قبرستانی شفٹ کے صحافی، صحت کو لاحق سنگین خطرات اور بنیادی حقوق سے محرومی


جمہوریت کا چوتھا ستون کہلائے جانے والے شعبہ صحافت کا شمار لازمی خدمات کے پیشوں میں کیا جاتا ہے۔ اس اہم ترین شعبہ میں پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ اخباری مدیران، مدیران خبر، رپورٹروں، کمپیوٹر آپریٹرز، فوٹو گرافرز، کیمرہ مین اور دیگر متعلقہ تکنیکی عملہ سمیت ہزاروں ملازمین شب و روز خدمات انجام دے رہے ہیں۔ صحافی یعنی میڈیا پرسن ہر قسم کی موسمی و قدرتی آفات، زلزلہ، سیلاب، بارشوں، آندھی، طوفان، شورش، کرفیو اور حتیٰ کہ دوران جنگ بھی اپنی قیمتی جان خطرات میں ڈال کر نہایت محنت، تندہی اور فرض شناسی سے اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کر کے عوام الناس کو تازہ ترین خبروں کی فراہمی کے لئے مصروف ہوتے ہیں۔

حکومت پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق اس وقت ملک بھر میں چھوٹے بڑے اخبارات و جرائد کی تعداد کم و بیش 707 اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے مطابق نجی ٹی وی چینلز کی تعداد 89 ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ ملک بھر میں متعدد سرکاری اور نجی خبر رساں ادارے بھی خبروں کی تقسیم اور ترسیل کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ شعبہ صحافت میں ہزاروں کارکن صحافی، تکنیکی اور دیگر عملہ رات کے اوقات میں خبروں کی وصولی، تصدیق، ترسیل، خبروں کی تیاری، فلم بندی، تدوین، اور ان کی اشاعت و نشریات سمیت دیگر انتظامی امور کے لئے بھی سرگرم عمل ہیں۔ اگرچہ ملازم اور کارکن کی تعریف بے حد وسیع ہے، لیکن قانون کے مطابق عمومی طور پر اپنے ہاتھ یا جسم کے ذریعہ اپنی بقاء کے لئے کسی صنعتی یا تجارتی ادارے میں بطور اجرت کام کرنے والے شخص کو کارکن قرار دیا گیا ہے۔

انیسویں صدی میں دنیا میں صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد صنعتوں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے حالات کار اور ان کی صحت کو لاحق خطرات کے متعلق گوناگوں مسائل سامنے آئے، جن میں ان کے اوقات کار کا مسئلہ سر فہرست تھا۔ دنیا بھر میں معیار محنت کی تشکیل اور نگرانی، شعبہ محنت کی پالیسی سازی، مرد و خواتین کارکنوں کے لئے اوقات کار کے تعین، باوقار روزگار اور کام کی جگہ صحت و سلامتی کے فروغ کے لئے کوشاں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارہ عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے ایک جائزہ کے مطابق دن کے بجائے رات کے اوقات میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ چنانچہ 1919 ء میں عالمی ادارہ محنت کے قیام کے ابتدائی برسوں میں رکن ممالک کے اجلاسوں میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد کارکنوں کے اوقات کار کے متعلق عالمی محنت معیار کے تحت یہ حقیقت تسلیم کی گئی تھی کہ ”کام کے زائد اوقات کارکنوں کی صحت اور ان کے اہل خانہ کے لئے باعث نقصان ہیں“ ۔

لہذاء 29 ء اکتوبر 1919 ء کو واشنگٹن، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں منعقدہ رکن ممالک کے اجلاس میں عالمی ادارہ محنت کی جانب سے طے شدہ کام کے گھنٹوں کے پہلے عہد و پیماں (کنونشن) میں کارکنوں کے لئے کام کے مقررہ گھنٹوں اور مناسب وقفہ آرام کی سہولت فراہم کرنے کے لئے ایک قانون منظور کیا گیا تھا۔ جو دنیا کی صنعتی تاریخ میں کارکنوں کے مقررہ اوقات کار کے تعین کے لئے ایک اہم سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح عالمی ادارہ محنت کی مجلس عاملہ کے جنیوا میں منعقدہ 14 ویں اجلاس عام بتاریخ 10 ء جون 1930 ء میں بھی صنعتی، تجارتی، کاروباری اور دیگر اداروں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لئے کام کے مقررہ گھنٹوں کی منظوری دی گئی تھی۔

جس کا اطلاق تمام عوامی اور نجی شعبوں کے صنعتی، تجارتی، کاروباری و دیگر اداروں بشمول ڈاک، ٹیلیگراف و ٹیلی فون سروسز اور کسی بھی تجارتی و کاروباری اداروں کی شاخوں پر بھی کیا گیا تھا۔ عالمی ادارہ محنت کے ان درج بالا عہد و پیمان کے ذریعہ کارکنوں کے لئے عمومی معیار کے مطابق یومیہ 8 گھنٹے کام (ایک گھنٹہ وقفہ آرام) یا ایک ہفتے میں کام کے 48 باقاعدہ گھنٹے مقرر کیے گئے تھے۔

ماہرین صحت کے مطابق رات کی شفٹ میں کام کرنے سے انسانی صحت پر بے شمار مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جن میں قدرتی نیند کے سرور میں خلل، بلند فشار خون، دورہ قلب، ڈپریشن، جسم کے میٹابولزم میں تبدیلی، امراض معدہ کے مسائل، موٹاپا، ذیابیطس، خواتین میں چھاتی کا سرطان اور جسم کے لازمی وٹامن ڈی سے محرومی کے خطرات میں اضافہ شامل ہے۔ جس کے باعث ان کارکنوں کی گھریلو اور سماجی زندگی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے عہد و پیماں نمبر 171 بابتہ 1990 ء کے مطابق رات کے اوقات میں کام کی تعریف ”کسی کارکن کی جانب سے کم از کم مسلسل سات گھنٹے کام اور نصف شب سے صبح پانچ بجے تک وقفہ آرام۔ “ بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کی جانب سے دنیا بھر میں رات کے اوقات میں کام کرنے والے کارکنوں پر کی گئی ایک طبی تحقیق کے مطابق دن کے بجائے رات کے اوقات میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کی جانب سے دنیا کے مختلف خطوں کے کارکنوں کے اوقات کار کے متعلق ایک جائزہ رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ زیادہ دیر تک کام کرنا کارکن کی اچانک موت اور ذہنی صدمہ کا باعث بن سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی اسی چشم کشاء رپورٹ کے پیش نظر گزشتہ دنوں جنوبی کوریا میں کارکنوں کو ان کی انمول زندگی کے مفاد میں واضح ہدایت جاری کی گئی تھی کہ ”کمپیوٹر بند کرو اور گھر جاؤ“ ۔ انسانی صحت اور اوقات کار کے موضوع پرایک اور حالیہ طبی تحقیق کے مطابق صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں طویل اوقات کار کے باعث لاکھوں کارکنان کی اچانک اموات سامنے آ رہی ہیں۔

عالمی سطح پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سال 2016 ء میں دنیا بھر کے مختلف صنعتی، کاروباری اداروں اور دفاتر میں طویل اوقات کار کے باعث 745000 ملازمین دل کا دورہ پڑنے یا فالج ہونے سے زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے زائد اوقات تک کام کرنے والے ملازمین میں فالج کے حملے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور دورہ قلب سے اموات کی شرح، 35 تا 40 گھنٹے کام کرنے والوں کے مقابلہ میں 17 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں جنوب مشرقی ایشیاء اور مغربی بحرالکاہل کے ممالک کے کارکنان سب سے زیادہ متاثر پائے گئے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جاپانی کارکن سب سے زائد گھنٹے کام کرتے ہیں۔ جس کے باعث جاپانی کارکنان میں زائد کام کے دباؤ کے نتیجہ میں اچانک اموات کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جنہیں جاپانی زبان میں کاروشی کا نام دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیشتر جاپانی کارکنان کی اچانک موت کا سبب حملہ قلب اور دماغ کی شریان پھٹ جانا بتایا گیا ہے۔ یہ نوجوان متوفی کارکنان ہفتے میں 110 گھنٹے ( ساڑھے چار دن تک) تک کام کیا کرتے تھے عالمی ادارہ صحت نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ اگر صنعتی اور کاروباری اداروں میں کام کے طویل اوقات کار کی یہی روش قائم رہی کارکنان میں اچانک اموات کے رجحان میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔

پاکستان میں بھی بیشتر صنعتی، تجارتی، کاروباری اور دیگر اداروں میں کارکنان کے لئے طویل اوقات کار، کام کے دباؤ، جسمانی و ذہنی دباؤ اور اداروں کی جانب سے کارکنان کو بروقت تنخواہوں کی عدم ادائیگی، تاخیر سے ادائیگی اور بیروزگاری کے مسائل کا شکار متعدد کارکنان اور صحافی آنا فانا موت کا شکار ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی اسی رپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے جنوبی کوریا میں ملازمین کو ہدایت کی گئی تھی کہ کام کے مقررہ اوقات کار کے بعد کوئی فاضل وقت کام ( اوور ٹائم) نہیں ہو گا، ملازمین 8 بجے کمپیوٹر اپنے بند کریں اور گھروں کو جائیں۔

سال 2018 ء میں حکومت نے دارالحکومت سیول میں ملازمین کو بروقت گھروں پر بھیجنے کے لئے ایک نئے اقدام کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت جمعہ کی شب 8 بجے تمام دفاتر کے کمپیوٹر بند کرنا ہوں گے۔ حکومت کہنا تھا کہ وہ ”اوور ٹائم کام پر کام کرنے کی روایت“ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی کوریا کا شمار دنیا کی محنتی ترین اقوام میں کیا جاتا ہے جہاں جاپان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کارکنان سے ہفتے میں سب سے زیادہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی کوریا میں ملازمین سالانہ اوسطا 2,739 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ جو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ملازمین کے مقابلے میں 1,000 گھنٹے زیادہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق لندن کی ایک عالمی براڈ کاسٹنگ کمپنی میں گزشتہ 20 برسوں سے رات کے اوقات کار میں خدمات انجام دینے والی 43 سالہ برطانوی خاتون صحافی اور براڈکاسٹر کورڈیلا فیلویز نے صحافیوں کے رات کے اوقات میں کام کرنے کو قبرستانی شفٹ  کا نام دیا ہے۔ انہوں نے ایک نامہ نگار جولیٹ رینر کو رات کے اوقات کار کے نقصانات کے سیاہ سچ سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک طویل عرصہ سے ایک نشریاتی ادارہ میں رات کی شفٹ میں خدمات انجام دینے کے دوران وہ بڑی آنت کی اینڈوسکوپی اور مانع افسردگی ادویات کے استعمال کے باعث شدید قبض کا شکار ہو گئی تھیں۔

خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ اس دوران میری جلد سرمئی اور میرا موڈ مستقل گرا ہوا رہنے لگا تھا اور میرے سر کے بال بھی تیزی سے جھڑنے لگے تھے۔ جب میں نے اس نشریاتی کمپنی میں شمولیت اختیار کی تھی تو مجھے یقین دلایا گیا تھا میرے لئے رات کے اوقات کار اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک باوقار اور باعزت ملازمت تھی کہ جس کی خاطر میں نے غیر سماجی گھنٹوں پر مشتمل یہ زندگی اختیار کرلی تھی۔ اس وقت میں جوان پھرتیلی اور شوہر اور بچوں کے جھنجھٹ سے بھی آزاد تھی۔ ان دنوں مجھے اوسطاً ہفتے میں رات کی چار شفٹوں میں کام کرنا پڑتا تھا، جس کے بعد چار دنوں کی چھٹی اور پھر چار دنوں کی پہلی شفٹ، پھر چار دنوں کی چھٹی اور پھر چار راتوں کی ڈیوٹی پر واپسی کا سلسلہ تھا۔

میری رات کے اوقات میں ملازمت کا سلسلہ مسلسل پورے سات برسوں تک جاری رہا۔ میں قطیعت کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اس ملازمت کے دوران دن کے اوقات میں سکون کی نیند لینا، خصوصاً جب آپ گنجان آباد شہر لندن کے ایک فلیٹ میں رہتے ہوں، کانوں میں ائر پلگ لگانے کے باوجود میرے لئے تقریباً ناممکن تھا۔ میں دن میں کئی بار دروازہ پر گھنٹی بجنے پر ہڑبڑا کر اٹھ جایا کرتی تھی، اکثر اوقات تو ایک ڈیلیوری مین ہمیشہ ہی غلط فلیٹ کی گھنٹی بجا دیا کرتا تھا، لندن شہر کی سڑکوں کا پرشور ٹریفک، فلیٹوں کے ہمسایوں کی بلند آوازیں اور ٹیلی فون کی بجتی گھنٹیاں، خوش قسمتی سے میں ایک آدھ دن خواہ کسی بھی شفٹ کے بعد چار سے چھ گھنٹے کی بری طرح ٹوٹی ہوئی نیند پوری کر لیا کرتی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ دن کی روشنی میں نیند لینے کی کوشش کے نتیجہ میں، میں غیر معمولی ہلکی نیند والی شخصیت بن گئی تھی۔

اس دوران میری یومیہ خوراک بھی بری طرح متاثر ہوئی تھی، میں ہمیشہ دبلی رہی ہوں لیکن اس دوران میرا وزن کافی حد تک بڑھ گیا تھا۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ میں زیادہ تر وقت باقاعدگی سے کھانا نہیں کھا پاتی تھی۔ بلکہ میں نے رات کی شفٹ کے دوران ہلکی پھلکی بھوک کے لئے جنک فوڈ کا زیادہ استعمال شروع کر دیا تھا۔ اپنی نائٹ شفٹوں کے دوران میں نے مکمل طاقت کے کین اور چینی بھرے چاکلیٹ بار بھی کھانا شروع کر دیے تھے۔ میری مسلسل بے قاعدہ نیند اور غیر معیاری غذا کے منفی اثرات فوری طور پر سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔

میں ایک طویل عرصہ تک بے خوابی کی مریضہ بن گئی تھی اور اس کے نتیجہ میں، میں نے ہر دستیاب خواب آور ادویات خود پر آزمائیں اور طویل عرصہ تک ان کا بے دھڑک استعمال کیا۔ صحت کی دن بدن بگڑتی صورت حال کے باعث میں نے چند ماہ قبل اپنے خاندانی معالج سے رجوع کیا تھا۔ جس نے میرے طبی معائنہ کے بعد مجھے فوری طور پر رات کے اوقات میں کام بند کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس کے بعد میں نے جب اپنے ادارہ کے منیجر سے اس بات کا تذکرہ کیا تو انہوں نے ادارہ کے مقررہ معالج سے میرے لئے وقت لے کر دیا اور اس معالج نے بھی مجھے یہی بات کہی کہ مجھے اب فوری طور پر رات کے اوقات میں کا بند کر دینا چاہیے۔

انسانی صحت کو پہنچنے والے اسی سنگین خطرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) نے اپنے مقرر کردہ عالمی معیار محنت اور شعبہ محنت کے لئے قانون سازی مرتب کرتے وقت ابتداء میں خواتین کے لئے رات کے اوقات میں کام کو ممنوع قرار دیا تھا۔ جبکہ عالمی ادارہ محنت کی مجلس عاملہ کے جنیوا میں منعقدہ 77 ویں اجلاس بابتہ 6 جون 1990 میں رات کے اوقات میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے لئے دن میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے مقابلہ میں ”مناسب مالی معاوضہ“ کے عہد و پیمان نمبر 178 کی منظوری بھی دی گئی تھی اور اسی فیصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک میں لازمی پیشوں سے وابستہ کارکنوں کی لازمی خدمات کی اہمیت اور اس کے نتیجہ میں ان کی صحت پر مضر اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی غرض سے دن میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے مقابلہ میں انہیں اضافی تنخواہیں، ادائیگیاں اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

پاکستان نے بھی عالمی ادارہ محنت کے رکن ملک کی حیثیت سے محنت کے شعبہ میں عالمی ادارہ محنت کے منظور کردہ 36 عہد و پیمان (کنونشن) کی توثیق کی ہوئی ہے۔ جس کے مطابق ملک میں مقرر کردہ قوانین معیار محنت کے تحت کسی کارکن کے ملازمت اختیار کرتے وقت ملازمت کے تقرر نامہ کا اجراء، کام کی شرائط و ضوابط، کام کی صراحت، عمدہ کام کا ماحول، ہفتے میں آٹھ گھنٹے کام، باعزت اجرت، اضافی کام کا دگنا معاوضہ، ہفتہ واری اور تہواری تعطیل، اتفاقی /طبی/استحقاقی/زچگی رخصت کی سہولت، ملازمین اور اہل خانہ کے لئے علاج و معالجہ کی سہولیات، بچوں کی تعلیم، جنرل پروویڈنٹ فنڈ، اجتماعی بیمہ، منافع کا بونس، کام کی جگہ صحت و سلامتی، معیاری کھانے پینے کی سہولت کے لئے کینٹین کی سہولت، ملازم کی وفات کی صورت میں تدفین کے اخراجات اور متوفی ملازم/کارکن کے اہل بچہ یا بچی کے لئے ملازمت کی فراہمی، اور ریٹائرمنٹ یا معذوری کی صورت میں تاحیات پنشن لازمی قرار دی گئی ہیں۔

چنانچہ ملک میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے نجی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لئے ورکرز ویلفیئر فنڈ (WWF) ، ایمپلائیزاولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) اور صوبائی سطح پر ادارہ ہائے سماجی تحفظ اور محکمہ ہائے محنت قائم کیے گئے ہیں۔ جن کے قیام کا مقصد نجی صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کو حکومت کی نگرانی اور ان کے آجران کی مالی سرپرستی اور تعاون سے بچوں کی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تعلیمی وظائف، بچی کی شادی کے موقع پر 2، لاکھ روپے کی جہیز امداد اور 6، لاکھ روپے کی وفات امداد، علاج و معالجہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات پنشن کی سہولیات بہم پہنچانا ہے۔ اخبارات و جرائد، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنان اور ان اخبارات و جرائد کے پرنٹنگ پریسوں اور دیگر شعبہ جات میں خدمات انجام دینے والے کارکنان بھی ان وفاقی اور صوبائی اداروں کی فلاح و بہبود منصوبوں کے زمرے میں آتے ہیں۔

پاکستان کے مروجہ ملازمتی قوانین قائمہ احکامات 1968 ء کی رو سے ملک کے تمام صنعتی، کاروباری، تجارتی، اشاعتی، صحافتی، نشریاتی اور دیگر نجی اداروں میں خدمات انجام دینے والے تمام ملازمین اور کارکنان خواہ ان کی ملازمت کسی بھی نوعیت کی ہو یعنی عارضی، یومیہ اجرت، بدلی، تربیتی، موسمی، ٹھیکیداری یا مستقل، ایسے تمام کارکنوں کے لئے ملازمتوں کے بنیادی حقوق بشمول تقرر نامہ کا اجراء، ملازمت کی شرائط و ضوابط، یومیہ 8 گھنٹے کے اوقات کار اور ہفتہ واری تعطیل فراہم کیے گئے ہیں اور تمام آجران پر ان قوانین محنت پر عملدرآمد کے لئے قانونی و اخلاقی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔

ان بنیادی ملازمتی حقوق میں ملازمت فراہم کرتے وقت کارکنان کے لئے تقرر نامہ کا اجراء بمطابق قائمہ احکامات 1968، ملازمت کی شرائط و ضوابط، کام کی صراحت، اوقات کار کا تعین، تنخواہ اور الاؤنسز، ادارہ کے شناختی کارڈ کا اجراء، کام کی جگہ حفاظتی اقدامات کی سہولت، ملازمت پر آمدورفت کے سواری کی سہولت، ذاتی اور اہل خانہ کے لئے علاج و معالجہ کی سہولت، رخصت کی سہولیات، اتفاقی /طبی/استحقاقی/زچگی رخصت، بچوں کے لئے تعلیم کی سہولت، جنرل پروویڈنٹ فنڈ، ملازمین کا اجتماعی بیمہ، اوور ٹائم، دگنا اوور ٹائم، منافع کا بونس، معیاری کھانے پینے کی سہولت کے لئے کینٹین کی سہولت، ملازم کی وفات کی صورت میں تدفین کے اخراجات اور متوفی ملازم/کارکن کے اہل بچہ یا بچی کے لئے ملازمت کی فراہمی، کارکنان اور ان کے لواحقین کی پنشن کے لئے ای او بی آئی (EOBI) میں لازمی رجسٹریشن اور ان کی مد میں ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی، کارکن اور اہل خانہ کے علاج و معالجہ کے لئے ادارہ ہائے سماجی تحفظ میں رجسٹریشن، بچوں کی تعلیم اور تعلیمی وظائف، رہائشی سہولیات، علاج و معالجہ، بچیوں کی شادی کے لئے 2 لاکھ روپے کی جہیز گرانٹ اور دوران ملازمت حادثاتی وفات کی صورت میں 5 ؒٓلاکھ روپے کی وفات امداد (Death Grant) کے حصول کے لئے ورکرز ویلفیئر فنڈ (WWF) میں رجسٹریشن کرانا لازمی ہے۔

خاکسار نے پنشن کے قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں چار دہائیوں تک مختلف حیثیت میں خدمات انجام دی ہیں۔ اس عرصہ ملازمت کے دوران ادارہ کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کے سربراہ اور افسر تعلقات عامہ کی حیثیت سے ہم نے دنیا جہاں کی خبریں فراہم کرنے والے ملک کے نامور اور تجربہ کار صحافی حضرات کو خود اپنے بنیادی ملازمتی حقوق اور حکومت کی جانب سے نجی شعبہ کے کارکنان کی فلاح و بہبود اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے قائم شدہ قومی اداروں اور ان کی جانب سے فراہم کی جانے والی جملہ سہولیات کے معاملہ میں تقریباً کورا ہی پایا ہے۔

لہذاء ہم نے ای او بی آئی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے شہر کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے ایسے بے شمار صحافی حضرات کہ جنہیں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد پنشن کے طریقہ کار اور قوانین سے عدم واقفیت اور لاعلمی اور اپنی ملازمتی دستاویزات کی کمی کے باعث اپنی ای او بی آئی کی تاحیات ضعیف العمری پنشن کے حصول کے لئے دشواریوں کا سامنا تھا۔ چنانچہ ان صحافی حضرات کی مناسب اور بھرپور رہنمائی اور تعاون کر کے ان کے لئے تاحیات ضعیف العمری پنشن کی منظوری کو یقینی بنایا۔ جبکہ متعدد سینئر صحافی اخبارات و جرائد میں 30 اور 40 برسوں کی طویل ملازمت کے باوجود محض ضروری ملازمتی دستاویزات نہ ہونے اور اپنی روایتی تساہلی کے باعث تاحال اپنی تاحیات ای او بی آئی پنشن سے محروم ہیں۔

اس وقت بھی صورت حال جوں کی توں ہے کہ بیشتر اخبارات و جرائد، اشتہاری اداروں، نجی ٹی وی چینلز اور دیگر صحافتی ادارے ای او بی آئی میں اپنی اور اپنے ادارے کے کارکنوں کی رجسٹریشن اور ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی سے یا تو لاعلم ہیں یا اس ذمہ داری سے کتراتے ہیں اور بعض رجسٹر شدہ اخبارات و جرائد اور نجی ٹی وی چینلز کی انتظامیہ تو پنشن کی مد میں کنٹری بیوشن کی رقم بچانے کی غرض سے ای او بی آئی کے سامنے یا تو اصل تعداد سے کم کارکنان ظاہر کرتے ہیں یا بعض اخباری ادارے اپنے کارکنان کی تنخواہوں سے ماہانہ کنٹری بیوشن کٹوتی کر کے یہ رقم ای او بی آئی پنشن فنڈ میں جمع کرانے کے بجائے اپنے ادارہ کی دیگر مدوں میں استعمال کر کے کارکنوں کی امانت میں بدترین خیانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اسی طرح ان اخبارات و جرائد، خبر رساں اداروں اور نیوز ٹی وی چینلز کی انتظامیہ جانب سے ملازمت سے سبکدوش ہونے والے اپنے صحافیوں اور کارکنوں کو ان کی ملازمت کی مدت کے ملازمتی سرٹیفیکیٹ، دیگر ملازمتی دستاویزات کی تصدیق اور پنشن کی رقم کے تعین کے لئے ان ریٹائر صحافیوں کی ملازمتوں کے آخری برس کی 12 ماہ کی تنخواہوں کے گوشواروں کی فراہمی میں بھی لیت و لیل اور گریز کا مظاہرہ کیا جاتا ہے دیکھا جائے تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی وطن عزیز میں صحافیوں اور دیگر کارکنوں کو تقرر نامے کے عدم اجراء، طویل اوقات کار اور بروقت تنخواہیں اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی، تنخواہوں سے کٹوتی اور بیروزگاری کی بدترین صورتحال کے باعث بیشتر قومی اخبارات

و جرائد، خبر رساں اداروں اور نیوز ٹی وی چینلز کے بڑے بڑے دفاتر مجبور اور بے کس صحافیوں کے لئے بدترین استحصال، جبری مشقت کے مراکز اور بیگار خانے بن گئے ہیں۔ جہاں صحافی حضرات اپنی راتوں کی قیمتی نیند قربان کر کے اور اپنی انمول صحت کو سنگین خطرات میں ڈال کر نا صرف اخبارات و جرائد کی بروقت اشاعت کو یقینی بنا رہے ہیں بلکہ 24 گھنٹے نیوز ٹی وی چینلز کی بلا خلل نشریات کی فراہمی کے ذریعہ بھی عوام الناس کو لمحہ بہ لمحہ تازہ ترین خبروں کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں۔

لیکن افسوس صد افسوس ان بے لوث خدمات اور فرض شناسی کے باوجود صنعت صحافت سے وابستہ صحافی اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نا صرف اپنے بنیادی ملازمتی حقوق سے محروم ہے بلکہ ستم بالائے ستم اپنی کئی کئی ماہ کی تنخواہوں، ادائیگیوں اور دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔ میڈیا ہاؤسز میں صحافیوں کے لئے دن بدن بگڑتی صورت حال اور ملازمتوں کی حالت زار کے باعث بہت سے صحافی تو زبردست ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر اپنی جان کی بازی بھی ہار گئے ہیں۔ جن کے غم زدہ اور ستم رسیدہ لواحقین اپنے پیاروں کے جائز واجبات اور حقوق کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ تشویشناک صورت حال ملک کی صحافی برادری کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

اگرچہ گزرتے وقت کے ساتھ بیشتر قومی اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز میں کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ٹریڈ یونین سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ اگرچہ ملک بھر میں صحافی برادری کی فلاح و بہبود کے نام پر بے شمار تنظیمیں اور پریس کلب قائم ہیں۔ لیکن صحافیوں کے بنیادی ملازمتی حقوق، بروقت تنخواہوں کی ادائیگی، اچانک برطرفیوں، بیروزگاری، جائز بقایاجات کی ادائیگی اور بڑھاپے اور معذوری میں پنشن اور طبی سہولیات کی فراہمی جیسے اہم مسائل کے حل کے لئے ان صحافتی تنظیموں کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا۔

موجودہ دور میں ملک کے ابتر معاشی حالات، بدترین مہنگائی، بلند افراط زر موجودہ حکومت کی میڈیا اور سرکاری اشتہارات کی پالیسی اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے باعث اور عوام الناس میں تازہ ترین خبروں کے لئے سوشل میڈیا کی مقبولیت نے پرنٹ میڈیا کی صنعت کو تیزی سے زوال کی جانب گامزن کر دیا ہے۔ چونکہ اب تقریباً تمام قومی اخبارات و جرائد کے ای پیپر/ انٹرنیٹ ایڈیشن قارئین کو پڑھنے کے لئے دستیاب ہیں۔ لہذاء اخبارات و جرائد کی سرکولیشن بھی دن بدن کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ لہذاء بیشتر اخبارات و جرائد اور نجی نیوز ٹی وی چینلز اور خبر رساں اداروں میں صحافیوں اور دیگر عملہ کی ملازمتوں سے برطرفیوں اور تنخواہوں میں کٹوتی اور بیروزگاری کا عفریت انہیں تیزی سے نگل رہا ہے۔

اخباری صنعت میں یہ وتیرہ بھی عام ہو گیا ہے کہ کئی کئی دہائیوں تک قومی اخبارات و جرائد میں اہم ذمہ داریوں پر خدمات انجام دینے والے بزرگ صحافیوں کو ان کی ملازمت سبکدوشی کے موقعہ پر ان کی برسوں کی خدمات کے لاکھوں روپے کے جائز واجبات، جنرل پروویڈنٹ فنڈ، گریجویٹی اور ای او بی آئی کی پنشن کے حصول کے لئے ملازمتی سرٹیفیکیٹ اور دیگر دستاویزات کی تصدیق اور ان کی ای او بی آئی پنشن میں رکاوٹیں ڈالنے کی غرض سے ملازمت کے آخری برس کی تنخواہوں کے گوشوارے بھی فراہم نہیں کیے جاتے اور اس مقصد کے لئے انہیں بار بار اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کے ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث ان کی پنشن کی منظوری میں کافی تاخیر ہوجاتی ہے یا وہ اپنی پنشن کے حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ملک میں صنعت صحافت کو درپیش اس ابتر اور غیر یقینی صورت حال میں صحافیوں، اخبارات و جرائد اور نیوز ٹی وی چینلز سے وابستہ دیگر کارکنوں کی قانون کے مطابق ملازمتوں کے تحفظ، تنخواہوں کی بروقت ادائیگی اور ان کے دیگر بنیادی ملازمتی حقوق کے تحفظ کے لئے قانونی اور اخلاقی امداد فراہم کرنا نہ صرف اخبارات و جرائد، خبر رساں اداروں اور نیوز ٹی وی چینلز کے مالکان، انتظامیہ بلکہ صحافیوں کے حقوق کے محافظ ہونے کی دعویدار اور علمبردار ملک گیر صحافی تنظیموں کی بھی اولین ذمہ داری ہے۔

مضمون نگار سماجی بیمہ، سماجی تحفظ، مزدور قوانین، صنعتی تعلقات اور میڈیا کے شعبہ میں طویل تجربہ کے حامل ہیں۔ ان موضوعات پر آپ کے تحریر کردہ مضامین، فیچرز، تراجم اور رپورٹیں قومی اخبارات و جرائد اور نیوز ویب سائٹس میں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ عرصہ 40 برسوں تک ای او بی آئی، وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان میں مختلف اہم مناصب پر خدمات انجام دیں اور طویل عرصہ تک ای او بی آئی میں سربراہ میڈیا ڈپارٹمنٹ اور بطور افسر تعلقات عامہ کے عہدہ پر فائز رہے

آپ نے ادارہ میں دفتری امور اردو زبان میں انجام دینے کی ابتداء کی اور ستمبر 2015 میں عدالت عظمیٰ پاکستان کے سرکاری اداروں میں دفتری امور اردو زبان میں انجام دینے کے تاریخی فیصلہ کے تحت ای او بی آئی میں قائم کردہ مجلس نفاذ اردو زبان کے سیکریٹری کی حیثیت سے ادارہ میں دفتری امور میں اردو زبان کے نفاذ کے لئے بھرپور طور سے کوشاں رہے اور انگریزی سے اردو کے مترجم کی حیثیت سے ای او بی آئی کے تمام قوانین، قواعد و ضوابط، دستاویزات، خط و کتابت، مضامین، انٹرویوز، ای او بی آئی کی اردو زبان میں ویب سائٹ، ادارہ کے اشتہارات کے متن کی تیاری اور ترجمہ نگاری کے فرائض بھی انجام دیے۔

آپ نے ای او بی آئی کے بیمہ دار افراد میں آگہی اور شعور بیدار کرنے کے لئے اشتہار سازی، مضامین نگاری اور بڑے پیمانے پر تشہیری مہم اور تشہیری منصوبے تیار کیے ۔ ای او بی آئی کی جانب سے علاقائی و ملکی سطح کی تقریبات، نومبر 2019 میں اسلام آباد میں منعقدہ پہلے یوم پنشن کے انتظام اور انعقاد کی اہم ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ ای او بی آئی کے لئے غیر معمولی اور گرانقدر خدمات کے اعتراف میں آپ کو دوران ملازمت کئی بار مالی اعزازیوں، تعریفی اسناد اور انعامات سے بھی نوازا گیا۔

آپ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایڈمنسٹریشن ٹریننگ NILAT) ( حکومت پاکستان سے مزدور انتظام اور صنعتی بہبود کے شعبہ میں فارغ التحصیل ہونے کے علاوہ ملک کے موقر تربیتی ادارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (PIM) کراچی کے سند یافتہ بھی ہیں۔

ای او بی آئی کی ملازمت سے فراغت کے بعد آپ صحافتی، ادبی، سماجی اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ ملک کے محنت کش طبقہ کی فلاح و بہبود اور ان کے بنیادی حقوق سے متعلق آگہی اور معلومات کی فراہمی کے لئے بھی کوشاں ہیں اور اس مقصد کے تحت سوشل سیفٹی نیٹ پاکستان نامی ادارہ قائم کیا ہے۔ آپ ایک عرصہ تک کراچی پریس کلب میں ایڈمنسٹریٹر کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ اسرار ایوبی

سابق افسر تعلقات عامہ، ای او بی آئی (EOBI)
وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان
رابطہ نمبر: 0335۔ 2897910 اور 0300۔ 3913793
قومی شناختی کارڈ نمبر 42101۔ 7839708۔ 5
israrayoubi@gmail.com
کراچی: 22 ستمبر 2022 facebook/ Israr Ayoubi


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments