گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو، پائیدار ترقی کا راستہ


حالیہ عرصے میں چین، جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، کی جانب سے ترقی کے مسائل پر عالمی توجہ کی تجدید اور عہد حاضر میں عملی تعاون کے راستے تلاش کرنے کی نمایاں کوششیں سامنے آئی ہیں۔ یہ کاوشیں اس باعث بھی لائق تحسین ہیں جب دنیا سنگین چیلنجوں اور انتہائی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو (جی ڈی آئی) اس کی عملی مثال ہے جو 2021 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس کی عام بحث میں چین کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد عالمی ترقی کو متوازن، مربوط اور جامع ترقی کے نئے مرحلے کی جانب لے جانا ہے۔

یہ اقدام اس باعث بھی بروقت ہے کہ دنیا کووڈ۔ 19 کی وبائی صورتحال اور علاقائی تنازعات جیسے چیلنجوں کی وجہ سے، اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کے ذریعے طے شدہ گلوبل متفقہ ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں مزید مشکلات سے دوچار ہے۔ سنٹر فار انٹرنیشنل نالج آن ڈویلپمنٹ کی جاری کردہ گلوبل ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق، وقت کے تقاضوں کی روشنی میں، جی ڈی آئی بین الاقوامی برادری کو 2030 کے ایجنڈے پر عمل درآمد کو تیز کرنے کے لیے ایک قابل عمل راستہ فراہم کرتا ہے۔

دوسری جانب گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو دنیا کو حالیہ دھچکوں سے نکالنے اور دنیا بھر میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں تیزی لانے کے لیے ایک امید افزا ردعمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ماہرین بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے بعد چین کی جانب سے جی ڈی آئی کو ایک اور بڑا اقدام قرار دیتے ہیں جو عالمی ترقیاتی تعاون کی ”ری موبلائزیشن“ اور عوام پر مبنی تصور کی ”دوبارہ تصدیق“ ہے۔ بلاشبہ یہ اقدام چین کی جانب سے دنیا کو فراہم کردہ ایک اور اہم ”پبلک پروڈکٹ“ ہے، اور تمام فریقوں کے لیے اپنی ترقیاتی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے اور عملی تعاون کو گہرا کرنے کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم ہے۔

وسیع تناظر میں بیلٹ اینڈ روڈ کو آگے بڑھانے سے لے کر ضرورت مند ممالک کو کووڈ۔ 19 ویکسین کی فراہمی اور جی ڈی آئی کی تجویز تک، چین نے حالیہ برسوں میں ایک بڑے ملک کے طور پر اپنی ذمہ داری کے احساس کو مجسم کرتے ہوئے دنیا کے بہترین مفاد میں بے شمار ”پبلک پروڈکٹس“ فراہم کی ہیں۔ ایک سال قبل اپنی شروعات کے بعد سے، جی ڈی آئی کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے گرمجوش ردعمل ملا ہے، جس میں اب تک 100 سے زائد ممالک نے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

رواں سال جنوری میں، جی ڈی آئی کا ”“ گروپ آف فرینڈز ”اقوام متحدہ میں لانچ کیا گیا تھا، اور اب تک 60 سے زیادہ ممالک اس گروپ میں شامل ہو چکے ہیں۔ عالمی دلچسپی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ چین آٹھ اہم شعبوں میں تعاون کے منصوبوں سے ٹھوس نتائج کا خواہاں ہیں جن میں غربت کا خاتمہ، تحفظ خوراک، کووڈ۔ 19 کا ردعمل اور ویکسینز، ترقی کے لیے فنانسنگ، موسمیاتی تبدیلی اور سبز ترقی، صنعت کاری، ڈیجیٹل معیشت، اور رابطہ سازی، شامل ہیں۔

اس ضمن میں دیکھا جائے تو غربت میں کمی، لوگوں کی زندگی میں بہتری اور انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی کو فروغ دینے میں چین کی کامیابیاں پائیدار ترقیاتی پالیسیاں وضع کرنے میں دنیا کو تحریک فراہم کرتی ہیں۔ اس سارے عمل میں چین وہ طاقت ہے جو تمام ممالک کو متحد کر سکتی ہے کہ اتفاق رائے کے حصول سے مشترکہ طور پر چیلنجوں سے نمٹا جائے۔ چین کوشاں ہے کہ آئندہ جی ڈی آئی پراجیکٹس کا ایک پول قائم کرنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جائے جس میں تمام فریق شریک ہو سکیں۔

چین واضح کر چکا ہے کہ وہ حقیقی کثیر الجہتی اور شراکت داری کے کھلے اور جامع جذبے کے لیے پرعزم رہے گا، ترقی کی مہارت اور تجربے کا فعال طور پر اشتراک کرے گا، جی ڈی آئی کو نافذ کرنے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ کام کرے گا اور اقوام متحدہ کے 2030 کے ترقیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں تیز کرے گا، تاکہ ترقی کے حوالے سے عالمی برادری کا ایک ہم نصیب سماج تعمیر کیا جا سکے اور دنیا بھر کے عوام حقیقی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments