البرٹ آئن سٹائن کا گھر


پندرہ اگست 2021 کو ہم آئن سٹائن کا گھر دیکھنے گئے تھے. البرٹ آئن سٹائن۔ جرمن نوبل انعام یافتہ کی زندگی پر ہزاروں تحریریں موجود ہیں۔ اس کی مشہور زمانہ تھیوری آف ریلیٹیویٹی، جس کو سمجھنے کے لئے عام آدمی کو بھی مشکل پیش آتی ہے، اس پر بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن آئن سٹائن کے جرمنی میں گھر کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

شہر برلن کی انتظامیہ نے 14 مارچ 1929 کو ، آئن سٹائن کی پچاسویں سالگرہ پر ، کسی جھیل کے کنارے واقع، ایک گھر بطور تحفہ دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن آئن سٹائن نے سبھی گھروں کو لینے سے انکار کیا تھا تاکہ وہاں پہلے سے رہنے والے کرایہ داروں کو نکلنا نہ پڑے۔ اس کے بعد آئن سٹائن ہاؤس کا پلاٹ خریدا گیا اور اس پر آئن سٹائن نے اپنی پسند کے مطابق یہ گھر تعمیر کروایا تھا۔

آئن سٹائن گھر، جس کو وہ جنت کہتے تھے اور جس میں رہنے کے لئے وہ ساری دنیا چھوڑ نے کو تیار تھے، ان کا یہودی ہونا مجبوری تھی جس کی وجہ سے، ان کو اس گھر میں زیادہ رہنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ آئن سٹائن کی بیگم کی خواہش تھی کہ ان کا گھر پتھریلی دیواروں سے تعمیر ہو۔ لیکن ایک خاص سرخ لکڑی، جس کا خام مال، یو ایس اے سے منگوایا گیا تھا اور لکڑی بوجہ پہلی جنگ عظیم فولاد اور سیمنٹ کی کمی کو پورا کر رہی تھی، اس سے تعمیر شدہ یہ سمر ہاؤس، پوٹسدام شہر کے جنوب، 6 کلومیٹر پر ، ایک چھوٹے سے خوبصورت کپوتھ نامی علاقے میں واقع ہے۔

کپوتھ گاؤں، شویلوسے نامی ضلع کا حصہ ہے جہاں اسی نام کی ایک نہایت خوبصورت جھیل بھی ہے۔ تقریباً 7 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی اس جھیل کی، سرکاری سطح پر بھی، بطور صحت افزا سیر گاہ، توثیق ہو چکی ہے۔ آئن سٹائن، 1929 سے 1932 تک، اپنی بیوی، دو بچیوں اور ایک گھریلو ملازمہ کے ساتھ گرمیوں میں یہاں رہا کرتے تھے۔ سردی کے موسم میں فیمیلی آئن سٹائن، برلن میں ”ہابر لینڈ“ سٹراسے نمبر 5 میں رہتی تھی۔

ٹیلیفون گھنٹی کے شور کی وجہ سے، اس گھر میں کوئی فون نہیں رکھا گیا تھا۔ آئن سٹائن گھر کے پڑوس میں ایک وولف نامی کمہار کے پاس فون نصب تھا۔ آئن سٹائن کی بیگم ایلزے نے پڑوسی فیمیلی کو ایک چھوٹی سی ٹرومپیٹر دے رکھی تھی جس میں ایک سگنل سسٹم لگایا گیا تھا۔ آئن سٹائن کے ہر فیمیلی ممبر کے لئے ایک خاص صوتی سگنل مقرر تھا جو میوزک انسٹرومنٹ بجا کر آئن سٹائن کے گھر پہنچتا تھا۔ مثلاً البرٹ آئن سٹائن کے لئے ”ایک دفعہ اور طویل سگنل“ مقرر تھا۔

آئن سٹائن اپنی زندگی میں کہیں بھی ٹک کر نہیں بیٹھ سکے تھے۔ جرمنی میں پیدائش کے باوجود، ان کو اپنی جرمن قومیت، پہلی دفعہ 1896، اور پھر 1933 میں چھوڑنا پڑی سوئٹزرلینڈ کی قومیت ہونے کے باوجود، وہ صرف 15 سال وہاں رہے تھے۔ 1911 میں، جب وہ پراگ میں پڑھاتے تھے، کچھ عرصے کے لئے انہوں نے، آسٹرین۔ ہنگیرین؛ ہابسبرگ نامی سلطنت کی قومیت لی تھی۔ ان کی آخری عمر یو۔ ایس۔ اے میں گزری تھی۔ وہ خود کو خانہ بدوش کہتے تھے۔

آئن سٹائن اپنی زندگی میں کہیں بھی ٹک کر نہیں بیٹھ سکے تھے۔ جرمنی میں پیدائش کے باوجود، ان کو اپنی جرمن قومیت، پہلی دفعہ 1896، اور پھر 1933 میں چھوڑنا پڑی سوئٹزرلینڈ کی قومیت ہونے کے باوجود، وہ صرف 15 سال وہاں رہے تھے۔ 1911 میں، جب وہ پراگ میں پڑھاتے تھے، کچھ عرصے کے لئے انہوں نے، آسٹرین۔ ہنگیرین؛ ہابسبرگ نامی سلطنت کی قومیت لی تھی۔ ان کی آخری عمر یو۔ ایس۔ اے میں گزری تھی۔ وہ خود کو خانہ بدوش کہتے تھے۔

موجودہ انتظامیہ کی ایک اہلکار نے ہمیں سمر ہاؤس کی وزٹ کے دوران بتایا کہ آئن سٹائن اور اس کی بیوی علیحدہ علیحدہ کمروں میں سوتے تھے کیونکہ آئن سٹائن خراٹے لیتے تھے۔

آئن سٹائن، 6 دسمبر، 1932 کو یہ گھر چھوڑنے کے بعد کبھی بھی جرمنی میں واپس نہیں آئے تھے فلپ فرانک نامی مصنف، آئن سٹائن کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ گھر کو چھوڑتے وقت آئن سٹائن نے اپنی بیوی کو یہ کہا کہ اس گھر کو جی بھر کر دیکھ لو کیونکہ اس کے بعد تم اس گھر میں، کبھی دوبارہ نہیں آ پاؤ گی۔

آئن سٹائن نہ صرف اپنی تحقیقی سرگرمیوں کے لئے، بلکہ پرائیویٹ طور پر بھی اس گھر کو بخوشی استعمال کرتے تھے۔ ان کے دوست احباب جن میں نامور نوبل انعام یافتہ خواتین و حضرات، اس سمر ہاؤس میں، ان سے ملنے آتے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں۔

ماکس بورن، ماکس وون لائی وئے، ماکس پلانک، ماکس لیبر مان، فرٹز ہا بر، گر ہارٹ ہپت مان، اوتو ہان، کیتھے کول وٹس، ہینری مان، آرنلڈ زوائیخ، ایروین شرؤڈنگر اور رابندرناتھ ٹیگور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments