ڈاکٹر جل ٹیلر کی دماغی بیماری اور واردات روحانی کی کہانی


 

ایک وہ زمانہ تھا جب روحانیات کا ذکر صرف مذہبی کتابوں میں ملتا تھا۔ لیکن پچھلی دو صدیوں مین بہت سے طب، سائنس اور نفسیات کے ماہرین نے انسانی روحانیات پر تحقیق کی ہے اور روحانی تجربات کا سائنسی اور نفسیاتی تجزیہ کیا ہے۔ اکیسویں صدی کے بہت سے سیکولر دانشوروں اور سائنسی محققین کا خیال ہے کہ روحانیت انسانیت کا حصہ ہے اور روحانی تجربات ایسے لوگوں کو بھی ہو سکتے ہیں جن کا کسی خدا اور مذہب پر ایمان نہ ہو۔ مذہبی لوگ روحانی تجربات کی تعبیر اور تفہیم اپنی مذہبی روایات کے حوالے سے کرتے ہیں اور ان کا تعلق خدا اور مذہب سے جوڑتے ہیں جبکہ سیکولر ماہرین ان تجربات کو انسانی دماغ ’ذہن‘ شخصیت اور لاشعور کی روشنی میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روحانیات کی نفسیات ایک نیا علم ہے جس نے پچھلی صدی میں کافی ترقی کی ہے۔

پچھلے دنوں میں نے ڈاکٹر جل ٹیلر کی کتاب مائی سٹروک آف ان سائٹ
My Stroke of Insight by Dr Jill Taylor

پڑھی جو سائنس اور روحانیات کے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں ایک دماغ کی ماہر ڈاکٹر اپنے روحانی تجربات کے بارے میں سائنسی نقطہ نظر سے گفتگو کرتی ہیں۔ ڈاکٹر جل ٹیلر جو یونیورسٹی میں انسانی دماغ پر تحقیق کر رہی تھیں خود ایک سٹروک stroke کا شکار ہو گئیں اور چند ہی گھنٹوں میں اتنی بیمار ہوئیں کہ ہسپتال میں داخل ہو گئیں۔ ایکس رے x۔ ray نے بتایا کہ ان کے دماغ کا بایاں حصہ مفلوج ہو گیا ہے۔ ان کے دماغ کا دورہ اتنا شدید تھا کہ انہیں شفایاب ہونے میں کئی سال لگ گئے۔ ان چند سالوں میں ان کے ڈاکٹروں ’نرسوں اور اہل خانہ نے ان کا خاص خیال رکھا۔ ان کی والدہ نے دن رات ان کی خدمت کی۔ آخر وہ شفایاب ہو گئیں۔ شفایاب ہونے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیمار ہونے اور شفایاب ہونے کے بارے میں ایک کتاب لکھیں۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنی کہانی تفصیل سے لکھی۔

ڈاکٹر جل ٹیلر کی بیماری اور شفایابی کی ایک اہم بات یہ تھی کہ اگرچہ ان کا بایاں دماغ مفلوج ہو گیا تھا ’جس کی وجہ سے وہ نہ تو بات چیت کر سکتی تھیں اور نہ چل پھر سکتی تھیں لیکن ان کا دایاں دماغ کام کر رہا تھا۔ چونکہ دائیں دماغ کا تعلق روحانی تجربات spiritual encounters سے ہے اس لیے ہمیں ڈاکٹر جل ٹیلر کی کہانی روحانیات کو طبی اور سائنسی نقطہ نگاہ سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

ڈاکٹر جل ٹیلر ایک سائنسدان ہیں۔ ان کا کسی مذہبی مکتبہ فکر یا روحانی گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے مشاہدات اور تجربات ایک پادری اور ایک دہریہ دونوں کے لیے یکساں قابل قبول ہیں کیونکہ وہ کسی بھی مذہبی نظریے کی پرچارک نہیں ہیں۔ وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ ان کے دائیں دماغ کے تجربات انسانی روحانیات کے راز جاننے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر جل ٹیلر چونکہ پیشے کے لحاظ سے ایک استاد ہیں اس لیے وہ اپنے تجربات کو اس عمدگی اور خوش اسلوبی سے بیان کرتی ہیں کہ قاری انہیں پوری طرح سمجھ سکے۔ میں ان کی کتاب میں بیان کیے ہوئے روحانیات کے چند رازوں کو اس مضمون میں بیان کروں گا تا کہ آپ کو اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے۔

ڈاکٹر جل ٹیلر لکھتی ہیں کہ ہر انسان اپنے بائیں دماغ کی وجہ سے اپنی ذات کو کائنات سے علیحدہ سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کائنات کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے جدا ہے۔ جب ڈاکٹر جل ٹیلر کا بایاں دماغ مفلوج ہوا تو انہیں یہ تجربہ ہوا کہ ان کی ذات کائنات میں اور کائنات ان کی ذات میں تحلیل ہو گئی ہو۔ وہ کائنات میں ضم ہو گئیں۔ بعض ماہرین نفسیات اس تجربے کو قطرے کا سمندر میں ضم ہوجانا کہتے ہیں اور اسے oceanic feeling کا نام دیتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں ’اس صبح جب مجھے سٹروک ہوا تو چند ہی گھنٹوں میں میرے شعور میں ایک حیرت انگیز تبدیلی آئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اور کائنات ایک ہو گئے ہوں۔ یہ ایک غیر معمولی تجربہ تھا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ اس روحانی تجربے کا تعلق ہمارے دائیں دماغ سے ہے‘ ۔

ہمیں سنتوں ’سادھووں اور صوفیوں کی سوانح عمریوں میں ایسے تجربات کا ذکر ملتا ہے کہ برسوں کی ریاضت اور میڈیٹیشن اور چلے کاٹنے اور تپسیا کے بعد وہ روحانیات کی اس منزل پر پہنچتے ہیں جہاں انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی ذات اور کائنات‘ جسے بعض انسان بھگوان اور یزداں کا نام بھی دیتے ہیں ’ایک ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر جل ٹیلر لکھتی ہیں کہ کائنات میں ضم ہو جانے کا تجربہ نہایت پرسکون تجربہ تھا۔

بائیں دماغ کے مفلوج ہونے کا اثر وقت کے تجربے پر بھی پڑتا ہے۔ انسان کا بایاں دماغ انسان کو ماضی ’حال اور مستقبل میں فرق بتاتا ہے۔ ڈاکٹر جل ٹیلر کا جب بایاں دماغ مفلوج ہو گیا تو گزشتہ کل‘ آج اور آئندہ کل میں فرق ختم ہو گیا۔ وہ ایک ازلی و ابدی لمحہ موجود eternal now کا حصہ بن گئیں۔ میرے شاعر چچا جان عارف عبدالمتین کا شعر ہے

وقت اک بحر بے پایاں ہے کیسا ازل اور کیسا ابد
وقت کے ناقص پیمانے ہیں ماضی ’مستقبل اور حال

ڈاکٹر جل ٹیلر لکھتی ہیں ’ہمارے دائیں دماغ کے لیے حال کے علاوہ کوئی اور وقت حقیقت نہیں رکھتا۔ اس کے لیے ہر لمحہ ازلی و ابدی لمحہ موجود ہے اور پر سکون ہے‘ ۔ اس تجربے کے بارے میں وہ کہتی ہیں ’میں کوئی مذہبی عورت نہیں ہوں۔ میں نے کبھی روحانیت کی منزلیں طے کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن جب میری ذات کائنات کا حصہ بن گئی اور میں ماضی‘ حال اور مستقبل سے بے نیاز لمحہ موجود میں زندہ رہنے لگی تو مجھے احساس ہوا کہ میں اس تجربے سے گزر رہی ہوں جسے بدھسٹ نروانا کہتے ہیں ’۔

ڈاکٹر جل ٹیلر کو نروانا تو حاصل ہو گیا اور وہ پر سکون بھی ہو گئیں لیکن چونکہ ان کا بایاں دماغ مفلوج ہو چکا تھا اس لیے وہ کئی سالوں تک اپنے ڈاکٹروں ’نرسوں اور اہل خانہ کے رحم و کرم پر رہیں۔ اگر وہ ان کا خیال نہ رکھتے اور علاج نہ کرتے تو وہ زندہ نہ رہ سکتیں۔

بائیں دماغ کا ایک اور کام یہ ہے کہ وہ ہمیں سماج سے جوڑے رکھتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارا خاندان اور ہمارا معاشرہ ہم سے کیا توقعات رکھتا ہے۔ وہ ہمیں نیکی بدی ’خیر و شر کا فرق بتاتا ہے۔ جب ڈاکٹر جل ٹیلر کا بایاں دماغ مفلوج ہوا تو وہ خیر و شر کے جھگڑوں سے بالاتر ہو گئیں۔ انہیں اپنی ذات اور دوسروں کی ذات نیک اور خوبصورت دکھائی دینے لگے۔ ان کے لیے اپنی ذات اور ساری کائنات سے محبت کرنا آسان ہو گیا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ وہ سب لوگ جو اپنے دائیں دماغ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں وہ

۔ پر سکون ہوتے ہیں
۔ دوسرے انسانوں کو ان کی خوبیوں خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں
۔ گناہ و ثواب کے جھگڑوں سے بالاتر ہو جاتے ہیں
۔ لمحہ موجود میں زندہ رہتے ہیں
اور
۔ اپنی ذات کو ساری کائنات اور انسانیت کی اکائی کا حصہ سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر جل ٹیلر کہتی ہیں کہ مختلف مذاہب کی روحانی روایات کی یہی کوشش رہی ہے کہ انسان اپنی ریاضت سے اپنے دائیں دماغ کے ساتھ رشتہ جوڑیں تا کہ پرسکون زندگی گزار سکیں۔ سنت سادھو اور صوفی تو برسوں کی ریاضت کے بعد ان روحانی تجربات سے روشناس ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر جل ٹیلر کو ایسے تجربات ان کی بیماری کی وجہ سے ہوئے۔ ان کی بیماری نے ان کا ایسے تجربات سے تعارف کروایا جو عام حالات میں ممکن نہ ہوتا۔

چند سالوں کی بیماری کے بعد جب ڈاکٹر جل ٹیلر صحتیاب ہو گئیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ بائیں دماغ کے کام کرنے کے باوجود وہ اپنے دائیں دماغ سے جڑی رہیں گی تا کہ پر سکون زندگی گزار سکیں۔ ان کا ہم سب کو مشورہ ہے کہ بایاں دماغ ہمیں اپنی روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کرتا ہے لیکن دایاں دماغ ہمیں پرسکون زندگی گزارنے میں ممد ہوتا ہے۔ اس لیے ان تمام لوگوں کو ’جو ایک صحتمند اور پر سکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں‘ چاہیے کہ وہ اپنے بائیں اور دائیں دماغ دونوں سے رشتہ قائم رکھیں تا کہ ایک متوازن زندگی گزار سکیں۔ سیکولر سائنسدان اور ماہرین نفسیات اپنی تحقیق کی بنیاد پر ہمیں بتاتے ہیں کہ روحانیت ہماری انسانیت کا اٹوٹ حصہ ہے۔

Spirituality is part of our humanity.

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments