تحریک طالبان پاکستان اور بھتہ


گزشتہ چند دنوں میں خیبر پختونخوا علاقہ میں دو افراد کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ یہ دونوں واقعات سابقہ قبائلی علاقہ میں ہوئے۔ ان میں سے ایک واقعہ باڑا میں اور دوسرا شمالی وزیرستان میں ہوا ہے۔ کچھ عرصہ سے ان علاقوں میں طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے سوات میں تحریک طالبان پاکستان نے امن کمیٹی کے ایک رکن کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ اور وہاں کے مقامی لوگوں نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کو ان کے علاقوں سے نکالا جائے۔ لیکن ان واقعات کے پس منظر میں 20 ستمبر کو خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ کے مشیر محمد علی سیف صاحب نے بیان دیا کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہوا ہے لیکن ابھی یہ مذاکرات ختم نہیں ہوئے۔

اس کے ساتھ ہی 21 ستمبر کو آن لائن گندھارا اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اب خیبر پختون خواہ میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے باقاعدہ طور پر بھتہ وصول کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اور ایک سرمایہ کار سے فقط ایک لاکھ ڈالر سے زائد رقم کا مطالبہ کیا۔ ان صاحب نے اس صوبہ میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ جب حسب اشتہا بھتہ وصول نہیں ہوا تو ان کی املاک پر گرنیڈ سے حملہ کر کے پیغام دیا کہ ہم سے کب تک بچو گے۔

اور دیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ واٹس اپ پر پیغام دے کر دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ جب حکومتی اداروں سے رابطہ کیا گیا تو ان میں سے بعض نے یہ مشورہ دیا کہ یا تو یہ رقم ادا کردو یا ایک بلٹ پروف گاڑی خرید لو اور اپنے اہل خانہ کو لاہور یا اسلام آباد منتقل کردو۔ آخر کار دہشت گردوں سے مذاکرات شروع ہوئے اور ایک لاکھ ڈالر کی رقم پر معاملات طے پا گئے۔

اسی خبر میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر فلاں اضلاع میں کوئی طالبان کے نام پر بھتہ کا مطالبہ کرے تو اس نمبر پر اطلاع دیں۔ نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی سردار حسین بابک صاحب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے بہت سے لوگوں کو دھمکی آمیز فون موصول ہو رہے ہیں۔ اور تو اور خود ان سے بھی بھتہ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

عمران خان صاحب اور تحریک انصاف ہمیشہ سے طالبان سے مذاکرات کے حامی رہے ہیں اور خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی ہی حکومت ہے۔ لیکن اب ان کی جماعت کے اندر سے بھی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔ چنانچہ تحریک انصاف کے اہم لیڈر مراد سعید صاحب نے، جن کا تعلق سوات سے ہے، ایک جذباتی ویڈیو جاری کی ہے۔ اس ویڈیو میں انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان باڑ لگی ہوئی تھی تو یہ دہشت گرد دوبارہ پاکستان میں کس طرح داخل ہو گئے؟

اور کہا کہ جب لوگوں نے دوبارہ سوات میں دہشت گردوں کے داخل ہونے پر احتجاج کیا تو آئی ایس پی آر نے ٹویٹ جاری کیا کہ یہ خبریں مبالغہ آمیز ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اداروں نے یہ تسلی دی کہ یہ دہشت گرد بہتر گھنٹوں میں یہ علاقہ چھوڑ دیں گے۔ دہشت گردوں کچھ روز کے لئے غائب ہوئے لیکن پھر دوبارہ سوات میں داخل ہو کر بھتے کا مطالبہ کرنے لگے۔ مراد سعید صاحب نے کہا کہ اگر سارے پاکستان نے اس پر احتجاج نہ کیا تو ایک بار پھر حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

اس قسم کی خبریں مسلسل منظر عام پر آ رہی ہیں۔ حکومتی اداروں کو حق حاصل ہے کہ اپنے نقطہ نظر کا اظہار کریں اور اگر ان کے نزدیک یہ خبریں صحیح نہیں ہیں تو ان کی تردید کریں۔ لیکن جب معین قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں تو جوابات بھی معین ہونے چاہئیں۔ یہ مبہم بیان کہ یہ تو مبالغہ آمیز خبریں ہیں جن کی بنیاد پر افواہیں اڑائی جا رہی ہیں، کافی نہیں ہے۔ اور یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یہ الزامات مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں نے لگائے ہیں۔ ان کے انتباہ کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہو گی۔

اور یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ طالبان اور ان کے ہمنوا گروہوں کے نزدیک لڑکیوں کے سکولوں سے تو ان کی دینی اقدار کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی داڑھی نہ رکھے تو یہ رویہ ان انہیں ناقابل برداشت نظر آتا ہے۔ اگر کوئی عورت بغیر محرم سودا سلف لینے کے لئے بازار آ جائی تو یہ سخت معیوب فعل ہے۔ لیکن غیر قانونی طور پر بھتہ وصول کرنا سراسر جائز ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ بالکل حلال اور طیب ہے۔ دوسرے الفاظ میں صرف داڑھی رکھ کر کالا عمامہ پہن لو، اس کے بعد خواہ خون بہاؤ، خواہ افیم کی کاشت کرو خواہ لوگوں سے بھتہ وصول کرو۔ گویا

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

تحریک طالبان پاکستان کا قیام 2007 میں عمل میں آیا۔ اور اس کے بعد سے 2014 تک اس تنظیم کی دہشت گردی نے ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کر دیا۔ سابقہ قبائلی علاقہ ان کی کارروائیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ 2014 میں آپریشن ضرب عضب اور 2017 میں آپریشن رد الفساد کے ذریعہ اس تنظیم کا زور ختم کیا گیا اور ان کے کرتا دھرتا بھاگ کر افغانستان چلے گئے۔

جب سے افغانستان میں طالبان کا تسلط بحال ہوا ہے، اس تنظیم کے دہشت گرد نئے سرے سے پاکستان میں سرگرم ہوئے ہیں۔ اگست 2020 میں بہت سی تنظیموں نے اپنے آپ کو تحریک طالبان پاکستان میں ضم کیا۔ ان میں حکیم اللہ محسود گروپ، جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی کا سیف اللہ کرد گروپ، القاعدہ برصغیر کے کچھ گروہ شامل تھے۔ اس طرح یہ تنظیم نئے سرے سے پاکستان میں اپنا وزن بڑھا رہی ہے۔ اور اب تک کے حالات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ خالی مذاکرات اور وہ بھی طالبان کی رکھی ہوئی شرائط پر دہشت گردی کی اس لہر کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے اب تک جو مذاکرات کیے ہیں ان کی مکمل تفصیلات پاکستان کے عوام کے سامنے لائی جائیں۔ اور ان مذاکرات کے منہ سے نقاب اتارا جائے تا کہ پاکستان کے شہری خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ کہیں ان مذاکرات کے نتیجہ میں ایک بار پھر ان کے ملک کے امن کو مصلحتوں کی دیوی پر قربان تو نہیں کیا جا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments