یومِ قتلِ انصاف ۔۔۔ 23 ستمبر


غاروں والے طالبان نے عالمی سپر پاور امریکہ سے اپنا آخری قیدی بھی چھڑا لیا۔ پیر 18 ستمبر کو امریکی قیدی فریرچز کے بدلے طالبان قیدی بشیر نورزئی کی رہائی اور وطن واپسی عمل میں آئی۔ اس کے ساتھ ہی دوحہ امن معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کا عمل بھی مکمل ہو گیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ اپنی مظلومانہ زندگی کے ساتھ ایک بار پھر نظروں کے سامنے آ گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی ستمبر ہی کے مہینے میں جرم ثابت نہی ہونے کے باوجود 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

23 ستمبر، 2010 ء امریکی عدالتی نظام کا وہ سیاہ دن ہے جب انصاف کے تمام تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے متعصب جج رچرڈ برمن نے حکومت پاکستان کے مقرر کردہ وکلاء کی سازش کے تحت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 برس کی سزا سنائی تھی۔ اگرچہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ڈاکٹر عافیہ کی جانب سے وکلاء پر عدم اعتماد کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ تاہم ڈاکٹر عافیہ نے درخواست کی تھی کہ ”مجھے پانچ سال تک (بگرام، افغانستان میں خفیہ امریکی عقوبت خانے میں ) لاپتا رکھا گیا جہاں اس پر انسانیت سوز مظالم توڑے گئے۔ اس اہم واقعہ کو مقدمہ کی کارروائی کا حصہ بنایا جائے“ ۔ مگر عدالت نے اس اہم معاملہ میں انہیں بیان دینے کی اجازت نہیں دی۔

اس جج نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ جو کہ پاکستانی شہری ہیں اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عافیہ کو صرف اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے کہ اس پر یہ الزام ہے کہ اس نے 6 امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور بندوق اٹھائی، ان پر گولیاں چلائیں لیکن اس کے نتیجے میں کسی امریکی فوجی کو نقصان نہیں پہنچا جبکہ ڈاکٹر عافیہ امریکی فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہو گئیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بات بھی لکھی کہ باوجود اس کے کہ عافیہ کے خلاف کسی قسم کے ثبوت موجود نہیں ہیں لیکن حکومت پاکستان کے مقرر کردہ وکلاء کے دلائل کی روشنی میں عافیہ کو 86 برس کی سزا دی جا رہی ہے۔

مشہور امریکی ریسرچ اسکالر اسٹیفن لینڈ مین نے عافیہ کی سزا پر یہ بیان دیا تھا کہ ”عافیہ کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے“ ۔ امریکی وکیل اور تجزیہ نگار اسٹیون ڈاونز جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں تحریر لکھی امریکی عدالت کی نا انصافی اور عافیہ کی جرم بے گناہی کی سزا دیکھ کر چیخ اٹھا۔

”I went to witness the sentencing of a Daughter of a dead nation but i came out paying my highest tribute to mother of humanity-DR.AAFIA SIDDIQIUI“

(میں ایک مردہ قوم کی ایک بیٹی کی سزا کا مشاہدہ کرنے (امریکی عدالت) چلا گیا تھا لیکن میں انسانیت کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اپنا سب سے زیادہ خراج تحسین پیش کر کے باہر آیا ہوں ) ۔

ڈاکٹر عافیہ کو 30 مارچ، 2003 ءکو اسلام آباد جاتے ہوئے اس کے تین کمسن بچوں سمیت اغواء کیا گیا تھا۔ جسے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کر چکی ہے۔ 2008 ء میں بین الاقوامی میڈیا کے توسط سے پتا چلا کہ عافیہ بگرام، افغانستان کے خفیہ امریکی عقوبت خانے میں قیدی نمبر 650 کے نام سے قید ہے اور اس پر انسانیت سوز تشدد کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب عافیہ کو بآسانی پاکستان واپس لایا جاسکتا تھا۔ اس پر امریکی فوجیوں پر حملے کا جو جھوٹا الزام لگایا گیا تھا اس معاملے کا تعلق افغانستان کی سرزمین سے تھا اس لیے مقدمہ بھی افغانستان میں چلنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کو یکے بعد دیگرے کئی مواقع ملے جس سے فائدہ اٹھا کر عافیہ کو وطن واپس لایا جا سکتا تھا۔

2003 ء سے 2022 ء تک، 20 سال کے طویل عرصہ کے دوران ظفراللہ خان جمالی (مرحوم) ، چوہدری شجاعت، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، عمران خان اور اب محمد شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ سب نے عافیہ کی رہائی کے تعلق سے قوم کو سبز باغ دکھائے مگر کوئی حکمران بھی قومی غیرت اور پاکستانی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے معاملہ میں اپنے ایگزیکٹیو پاور (Executive Power) کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کر سکا ہے۔

مایوسی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ ہم 23 ستمبر کی ناخوشگوار یاد، امریکی اور طالبان قیدیوں کی رہائی کی خوشی۔ اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم کی شرکت اور خطاب کے اہم ترین موقع پر ایک بار پھر حکومت پاکستان سے ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے لیے کوششوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔

محترم وزیر اعظم صاحب! اقوام متحدہ جنرل اسمبلی جہاں آپ پوری دنیا کی قیادت کے سامنے وطن عزیز کا وقار بلند فرمائیں گے اسی کے قرب میں موجود اپنی بے حرمت ہوتی قید بیٹی کو بھی ”یاد“ فرما لیجیے گا۔

وہ ”بے زبان قیدی“ امریکی اور طالبان قیدیوں کی رہائی کے موقع پر آپ کو یاد دلا رہی ہے کہ اس قیدیوں کی رہائی کے دوحہ امن معاہدے کے موقع پر بڑے فخر سے دنیا کو اپنا آپ منوایا جا رہا تھا کہ ”“ اگر پاکستان مدد نہ کرتا تو امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدہ کبھی نہ ہوتا ”۔ اس امن معاہدے کے تحت ہزاروں امریکی اور افغان قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آنا تھا۔ تین دن قبل آخری قیدیوں کی وطن واپسی کے ساتھ ہی یہ عمل مکمل ہو۔ گیا۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق یہ تبادلہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت ہونے والے قیدیوں کے اہم ترین تبادلوں میں سے ایک ہے۔ جب کہ طالبان قائدین اسے افہام و تفہیم اور مذاکرات کے راستے کی کامیابی کہہ رہے ہیں۔

اس تمام منظرنامے میں ڈاکٹر عافیہ کی قوم حیران ہے کہ وہ سپر پاور جس نے اپنے ہی لگائے گئے دہشت گرد کے لیبل یافتہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آ بیٹھے۔ ان کے ساتھ امن معاہدہ بھی کر لیا اور کامیابی تک پہنچا دیا۔ اس سپر پاور سے آپ یہ نہیں پوچھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ابھی تک دہشت گرد کیوں ہے؟

وزیر اعظم صاحب! قوم منتظر ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے لیے

بھی مذاکرات کی میز سجائی جائے، امن معاہدہ ہو، قوم کی بیٹی کی بے حرمتی اور مظالم کے دور کا خاتمہ ہو اور۔ آپ کا اور پاکستان کا وقار تمام دنیا میں بلند ہو۔

ڈاکٹر عافیہ کی پاکستانی قوم کا ایمان ہے کہ جس رب نے عافیہ کو بدترین حالات میں 20 سال سے زندہ رکھا ہوا ہے وہی رب اسے وطن واپس لائے گا ”انشاءاللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments