سیلابِ غربت


ارے! یہ تو وہ ہی لوگ ہیں،
کچھ چہرے بدلے ہیں،
شہر وہ ہی، گاؤں وہ۔ ہی،
لوگوں کے نام بھی تو وہ ہی ہیں۔
دکھ بھی وہ ہی ہیں۔
درد بھی وہ ہی ہیں

سنہ 2010 میں سندھ میں سیلاب آیا تو اس وقت بھی یہ ہی منظر تھے! روتا سسکتا سندھ، جس کے پاس، خالی ہاتھ ٹوٹی پھوٹی چارپائیاں، ٹین کی پیٹیاں، ایک دو پھٹی پرانی رلیاں ننگ دھڑنگ بیمار بچے تھے اور درد کے طوفان ان کے نینوں سے بہے جا رہے تھے کہ کچی جھونپڑی جو کہ کل کائنات تھی آنکھوں کے سامنے ڈوب گئی، جو کچھ پکے گھر تھے وہ بھی ڈھے گئے۔ پانی نے ہر چیز پہ سبقت حاصل کر لی اور گے کا راستہ پار کرنا بہت دشوار تھا۔

12 سالوں میں کچھ بھی تو نہیں بدلا۔

میں ایک کیمپ کے اندر حیران کھڑی ہوں۔ دکھ نے سانس بند کر دی ہے۔ وومنز ایکشن فورم کی کیمپ مانیٹرنگ کی ٹیم بھی یہ ہی سوچ رہی ہے کہ 2010 سے 2022 میں زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ہم ہر کیمپ میں جا رہے ہیں اور حالات میں کچھ فرق نہیں ہے۔

12 سال پہلے کے منظر اور چہرے نگاہوں کے سامنے ہیں۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا!

2022 میں، سالوں سے پانی کے لئے ترستی ہوئی سوکھی سندھ دھرتی پہ اچانک جو پانی برسا تو سب کچھ ڈوبتا چلا گیا۔

سیلاب کا پانی 2022 ایک خوفناک وبا کی مانند ابھی تک سندھ پہ مسلط ہے۔ سمندر تک جانے کے لئے بارش کا پانی لاکھوں گھروں کو۔ لاکھوں ایکڑ زرعی زمین، لاکھوں مویشیوں اور کروڑوں لوگوں کو تباہ و برباد کرتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ پانی کو کوئی نہیں روک سکتا پانی جانتا ہے کہ اس کا راستہ کہاں کہاں سے ہو کہ گزرتا ہے۔ ناداں وہ ہیں جو پانی کی گزرگاہوں پہ رکاوٹیں کھڑی کیے بیٹھے تھے۔

موسمیاتی تبدیلی کہا جائے یا قدرتی آفت کا نام دیا جائے مصیبت یا رحمت ہے جو کچھ بھی ہے۔ ہماری حکومت جانتی تھی، موسمیات کھاتے نے پیشن گوئی کر دی تھی کہ اب جو بارش آ رہی ہے اس کے لئے ٹھیک ٹھاک تیاری کر لینی چاہیے۔ 2010 سیلاب کے بعد ماہرین نے اپنے خدشات اور مشاہدات حکومت کے سامنے رکھ دیے تھے۔

لیکن منصوبہ بندی تو دور کی بات شاید کسی نے ”دعا“ کے لئے ہاتھ بھی نہیں اٹھائے تھے۔
نتیجے میں ایک بار پھر معصوم انسان ناکردہ گناہوں کی سزا پانے لئے ایک دم سے کھلے آسمان کے نیچے آ گئے۔
کسی دانشور کا قول ہے کہ دوست دشمن کی پہچان مصیبت کے وقت ہوتی ہے۔
یہ۔ ہی قول حکومت پہ بھی صادق آتا ہے کہ حکومتی قابلیت اس وقت سامنے آتی ہے جب کوئی آفت آتی ہے
عوامی خدمتوں کے دعوے آزمائش کے وقت جھوٹے ثابت ہونے لگتے ہیں
سندھی میں ایک کہاوت ہے کہ
”اھو ڪی ڪجی جو مینھن وسندی ڪم اچی“
مطلب ایسا کچھ کیا جائے جو برستی بارش میں کام آئے

ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ہم۔ لاعلم ہی رہے کہ جب بارش سیلاب کی صورت اختیار کرے گی اور کروڑوں لوگ بے گھر ہوں تو ان کی سہایتا کیسے کی جائے گی۔ ؟

تباہی کے بعد تین ”ر“ ضروری ہوتے ہیں
ریسکیو
رلیف
ریہبلیٹیشن

لیکن جون 2022 سے ستمبر 2022 تک 4 ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک مکمل ریسکیو بھی نہیں ہو سکا۔ کئی لوگ اپنے ڈوبے گھروں کی رکھوالی کے لئے گھروں کی چھتوں پہ موجود ہیں۔

کچھ اپنی مرضی سے گھروں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور کافی لوگ وسائل۔ کی کمی ٹرانسپورٹ کا کرایا نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے علاقوں میں رہنے پہ مجبور ہیں سندھ 23 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

پورا صوبہ سندھ تباہ ہوا ہے بنیادی انفراسٹرکچر بھی تباہ ہو چکا ہے۔ گھر زرعی زمینیں مال مویشی ہر چیز برباد ہو چکی ہے۔
سب سے پہلے سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکومت نے جو اقدامات کیے ان میں تباہ شدہ صوبے کے ملازمین کو یہ تحفہ دیا گیا کہ ان کی تنخواہیں کاٹی گئیں۔ دوسرا قدم تھا کہ تباہ شدہ لوگوں کو جلد از جلد تعلیمی اداروں کا رخ کرنے کو کہا گیا۔ پتہ چلا کہ کافی تعلیمی ادارے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ متاثرین ایک پانی سے نکل کر دوسرے پانی میں گھر چکے تھے۔

کیمپ مانیٹرنگ کے دوران ہمارا پہلا سوال یہ۔ ہوتا ہے کہ :آپ کو پہلے سے اطلاع تھی کہ سیلاب آ رہا ہے؟
دوسرا سوال سیلابی پانی سے نکالنے میں کسی ریاستی ادارے نے نے مدد کی؟
نیشنل۔ ڈزاسٹر مینجمنٹ نے کوئی مدد کی؟
ہمارے سب سوالوں کا جواب اکثریت سے نفی میں ملا۔

معصوم کم پڑھے لکھے لوگ ووٹ سے کے سیاسی داؤ پی سے نا واقف ہیں۔ بالکل اس معصوم بچے کی طرح جو بھوک کے وقت روٹی صرف اپنی ”ماں“ سے مانگتا ہے۔

وہ نہیں جانتا کہ ماں کو ”بابا“ نے پیسے دیے یا نہیں!
ماں کے پاس کچھ جمع پونجی ہے یا نہیں!
ماں اور ”بابا“ کے بیچ کے معاملات ٹھیک ہیں یا نہیں!
کیا ”پاس پڑوس“ والوں سے بھی کچھ اختلاف چل رہے ہیں!
ماں کو کھانا مہیا کرنے میں کیا کیا تکالیف کا سامنا ہے!
بچہ کھانا نہ ملنے پر ضد بھی کرے گا روئے گا!
توڑ پھوڑ بھی کر سکتا ہے!

لیکن اس کے آگے قصور وار صرف ماں ہو گی۔ ٹھیک اسی طرح سندھ کے لوگ سندھ حکومت پہ غصہ ہو رہے ہیں۔ تباہی کا ذمہ دار بھی ٹھرا رہے ہیں۔

سندھ کا حالیہ سیلاب لاکھوں سوالوں کو جنم دے رہا ہے!
کروڑوں افراد کی زندگیاں داؤ پہ لگی ہوئی ہیں۔
سبب جو بھی ہو ذمہ دار جو بھی ہو اس وقت انسانوں کی زندگیاں بچانے کا وقت ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments