شہزاد احمد کی فکری اور تخلیقی جہات


اردو ادب کے معروف شاعر، ادیب، نقاد، مترجم اور مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر شہزاد احمد 16 اپریل 1932 ع کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے نفسیات اور فلسفہ میں ماسٹر کیا۔ ان کے شعری اور نثری کام پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے ہمہ گیر پہلووٴں میں دلچسپی لینے والے ادیب تھے۔ شاعری میں صدف، جلتی بجھتی آنکھیں، ادھ کھلا دریچہ، خالی آسمان، بکھر جانے کی رت، رنگ غزل، ٹوٹا ہوا پل، زینہ بہ زینہ سمیت دس شعری مجموعے شائع ہوئے۔

ان کا نثری سرمایہ خرد افروزی اور روشن خیالی کا ایک درخشاں باب ہے۔ ان کے علمی و فکری مضامین کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ ان کتابوں میں مذہب، تہذیب موت (فرائیڈ کے نظریہٴ جبلت مرگ کا مطالعہ ) ، ذہن انسانی : حدود اور امکانات (ذہن کا ایک حیاتیاتی مطالعہ ) ، سائنسی انقلاب : یقین سے امکان تک، دوسرا رخ، فرائیڈ کی نفسیات کے دو دور (تحلیل نفسی کا ایک مطالعہ ) ، ارتقاء اور رد ارتقاء وغیرہ شامل ہیں۔

فلسفہ اور نفسیات سے فطری لگاؤ کے سبب وہ ان علوم کے نظری مباحث میں الجھ کر رہ جانے کے بجائے انھوں نے اس کا رشتہ اسلامی روایت، اسلامی تہذیب اور اقدار سے جوڑا۔ انھوں نے شہرہ آفاق کتب کے خوب صورت ترجمے بھی کیے۔ ترجمے کے حوالے سے ان کی فنی دستگاہ کا یہ عالم کہ کسی بھی مقام پر ترجمے کا گماں نہیں گزرتا۔ ان کی علمی اور دلی وابستگی نام ور ادیبوں سے رہا جن میں ڈاکٹر وزیر آغا، محمد سلیم الرحمان، صلاح الدین محمود، ڈاکٹر وحید قریشی، غالب احمد، اشفاق احمد، ڈاکٹر سہیل احمد خاں اور سراج منیر جیسے معتبر نام آتے ہیں۔

شہزاد احمد نے جن کتب کو اردو میں ترجمہ کیا ان میں یہ کتابیں اہم ہیں :

آپ سوچتے کیوں نہیں؟ ، نفسی طریق علاج میں مسلمانوں کا حصہ (ڈاکٹر اجمل کے مضامین ) ، اسلامی فکر کی نئی تشکیل (خطبات اقبال ) ، اسلامی فلسفے کی تاریخ (ماجد فخری) ، اسلام کی پہچان (فرتھ جوف شواں ) ، اسلامی آرٹ (نیٹس برک ہارٹ ) ، اسلامی ثقافت (ڈاکٹر افضل اقبال ) ، ارمان اور حقیقت (ڈاکٹر عبدالسلام ) اور مسلم فلسفے کی تاریخ (مرتبہ : ایم ایم شریف)

شہزاد احمد کا شمار پاکستان کے ان شعرا و ادباء میں ہوتا ہے جن کا بنیادی وصف سوچتا ذہن اور وجدانی وجود ہے۔ پاکستان میں فلسفہ اور خرد افروزی کی روایت میں علامہ نیاز فتح پوری، سید علی عباس جلال پوری، سید سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر منظور احمد، ضمیر نیازی اور قاضی جاوید کے نام نمایاں ہیں۔ ان مفکرین کی صف میں شہزاد احمد کو شامل نہ کرنا قرین انصاف نہیں ہو گا۔ خرد افروزی کا بنیادی وظیفہ یہ ہے کہ معاشرے میں ظن و تخمین، قیاسات و توہمات کے کلچر کے فروغ کے بجائے منطقیت، استدلال اور معروضیت کو فروغ دیا جائے۔ بالعموم پامال رستوں پر مداومت سے چلتے رہنے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے کیونکہ سوچ سمندر میں اترنا کم کوشوں کے بس کی بات نہیں۔ زندگی کی حقیقتیں ایسی سادہ نہیں ہوتیں بلکہ معنویت اور رمزیت کی گنجلک پرتیں سوچ کے نئے زاویوں کو ابھارتی ہیں۔ وہ اپنی کتاب ”دوسرا رخ“ میں لکھتے ہیں :

” ایک سی باتیں سن کر کان دکھنے لگتے ہیں۔ یہ اکتاہٹ اس وقت خاص طور پر زیادہ ہوتی ہے جب بیان ہونے والی حقیقت محض آدھی سچائی ہو، باقی آدھی سچائی جان بوجھ کر بیان نہ کی جاتی ہو۔ ایسی صورت میں کم از کم میرا جی تو یہی چاہتا ہے کہ میں آدھی سچائی بیان کرنے کی کوشش کروں، ممکن ہے آدھی سچائی مقداری طور پر پہلی آدھی سچائی کے برابر ہو مگر اس کا ایک فائدہ تو ہے، ہمیں تصویر کا وہ رخ بھی نظر آ جاتا ہے جسے نہ جانے کن مصلحتوں کے تحت نگاہ سے اوجھل رکھنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ “

شہزاد صاحب نے مذہب، سائنس، فلسفہ، جدید نظریات اور نظریہ تراش شخصیات، نفسیات، جنس، عالمی سیاسی، سماجی اور معاشی تغیرات و انقلابات، مابعد الطبیعاتی مسائل اور موضوعات کے فکری پہلووٴں کو ابھارا ہے۔ ان کے اٹھائے گئے سوالات سے فکر تازگی عطا ہوتی۔ علی عباس حلال پوری کے ہاں بھی یہی فکری ارتباط اور مماثلت ہے۔ وہ اپنی کتاب ”عام فکری مغالطے“ کے دیباچہ میں شہزاد احمد کی سوچ کا اثبات کرتے نظر آتے ہیں :

” الفاظ میں۔ جامد رسوم فکر ہمارے مزاج عقلی میں اس حد تک نفوذ کر جاتی ہیں کہ ان کی جانچ پرکھ کا عمل خاصا اذیت ناک ہوتا ہے۔ عمر کے گزرنے کے ساتھ ہمارا ذہن اس دودکش کی طرح دھندلا جاتا ہے جسے ایک مدت سے صاف نہ کیا گیا ہو۔ ہم اس کے جالوں سے مانوس ہو جاتے ہیں اور اسے سینت سینت کر رکھتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ انہیں صاف کیا جائے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ انہیں جھاڑ پونچھ دیا گیا تو روشنی کی چمک دمک سے ہماری آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی۔“

بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں فکر آزاد اور فکر تازہ کو برداشت کرنے کی روایت حوصلہ افزا نہیں ہے۔ فلسفہ و ادب کے امتزاجی رنگ سے فروغ پانے والے اسلوب ہمیں شہزاد احمد کے ہاں ملتے ہے۔ اس لحاظ سے وہ ایک رجحان ساز ادیب اور شاعر ہیں جنھوں نے سنجیدہ ادب پڑھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ ان کا نثری اسلوب سادہ رواں سلیس اور مدلل ہے۔ وہ اپنی بات کو غیر ضروری اصطلاحات سے بوجھل نہیں بناتے بلکہ گفتگو میں پیچیدہ اور ادق حقائق کو آسانی سہولت سے اپنے مخاطب حلقے تک پہنچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

بہ حیثیت نقاد، ان کا تعلق نفسیاتی دبستان تنقید سے ہے جو فرد کے ان خیالات کو کریدنے اور تلاش کرنے کی جستجو کرتے ہیں جو شعور لا شعور کے ان دیکھے جزیروں میں اضطراب عظیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جب کہ ظاہری شخصیت بقول سگمنڈ فرائیڈ پر سکون Iceberg کی طرح پر فریب ہوتی ہے۔ شہزاد احمد نے نفسیاتی تجزیوں، لاشعوری اور اساطیری حوالوں سے شعر و ادب کو سمجھنا چاہا ہے۔

شعری سطح پہ شہزاد احمد نے کلاسیکی روایت کے ساتھ جدید اسلوب اور افکار کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا شمار رجحان ساز شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے حمد و نعت کے علاوہ بے شمار غزلیں اور نظمیں کہیں۔ اندرون اور بیرون ملک مشاعروں میں شرکت کر کے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو منوایا، ذیل میں ان کی غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں :

چپ کے عالم میں وہ تصویر کی صورت اس کی
بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی
آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منھ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی
ہے ابھی لمس کا احساس مرے ہونٹوں پر
ثبت پھیلی ہوئی بانہوں پہ ہے حرارت اس کی
وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو
ابھی محسوس کیے جاوٴ رفاقت اس کی
وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلا ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی
بے طلب جینا بھی شہزاد طلب ہے اس کی
زندہ رہنے کی تمنا بھی ہے شرارت اس کی

شعر و ادب، فلسفہ اور نفسیات کا یہ گوہر 2 اگست 2012 ع کو ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا، وصال آسا گھڑیاں اب خیال و خواب ہو گئیں۔

پھر اس کے بعد نہ دیکھے وصال کے موسم
جدائیوں کی گھڑی چشم گیر ایسی تھی
********


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments