہ مسٹر امبانی کی تاریخ کو دہرانے سے بچنے کی خواہش ہے کیونکہ انھوں نے وراثت کی جو تلخ جنگ 20 سال قبل اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ لڑی تھی وہ اسے اپنے بچوں میں نہیں دیکھنا چاہتے۔

20 سال قبل جب مکیش امبانی کے والد فوت ہوئے تھے تو انھوں نے دولت کی تقسیم سے متعلق کوئی وصیت نہیں چھوڑی تھی۔

مکیش امبانی کی بیٹی ایشا امبانی کا قائدانہ کردار بھی اس کردار کے بالکل برعکس ہے جو ان کے خاندان کی دیگر خواتین کاروبار میں اب تک ادا کرتی رہی ہیں۔

پچھلی دو دہائیوں کے دوران خواتین کو اہم ترین ذمہ داریاں دینے والے ممتاز انڈین صنعتی خاندانوں کی تعداد میں نسل در نسل تبدیلی آئی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔

20 سال قبل مکیش امبانی اور انیل امبانی کے درمیان دولت کی تقسیم کی لمبی لڑائی ہوئی تھی

20 سال قبل مکیش امبانی اور انیل امبانی کے درمیان دولت کی تقسیم کی لمبی لڑائی ہوئی تھی

پیشگی منصوبہ بندی

مسٹر امبانی ابھی 65 سال کے ہیں اور وہ اپنی کمپنی ریلائنس کو اس کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر چلانے میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اس میں اہم ذمہ داریاں دینے سے قبل ابھی مزید وقت لے سکتے تھے۔

انڈین سکول آف بزنس کے پروفیسر کیول رام چندرن کہتے ہیں کہ بہت سے ایشیائی بزرگوں کے برعکس جو آخر تک اپنی دولت پر سخت کنٹرول رکھتے ہیں مکیش امبانی ایشیا میں ’کاروباری لیڈرز کی اس نئی نسل‘ کی نمائندگی کرتے ہیں جنھوں نے جانشینی کے جھگڑوں کا مشاہدہ کیا اور وہ ’ہر ممکن اقدام‘ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کا سفر ہموار رہے۔

ٹاٹا گروپ سے لے کر سنگھانیہ خاندان تک، ایسی کئی بڑی کمپنیوں نے جانشینی کی لڑائیوں کا ایک سلسلہ دیکھا ہے۔ ان لڑائیوں کی وجہ سے چلنے والے مقدمے ان کمپنیوں کے حصص کے لیے مہنگے ثابت ہوئے ہیں۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ امبانی جیسے امیر ایشیائی خاندان پر یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ ’دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک کر پیتا ہے۔‘

پراپرٹی کنسلٹنسی ’نائٹ فرینک‘ کے اندازے کے مطابق اگرچہ ایشیائی خاندانوں میں سے نصف سے بھی کم کے پاس جانشینی کے منصوبے ہیں لیکن وبائی مرض کووڈ نے انڈیا کے 84 فیصد انتہائی دولت مندوں کو اس بات کا دوبارہ جائزہ لینے کی ترغیب دی ہے کہ وہ اپنی دولت کو کس طرح منتقل کریں گے۔

ایشا امبانی ریلائنس کے ریٹیل کاروبار کی قیادت کریں گی

ایشا امبانی کا اپنے بھائیوں کے ’برابر‘ ہونا ایک واضح تبدیلی ہے جو انھیں ان کے خاندان کی دیگر خواتین سے ممتاز کرتا ہے

ایشا امبانی کا اپنے بھائیوں کے ’برابر‘ ہونا واضح تبدیلی

اس طرح جس چیز کا از سر نو جائزہ لیا جا رہا ہے ان میں بظاہر خواتین کی جانشینی سے متعلق کردار کا منصوبہ بھی ہے۔

اپنے بچوں کے قائدانہ کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسٹر امبانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’وہ لیڈروں اور پیشہ ور افراد کی نوجوان ٹیم میں برابری میں پہل کرنے والوں میں شامل ہیں اور جو پہلے سے ہی ریلائنس میں حیرت انگیز کام کر رہے ہیں۔‘

ایشا امبانی کا اپنے بھائیوں کے ’برابر‘ ہونا ایک واضح تبدیلی ہے جو انھیں ان کے خاندان کی دیگر خواتین سے ممتاز کرتا ہے

امبانی خاندان کے وراثت کے تنازع سے بہت پہلے ان کی پھوپھیوں کی دوسرے کاروباری خاندانوں میں شادی ہو گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین ارب پتی مکیش امبانی برطانیہ کی بوٹس کمپنی خریدنے کے خواہشمند

انڈیا کے امیر ترین افراد میں شامل گوتم اڈانی کا وزیراعظم مودی سے کیا تعلق ہے؟

وہ پانچ برینڈ جنھوں نے آزادی کے بعد انڈیا کی پہچان بنائی

لیکن ایشا امبانی نے ژیل یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور کنسلٹنسی کی بڑی کمپنی ’میک کینسی‘ میں کام کیا ہے۔ ان کی تعلیم اور تربیت کو دیکھ کر بظاہر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کو ریلائنس ایمپائر میں شامل ہونے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

پروفیسر رام چندرن کا کہنا ہے کہ امبانیوں کے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے، خاص طور پر روایتی گجراتی تجارتی برادری میں جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں، یہ تبدیلی ممکنہ طور پر ’مضبوط پیغام‘ پہنچانے کا کام کرے گی۔

پلاننگ فرم ’ٹیرینشیا‘ کے بانی اور مینیجنگ ڈائریکٹر سندیپ نیرلیکر کہتے ہیں کہ یہ ‘ایک اہم قدم ہے جو دوسرے کاروباری خاندانوں کے لیے مثال قائم کرے گا۔‘

دیپالی گوئنکا کی 18 سال کی عمر میں شادی ہو گئی تھی لیکن اس کے بعد انھوں نے کاروبار میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانا شروع کیا

دیپالی گوئنکا کی 18 سال کی عمر میں شادی ہو گئی تھی لیکن اس کے بعد انھوں نے کاروبار میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانا شروع کیا

ایشا امبانی بڑے کاروباری خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی نئی نسل کا حصہ ہیں جنھوں نے اعلیٰ قیادت کے کردار ادا کیے ہیں۔

اس فہرست میں نسبا گودریج بھی شامل ہیں جو ملک کے سب سے قدیم متنوع گروپس میں سے ایک کی قیادت کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ نادیہ چوہان ہیں، جو انڈیا کی اشیائے خوردونوش کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ’پارلے ایگرو‘ کی سربراہ ہیں۔ ان کے علاوہ کم از کم نصف درجن دیگر خواتین بھی ہیں جو اپنی اپنی کمپنیوں کی سربراہی کر رہی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کے پیچھے کئی طرح کی قوتیں کارفرما ہیں جن میں زیادہ تر خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی بھی شامل ہے۔

انڈیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل کمپنیوں میں سے ایک ’ویلسپن انڈیا‘ کی منیجنگ ڈائریکٹر اور چیف ایگزیکٹو دیپالی گوئنکا کہتی ہیں کہ اب مزید خواتین ‘اپنے حقوق اور صلاحیتوں کے بارے میں آواز اٹھا رہی ہیں۔‘

ان کی کمپنی 2.7 ارب امریکی ڈالر کی مالیت والے ’ویلسپن گروپ‘ کا ایک حصہ ہے۔

دیپالی گوئنکا نے 18 سال کی عمر میں شادی کر لی تھی اور اپنے بچوں کے بڑے ہونے کے بعد وہ اپنے شوہر کے کاروبار میں شامل ہو گئیں اور ہارورڈ بزنس سکول سے مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن ابھی بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔

’ٹیرینشیا‘ کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے سندیپ نیرلیکر کہتے ہیں کہ جب بھی اسٹیٹ پلاننگ کی بات آتی ہے تو انڈیا میں 10 میں سے آٹھ خاندان بیٹوں کے ساتھ تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ بیٹی اور بیٹے کے درمیان دولت کی تقسیم بھی برابر نہیں ہوتی۔‘

انڈیا کے جنوبی شہر چنئی کے ’موروگپا گروپ‘ کے وارثوں میں سے ایک والی اروناچلم کی محض بورڈ آف مینجمنٹ میں ایک نشست حاصل کرنے کی تلخ لڑائی صرف اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان دیواروں کو توڑنا انڈین خواتین کے لیے کتنا مشکل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندو جانشینی کے قوانین میں ہونے والی قانونی تبدیلیاں، جس میں ازدواجی حیثیت سے قطع نظر خواتین کو مساوی وراثت کے حقوق دیے گئے ہیں، نے خواتین کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد کی ہے۔

اس کے علاوہ حکومتی قوانین بھی ہیں جن میں خواتین کو کمپنی کے بورڈز میں شامل کرنے کی ہدایت نے بھی خواتین کی نمائندگی میں اضافہ کیا ہے۔

بہرحال ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پدرانہ نظام کے خلاف جنگ ہے اور ابھی یہ اس کی شروعات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments