کیا انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں سنیما ہالز کی رونقیں 33 برس بعد بحال ہو جائیں گی؟

ریاض مسرور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر


کشمیر
سنہ 1990میں جب کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوئی تو ولید فاروق کی عمر آٹھ برس تھی۔ شورش کے پہلے ہی سال مسلح شدت پسندوں نے کئی سنیما گھروں پر حملے کیے اور وادی بھر میں سنیما ہالز بند ہوگئے۔

کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے گذشتہ روز سرینگر کی سخت حفاظتی حصار میں بستی شِوپورا میں ایک جدید ملٹی پلیکس کا افتتاح کیا تو ولید اُن چند نوجوانوں میں شامل تھے جنھوں نے باقاعدہ بڑے پردے پر عامر خان کی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ دیکھی۔ عوام کے لیے یہاں باقاعدہ شوز کا آغاز 30 ستمبر سے ہونے جا رہا ہے۔

ولید کہتے ہیں کہ ’ان 33 برسوں کے دوران مجھے یہ افسوس تھا کہ میرے کالج کے زمانے میں سنیما کیوں نہیں تھے۔ مجھے یقین نہیں ہورہا کہ میں سنیما ہال میں فلم دیکھ رہا ہوں‘۔ انڈین فوج کی 15ویں کور کے ہیڈکوارٹرز کے قریب یہ ملٹی پلیکس کشمیری پنڈت وکاس دھر نے بنایا ہے اور حکومت نے اس منصوبے میں اُن کی بہت مدد کی۔

امن خریدیں گے نہیں، قائم کریں گے

ملٹی پلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کشمیر کے سابق حکمرانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ’جن لوگوں نے دہائیوں تک یہاں راج کیا وہ خود تو انڈیا کے بڑے شہروں یا بیرون ملک عیش کرتے رہے، لوگوں کے لیے تفریح اور ثقافتی اداروں کے احیا کی انھیں کوئی فکر نہیں تھی۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو بحال کرنے سے یہاں کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔

واضح رہے 33 سال سے شورش زدہ کشمیر میں سیاحوں کی آمد ہو، کھیلوں کے مقابلے ہوں، کہیں کوئی میلہ لگ جائے یا کوئی نوجوان کوئی خاص کامیابی حاصل کرے تو سرکاری سطح پر اس سب کو نارمیلسی کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ سنیما کی بحالی بھی ایک طرح سے اسی بیانیے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

تاہم گورنر سنہا نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا: ‘ہم امن خریدنے پر یقین نہیں رکھتے، ہم تو امن قائم کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ہماری پالیسی یہ ہے کہ بے گناہ کو چھیڑو مت اور گناہ گار کو چھوڑو مت۔‘

فلم

ملٹی پلیکس کے مالک وِکاس دھر نے بی بی سی کو بتایا کہ پورے انڈیا میں چند ہی سنیما گھر ہیں جو ڈولبی ایٹموس سمیت کئی جدید ترین ٹیکنالوجیز سے لیس ہیں اور کشمیر کا یہ ملٹی پلیکس بھی ان میں شامل ہے۔

’ہم نے بہترین خدمات دستیاب رکھنے کے لیے 60 تربیت یافتہ ملازم یہاں بھرتی کیے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ طویل وقفے کے بعد کشمیریوں کو بھی تفریح کے ویسے ہی مواقع ملیں جو انڈیا کے بڑے شہروں میں لوگوں کو مل رہے ہیں۔‘

یہ پوچھنے پر کہ کیا سنیما ہالز کی واپسی کشمیر میں نارمیلسی کی علامت ہے، وکاس دھر نے محتاط الفاظ میں کہا کہ ’حالات جیسے بھی ہوں، لوگوں کی تفریح کے لیے مناسب ادارے اور تمدنی سرگرمیاں ضروری ہوتی ہیں۔ جن حالات سے کشمیری گزرے ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے کشمیر میں جدید ترین سہولیات تو زیادہ ضروری ہیں۔’

سماجی کارکن اور کالم نویس عبدالقیوم شاہ کہتے ہیں کہ سنیما ہالز کی بحالی کو سرکاری نہیں بلکہ عوامی عمل ہونا چاہیے۔ سنہ 1996 میں فاروق عبداللہ وزیراعلیٰ بن گئے تو نہایت جلدبازی میں ریگل سینما کو کھولا گیا، لوگ فلم دیکھنے آئے، لیکن وزیراعلیٰ نے اسے نارمیلسی کی علامت اور شدت پسندوں کی شکست سے تعبیر کیا۔

چند روز بعد سنیما پر شدت پسندوں نے بم پھینکا اور کئی لوگ مارے گئے۔ سنیما کی واپسی بہت اچھی بات ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ کلچر، ثقافت اور تفریح وغیرہ کو سیاست کے ساتھ جوڑنا غلط ہے۔‘

طویل عرصے تک سنیما ہالز بند رہے لیکن ایسا نہیں کہ کشمیریوں نے فلمیں نہیں دیکھیں۔

انٹرنیٹ اور او ٹی ٹی (OTT) کی وجہ سے کشمیر میں تقریباً سبھی لوگ اب انڈین سنیما ہی نہیں بلکہ ہالی ووڈ کی فلمیں اور پاکستانی ڈرامے شوق سے دیکھتے ہیں۔

بالی ووڈ اور کشمیر کے رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے گورنر سنہا نے مشہور بالی وڈ اداکار شمی کپور کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ’شمی کپور کی بہت ساری فلمیں کشمیر میں شُوٹ ہوئی ہیں۔ وہ خود کو کشمیر کا کدو کہتے تھے۔ انھوں نے وصیت کر رکھی تھی کہ اُن کی باقیات کو سرینگر کی جھیلِ ڈل میں بہایا جائے اور پھر ان کے مرنے کے بعد ایسا ہی کیا گیا۔‘

کشمیر

کشمیر کے سنیما ہالز کو شورش سے پہلے بھی مسائل کا سامنا تھا

ایسا نہیں ہے کہ سنیما ہالز پر صرف سنہ 1990 میں آفت آئی۔ سنہ 1932 میں جب سرینگر کے لال چوک میں پہلا سنیما گھر ’پلیڈیم ٹاکیز‘ شروع ہوا صرف 15 سال بعد ہندوستان تقسیم ہوگیا اور اکتوبر 1947 میں پاکستان کے قبائلی حملہ آوروں کے خلاف اُس وقت کے کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ نے ’پیس برگیڈ‘ قائم کی۔

شیخ کو مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا ’ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر‘ تعینات کیا تو شیخ نے اپنی انتظامیہ کا دفتر پلیڈیم ٹاکیز میں قائم کیا۔

اُس وقت پلیڈیم میں اشوک کمار اور ممتاز شانتی کی سپرہٹ فلم ’قسمت‘ چل رہی تھی۔ اس طرح دس سال تک کشمیر میں کوئی سنیما ہال نہیں تھا۔ پلیڈیم سنیما کی عمارت کشمیر کی سیاسی تاریخ میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

سنہ 1947 سے سنہ 1950 کی شورش کے دوران جب انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کشمیر آئے تو شیخ عبداللہ کے ہمراہ انھوں نے پلیڈیم سنیما کی عمارت کے باہر ایک سٹیج سے ہی یہ تاریخی وعدہ کیا تھا کہ جب حالات بہتر ہوجائیں گے تو کشمیریوں کو حق خودارادیت یعنی انڈیا یا پاکستان دونوں میں سے ایک کے ساتھ سیاسی مستقبل وابستہ کرنے کا موقعہ دیا جائے گا۔

اس پر شیخ عبداللہ نے جذباتی ہوکر امیر خسرو کا فارسی شعرنہرو کی نذر کیا تھا۔

’من تو شُدم ، تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی، تاکس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری۔‘ یعنی ’میں تُو ہوجاؤں، اور تو میں ہوجا، میں جسم بنوں اور تو رُوح ہوجا، تاکہ پھر کوئی یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں اور تم کوئی اور۔‘

شیخ عبداللہ پر سنہ 1953 میں بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا اور وہ طویل عرصے کے لیے جیل میں رہے۔ اس کے بعد پلیڈیم ٹاکیز بھی بحال ہوا اور نیلم، ریگل، براڈوے، فردوس، خیام، شیراز نام کے کئی سنیما ہالز بنے۔ پلیڈیم سنیما اور دیگر سنیما ہالز میں اب نیم فوجی اہلکاروں نے عبوری کیمپ بنائے ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ان سنیما ہالز کو سنہ 1990 کی دہائی کے دوران ٹارچر سینٹر کے طور بھی استعمال کیا گیا۔

کشمیر

کیا نیا ملٹی پلیکس چل پائے گا؟

ملٹی پلیکس کے مالک وکاس دھر کو توقع ہے کہ لوگ ان کے سنیما میں فلمیں دیکھنے آئیں گے۔ ماضی میں شورش کے دوران سنیما گھروں کو دوبارہ کھولنے کے کئی تجربے کیے گئے۔ اسی ملٹی پلیکس کے قریب براڈوے سنیما ہوا کرتا تھا۔ فاروق عبداللہ کے دورِ حکومت میں براڈوے سنیما دوبارہ کھولا گیا اور اس پر حملہ ہوا۔ پھر سنیما کی عمارت گرادی گئی اور اب وہاں ایک شراب خانہ ہے۔

سنہ 2002 میں مفتی سید وزیراعلیٰ بنے تو نارمیلسی کی علامت کے طور پر انھوں نے بھی نیلم سنیما کھولنے کی حوصلہ افزائی کی۔ سنیما چند ماہ چلنے کے بعد بعد ہوگیا۔

فلموں کے شوقین فردوس احمد کہتے ہیں کہ ’نیا ملٹی پلیکس فوجی چھاؤنی کے سامنے ہے۔ جس بستی میں سنیما ہے وہاں اعلیٰ پولیس افسروں کی رہائش ہے۔ اس لیے سکیورٹی کا مسئلہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن ماضی میں سنیما گھروں پر حملے ہوئے ہیں، لوگ بھی مارے گئے ہیں۔ لوگوں کو یہ یقین کون دلائے کہ کوئی واردات نہیں ہوگی، حالانکہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ سنیما ہال میں فلم دیکھیں۔ میں بھی چند ماہ انتظار کروں گا، سب ٹھیک رہا تو فلم دیکھنے ضرور جاؤں گا۔’

کشمیر

تاہم اکثر حلقے کہتے ہیں کہ نیا ملٹی پلیکس ماضی کے تجربوں کی طرح ناکام نہیں ہوگا۔

ان حلقوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران مسلح شورش کے گراف میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، ہند مخالف مظاہرے یا پتھراؤ اب ماضی کی باتیں لگتی ہیں اور علیحدہ پسند لیڈروں کو قید کرکے سیاسی میدان سے ہٹایا گیا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ گورنر سنہا نے سنیما کی افتتاحی تقریب کے دوران کہا کہ ’5ا اگست 2019 جموں کشمیر کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔‘

اس دن ایک انقلاب کی شروعات ہوئیں۔ ہم ایمانداری سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس انقلاب کا فائدہ یہاں کے لوگوں کو حاصل ہوجائے، اور ملک کے باقی حصوں میں جو تفریح کے ذرائع لوگوں کو حاصل ہیں کشمیریوں کو بھی دستیاب رہیں۔‘

نوجوان صحافی ساحل بھی سمجھتے ہیں کہ نیا سنیما ہال کامیاب ہی رہے گا۔ ’زندگی بہت کٹھن ہوگئی ہے۔ نوجوانوں کو روزگار کے مسائل ہیں، تعلیم میں مسابقت ہے اور غربت کے مسئلے بھی ہیں۔ دن میں کبھی کبھی میری عمر کے نوجوان تنہا محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں دو ڈھائی گھنٹے کی فلم دیکھ کر لوگ راحت محسوس کریں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کشمیر میں بالی وڈ: مراعات تو ہیں مگر 32 سال سے سنیما گھر کیوں بند ہیں

کشمیر سے بالی وڈ کا رومانس، جس نے کئی فلموں اور گیتوں کو امر کر دیا

راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کی وہ فلم جس کو دیکھنے کے لیے ’کئی کالج خالی ہو گئے‘

کشمیر

کیا مقامی فلم صنعت کو فائدہ ہوگا؟

نئے سنیما ہال میں باقاعدہ شوز کا آغاز 30 ستمبر سے ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے عوامی رجحان اس کے بعد ہی ظاہر ہوگا لیکن مقامی فلم ساز یا وہ نوجوان جو فلم انڈسٹری سے جُڑے ہیں وہ نہایت خوش ہیں۔

سینئیر سینماٹوگرافر اور فلم ایڈیٹر محمد یونس کہتے ہیں کہ ’کشمیر میں اب بڑی تعداد میں فلم کمپنیاں شُوٹنگ کے لیے آرہی ہیں لیکن وہ مقامی لوگوں کو ہاہر نہیں کرتے۔ ہمارے یہاں بڑی تعداد میں نوجوان اداکار ہیں، گلوکار ہیں، کیمرہ مین ہیں۔ ٹھیک ہے حکومت کی فلم پالیسی کے فائدے فلم کمپنیاں حاصل کرتی ہیں، کشمیریوں کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس کا کچھ تو فائدہ کشمیریوں کو بھی ملے۔’

کشمیری فلم ساز حسین خان کہتے ہیں کہ نئے ملٹی پلیکس یا دوسرے جو سنیما بنیں گے ان میں کشمیریوں کی بنائی ہوئی فلمیں بھی دکھائی جائیں تو مقامی فلم صنعت کو فائدہ ہوگا۔

مقامی لوگوں کو فلم صنعت سے فائدوں کی بات کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بتایا کہ ’مجھے ایسے کشمیری سے ملنے کا موقع ملا جو ماضی میں سنیما ٹکٹ بلیک کرتے تھے۔ میں ان کا نام نہیں بتاؤں گا، لیکن انھوں نے مجھے بتایا کہ سنہ 1990 سے قبل سنیما ہالز میں اتنا رش ہوتا تھا کہ ایک ہفتے تک سنیما ٹکٹ بلیک میں بیچ کر انھوں نے اتنا پیسہ کمایا کہ انھوں نے ایک آٹو رکشا خرید لیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments