خان صاحب نے گوجرانوالا میں ”نیوٹرل” کے بارے میں کیا فرمایا؟


خان صاحب جب مسلسل بیس پچیس سال چائے میں پراٹھا بھگو کے کھاتے رہے، تو عوام میں سے سمجھداری کے ٹھیکیداروں کو پتہ چلا کہ ہمارے علاوہ حاکمیت کا اصل حق دار اگر کوئی ہے تو وہ خان ہے۔ ویسے بھی دو سیاسی جماعتوں نے دس سال پورے کر لیے ہیں۔ روایات کے مطابق باری تو ہماری اپنی ہے پر چلو کوئی بات نہیں، بلکہ ایک ہی بات ہے، ہم نہیں بنتے خان صاحب کو بنا لیتے ہیں۔

ویسے بھی جدید دنیا میں حاکموں کی سب سے بڑی خوبی یہی مانی جاتی ہے کہ ان کو چائے میں پراٹھا ڈبونا آتا ہو۔ ہماری جدید ترین لیبارٹریوں میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جس کو پراٹھا ڈبونا نہیں آتا وہ بیڑا بھی نہیں ڈبو سکتا۔

حاکمیت کے دوسروں امیدواروں کو جب اتنا بھی پتہ نہیں کہ پراٹھے کو کیسے ڈبوتے ہیں تو ان کو حاکمیت کیوں کر سونپی جائے۔ اس اکلوتی خوبی کی بنا پر پچیس جولائی اٹھارہ کو خان صاحب کو اقتدار کے حوالے دیا۔

اقدار میں رہ کر خان صاحب نے خوب گل کھلانے کی کوشش کی۔ بہت سے گل کھل بھی گے اور بقیہ گلوں نے وعدہ کیا کہ سال سوا کے اندر ہم بھی کھل جائیں گے مگر بدخواہوں اور حاسدوں نے امریکا کو ساتھ لگایا اور خان صاحب کے پاؤں کے نیچے سے اس پیج کو سرکانا شروع کر دیا جس کو خان صاحب سیم پیج کہتے تھے۔

موصوف نے ہاتھوں پیروں اور دانتوں سے اقتدار کو جکڑنے کی کوشش کی اور اس وقت تک جکڑے رکھا جب تک ہاتھوں، پیروں اور بتیسی کو خطرہ لاحق نہیں ہوا۔

یہاں قلم گھسیٹنے کا مطلب ہرگز یہ باتیں کرنا نہیں جو اوپر ہوئیں ہیں بلکہ خان صاحب کا ایک بیان ہے جس پر میڈیا کو بہت بخار چڑھا ہوا ہے۔ اور بھٹی، تندوری پر اسی کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ بخار والا بیان ہے کہ خان صاحب نے گوجرانوالا میں فرمایا

”نیوٹرل کچھ کر سکتے تھے اور انہوں نے نہیں کیا“ ۔

اتنی سی بات ہے مخالفین نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ خان صاحب اقتدار کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ خبر کا منفی رنگ ہے جبکہ سرکاروں کی سرکار نے ہدایت بھی جاری کی ہوئی ہے کہ خبر کو مثبت رنگ دیا کریں۔

”نیوٹرل کچھ کر سکتے تھے اور انہوں نے نہیں کیا“ والا بیان تو ہے ہی سراسر مثبت۔ خان صاحب نے وقت کے اختصار کے لیے صرف یہ کہا اور ساری کی ساری تاریخ اس ایک جملے میں بند کردی۔

خان صاحب کا مطلب ہے کہ نیوٹرل نے پاکستان بننے کے ساتھ ہی لگامیں اپنے ہاتھ کر نے کی کوشش شروع کردی تھی اور سال سوا بعد ہی اس کوشش میں کامیاب ہو گیا تھا اور اکہتر تک رہا۔ نیوٹرل اگر چاہتا تو اس دوران ملک توڑنے کے علاوہ بھی کچھ کر سکتا تھا۔ پر اس نے نہیں کیا۔

نیوٹرل ستتر میں دوبارہ باگیں چھیننے میں کامیاب ہو گیا اور ان گیارہ سالوں میں اس نے عوام سے بھٹو لینے اور کلاشنکوف دینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ خان صاحب کا مطلب ہے کہ نیوٹرل 1999 میں پھر بڑی کرسی پر قابض ہو گیا، اس بار بھی سننے کو بہت کچھ دیا جبکہ دیکھنے کو صرف ایک مکا اور جگہ جگہ بم دھماکے دیے۔

خان سچ کہتے ہیں کہ جو اتنا عرصہ حکومت میں رہے، اس کو کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہ ہو، خود ہی چیف ہو، خود ہی چیف ایگزیکٹیو، خود ہی عدالت اور اوپر سے کرے بھی کچھ نہ تو کیا عوام میں سے کسی کو اتنا بھی حق نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔

بہت امید ہے کہ آپ کو خان صاحب کا بیان اور بیان کا مثبت پہلو سمجھ آ گیا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments