انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند


وطن عزیز اس وقت سیلاب جیسی قدرتی آفت کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ اس کی شدت 2012 میں آنے والے سیلاب سے کئی گنا زیادہ تھی۔ گو کہ بارش کب کی رک چکی۔ مگر جہاں تک نظر جاتی ہے پانی ساکت حالت میں کھڑا ہے۔ اس کی نکاسی یا خشک ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ گھر کب رہنے کے قابل ہوں گے۔ اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں ہے۔ چار کروڑ پاکستانی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو چکیں۔ مال مویشی سیلاب کی نظر ہو گئے۔ پانی کے نہ نکلنے کی وجہ سے لوگوں کو مختلف بیماریوں کا سامنا ہے۔ کم سن بچے تکلیف سے بلبلا رہے ہیں۔ خواتین کھلے آسمان کے نیچے اپنا دامن سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بعض ایسے علاقے جہاں سڑکیں اور پل پانی میں بہہ چکے ہیں۔ وہاں لوگ امداد نہ پہنچنے کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

دوسری طرف سیاسی میدان پورے جوبن پر ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ جیسے پورا ملک امن اور سکون کا گہوارہ ہو۔ سابق وزیراعظم عمران خان تاریخ کے اس بدترین سانحے میں بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے سیاسی میدان میں یک طرفہ ٹریفک چلا رکھی ہے۔

وہ ملک کے کئی شہروں میں درجنوں جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ تقریبا ایک ارب روپے سے زائد ان جلسوں پر پھونک ڈالے گئے۔ اگر خان صاحب ایک فیملی کو پچاس ہزار روپے کی امداد بھی عنایت کرتے تو تقریباً دو لاکھ گھرانوں کی مدد آسانی سے کی جا سکتی تھی۔ بدقسمتی سے شاید خان صاحب زندہ اور خوشحال لوگوں کے لیڈر ہیں۔ مصیبت زدہ کے نہیں۔

انسانیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں اس وقت تک موقوف کر دیتے جب تک کروڑوں مصیبت زدہ پاکستانی واپس اپنے گھروں میں آباد نہ ہو جاتے۔ مگر وہ شاید کسی ان دیکھے اشاروں کے حصار میں قید ہیں۔ اور جلد عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کو فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی کا غم بھی کھائے جا رہا ہے۔

اگر شہباز شریف اس اہم تعیناتی تک ٹکنے میں کامیاب ہو گئے۔ تو بازی خان صاحب کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اسی لیے وہ اکانومی کی ابتر صورتحال کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دراصل معاشی حالات خان صاحب کے دور سے ہی خراب چلے آرہے تھے۔ سیلاب نے مزید ابتر کر دیے ہیں۔

دوسری طرف حکومت معیشت کی بحالی کے لیے انتھک کوششوں میں مصروف ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے فائنل ہونے کے بعد وطن عزیز مشکل فیز سے نکل چکا ہے۔ اگر سیلاب جیسی ناگہانی آفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو حالات کافی بہتر ہوتے۔ شہباز حکومت اپنی سیاست اور ووٹ بنک کی پرواہ کیے بغیر ملک کو پٹری پر ڈالنے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ جب کہ مشکل فیصلوں کی وجہ سے نون لیگ کی مقبولیت کا گراف خاصا کم ہوا ہے۔ لہذا حکومت کے تین بڑوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے۔ کہ حکومت اگست 2023 تک برقرار رہ کر نہ صرف معیشت کو ٹریک پر واپس لائے گی۔ بلکہ اگلے بجٹ میں عوام کو وسیع پیمانے پر ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ تاکہ مخلوط حکومت کی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال ہو سکے۔

دراصل عمران خان کو بھی یہی فکر ستائے جا رہی ہے۔ اگر حکومت پاکستان کو مشکل فیز سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔ تو سیاسی میدان میں اس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔ خان صاحب نے پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا۔ کہ شہباز حکومت کے اگلے سال اگست تک برقرار رہنے کی صورت میں انہیں سیاسی طور پر نقصان اٹھانا پڑا سکتا ہے۔

ایک ممتاز صحافی اپنے ایک تجزیے میں فرماتے ہیں۔ کہ اسٹیبلشمنٹ اب بھی اپنے دل میں عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھے ہوئے ہے۔ ان کے خیال میں موجودہ حکومت کی بہت جلد چھٹی کا امکان ہے۔ کیوں اس سے جو کام لیا جانا تھا وہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ بقول ان کے عمران خان کئی مہینوں سے بڑا پریشر بلڈ کیے ہوئے ہیں۔ لہذا ان کو سائڈ لائن کرنا ناممکن ہے۔ موصوف کا مزید فرمانا تھا۔ کہ ادارے کے ریٹائرڈ افسران نے ایک دفعہ اپنے چیف سے پوچھا تھا۔ آپ نے عمران خان کو نکال کر چوروں کو مسلط کر دیا ہے۔ جس پر انہیں یقین دلایا گیا کہ ان کو بھی جلد رخصت کر دیا جائے گا۔

سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے۔ کہ ہر گیم کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ قواعد و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ کہ آپ کسی کو حکومت میں لا کر مشکل فیصلے کراہیں اور پھر ان کی چھٹی کر دیں۔ یہ بچوں کا کھیل تو نہیں ہے۔

جہاں تک عمران خان کے بیانیے یا سیاسی پریشر کا تعلق ہے۔ یہ وقتی ابال کی مانند ہے۔ جو جلد یا بدیر بیٹھ جائے گا۔ ان کے خیال میں عمران خان نے بطور وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ اس تجربے کے بعد دونوں کا الائنس بننا ناممکنات کا کھیل ہے۔ اقتدار سے معزولی کے بعد تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیموں نے اعلیٰ عسکری شخصیات کے بارے میں غلاظت پر مبنی ٹرینڈز چلائے۔ جس کی وجہ سے فوج کے رینک اینڈ فائل میں بے چینی پھیلی۔ گو کہ اسٹیبلشمنٹ میں کچھ لوگ خان صاحب کے حامی موجود ہیں۔ مگر وہ اقلیت میں ہیں۔ جب کہ اکثریت کی سوچ قدرے مختلف ہے۔ وہ ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے ان پر دوسری بار بھروسا کرنے سے کترا رہے ہیں۔

ایک طرف خان صاحب طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی تذلیل کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف سابق اعلیٰ فوجی شخصیات کی مدد سے انہی سے دوسری بار کندھا مانگتے ہیں۔ خان صاحب کے بارے میں پوری قوم جانتی ہے۔ کہ وہ شیلٹر کے بغیر نہ سیاست کر سکتے ہیں اور نہ حکومت۔ قانون سازی کے لیے انہیں خفیہ ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اتحادیوں کو باندھ کر رکھنا ہو۔ اپوزیشن کو اس کی تھاہ پر رکھنا ہو۔ یا بیرونی دنیا کے ساتھ ڈیلنگ کرنی ہو۔ موصوف یہ ساری ذمہ داریاں اسٹیبلشمنٹ کے ذمے ڈال دیتے تھے۔ اس کام کو بروئے کار لاتے وقت انہیں بڑی بدنامی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

پچھلے ہفتے ایوان صدر میں خان صاحب کی جنرل باجوہ سے مبینہ ملاقات کے بڑے چرچے رہے۔ کہا گیا کہ دونوں اطراف گلے شکووں کے بعد ایک پیج پر آنے پر متفق ہو گئیں ہیں۔ شہباز گل کی رہائی اور عمران خان پر عائد دہشت گردی کی دفعات ختم کیے جانے کے بعد یہ تاثر دیا گیا تھا۔

مگر چکوال میں خان صاحب کی گھن گرج نے ان تمام افواہوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ کہ دونوں فریق ایک پیج دوبارہ جوڑنے پر متفق ہوچکے ہیں۔ اب ان کے لیے ہنوز دلی دور است کی کیفیت بدستور برقرار ہے۔ طاقتور حلقوں میں یہ سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ خان صاحب جس طرح بطور وزیراعظم ان کے لیے مسئلہ بنتے رہے۔ آئندہ وہ ان کے لیے زیادہ مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔

عمران خان ایک ضدی بچے کی طرح اڑ جانے کے عادی ہیں۔ ان کی اندر ذرہ بھی لچک نہیں ہے۔ وہ اپوزیشن کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ آئینی طور پر لیڈر آف دی ہاؤس اور لیڈر آف دی اپوزیشن کو باہمی مشاورت کے ساتھ بعض امور طے کرنے پڑتے ہیں۔ عمران خان نے بطور وزیراعظم شہباز شریف کو اس قابل ہی نہ سمجھا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ملائیں۔ یا کسی آئینی معاملے پر مشاورت کریں۔

لہذا اس بات کے روشن امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔ کہ شہباز حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ اعلیٰ عسکری شخصیات کو اس بات کا بھی خدشہ ہے۔ کہیں شہباز حکومت کے ہٹنے کے بعد معیشت مزید گراوٹ کا شکار نہ ہو جائے۔ اور اسے سنبھالنا مزید مشکل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).