پوتن کی دھمکی: کیا دنیا میں ایٹمی جنگ ممکن ہے؟


پاک بھارت دشمنی کے تناظر میں جنوبی ایشیا میں دوسرے درجے کے لیڈر ضرور ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں لیکن اس قسم کی گفتگو کبھی بڑی طاقتوں کے لیڈروں کے منہ سے سننے میں نہیں آئی تھی۔ تاہم روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اس اعلان کے بعد صورت حال سنگین ہو گئی ہے کہ روس اپنی سلامتی کے لئے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ اس بیان میں ان الفاظ کے اضافہ سے کہ ’یہ دھمکی نہیں ہے‘ معاملہ پیچیدہ، تشویشناک اور خطرناک ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

گزشتہ ہفتہ کے دوران روسی صدر نے تین لاکھ ریزرو افواج کو طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے مغربی ممالک پر اشتعال انگیزی کرنے اور یوکرین جنگ میں براہ راست فریق بننے کا الزام لگاتے ہوئے روس کی حفاظت کے نقطہ نظر سے جو الفاظ استعمال کیے انہیں مغربی ممالک میں عام طور سے ایٹمی جنگ کی دھمکی سمجھا جا رہا ہے۔ اگرچہ ماہرین میں یہ اختلاف موجود ہے کہ کیا روس واقعی ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے؟ لیکن مغربی تجزیہ نگاروں کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ روسی صدر جو کہتے ہیں، اس پر عمل بھی ضرور کرتے ہیں۔ ان کی باتوں کو محض دھمکی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جوابی دھمکی کے سوا امریکہ یا مغربی ممالک کے پاس اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کا کیا متبادل ہے۔

پوتن کی دھمکی کا جواب امریکی صدر جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے ایسی خطرناک صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جو دوسری جنگ کے بعد دیکھنے میں نہیں آئی۔ انہوں نے روسی صدر کو ایسے ارادوں سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ البتہ امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سولیوان نے کہا ہے کہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے روس کی طرف سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی صورت میں امریکی رد عمل کی تفصیل بتانے سے گریز کیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ روس کو سفارتی ذرائع کے ذریعے صاف طور سے بتا دیا گیا ہے کہ امریکی ردعمل کیا ہو گا۔ انہوں نے مطلع کیا کہ امریکہ گزشتہ چند روز کے دوران یوکرین کے مسئلہ پر براہ راست ماسکو کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ان رابطوں کا یہی مقصد ہو سکتا ہے کہ کسی تباہ کن صورت حال کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔

اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ روسی، امریکی اور نیٹو لیڈر محض ایک دوسرے کو دھمکانے اور یوکرین کی جنگ پر اثر انداز ہونے کے لئے محتاط انداز میں اپنی طاقت اور صلاحیت کے بارے میں ’شیخی بگھارنے‘ کی کوشش کر رہے ہیں تو بھی دنیا کے لئے یہ ایک نئی صورت حال ہے جس میں جوہری ہتھیاروں سے لیس دو بڑی طاقتیں میڈیا بیانات کے ذریعے ایک دوسرے کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان کے پاس کتنے خطرناک ہتھیار ہیں اور وہ محض ’نمائشی‘ نہیں ہیں۔ ان دھمکی آمیز بیانات کو ایک لحاظ سے شکست خوردگی کا اظہار یا اس پر مایوس کن رد عمل بھی کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ روس اور امریکہ و نیٹو ممالک بخوبی ایک دوسرے کی عسکری و جوہری صلاحیت سے آگاہ ہیں۔ اپنی جنگی صلاحیت کے بارے میں دھمکانے کے لئے کسی پبلک پلیٹ فارم کا استعمال غیر ضروری اور افسوسناک ہے۔

روس نے فروری میں یوکرین پر حملہ کیا تھا لیکن 7 ماہ گزرنے کے باوجود وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس نے گو کہ مشرقی یوکرین کے متعدد علاقوں پر قبضہ کیا ہے لیکن اسے یوکرین کی طرف سے غیر متوقع مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ چند ہفتے کے دوران میدان جنگ سے آنے والی خبروں کے مطابق یوکرینی فوجوں نے مشرق میں متعدد علاقوں کو واگزار کروایا ہے اور روسی فوج کو مورچے چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ روس اس یوکرینی کامیابی کا براہ راست اعتراف نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی طرف سے کچھ علاقوں میں روسی فوج کی ہزیمت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن ماسکو مغربی ممالک کو یوکرینی مزاحمت کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ روسی حکام کا یہ موقف بڑی حد تک درست ہے کہ اگر نیٹو اور اس مغربی عسکری اتحاد کے حلیف ممالک یوکرین کو وسیع پیمانے پر ہتھیار فراہم نہ کرتے تو شاید روس بہت پہلے یوکرین کے مطلوبہ علاقوں پر قبضہ کر کے نام نہاد ’جنگ بندی‘ کا اعلان کرچکا ہوتا۔ البتہ اس کا یہ خواب پورا نہیں ہوا۔

دوسری طرف یوکرین پر روسی حملہ نے متعدد یورپی ممالک کو حقیقی خوف میں مبتلا کیا ہے اور انہیں اندیشہ ہونے لگا ہے کہ روس کی توسیع پسندی محض یوکرین جنگ تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ یوکرین کے بعد روسی لیڈر دیگر ممالک پر حملہ کی منصوبہ بندی بھی کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے ہمسایہ میں دو اہم ممالک سویڈن اور فن لینڈ نے نیٹو کی رکنیت کے لئے درخواست دے دی ہے۔ حالانکہ یہ دونوں ممالک عرصہ دراز تک خود کو غیر جانبدار قرار دیتے ہوئے کسی بھی عسکری بلاک کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں تھے لیکن یوکرین پر روسی حملہ سے ان دونوں ممالک میں عدم تحفظ کا شدید احساس پیدا ہوا جس کا واحد حل نیٹو عسکری الائنس میں شامل ہونا ہی سمجھا گیا۔

روس توسیع پسندی کے الزامات یا قیاس آرائیوں کو امریکی پروپیگنڈا اور یورپ کا غیر ضروری خوف قرار دیتا ہے۔ لیکن کمتر فوجی صلاحیت رکھنے والے ایک چھوٹے ملک پر روسی افواج کا حملہ ان دعوؤں کی قلعی کھولتا ہے۔ یہ حملہ بین الاقوامی طور سے تسلیم شدہ سرحدوں کی خلاف ورزی اور ایک خود مختار ملک کی آزادی ختم کرنے کی جارحانہ کوشش ہے۔ اگرچہ روس اپنے حملہ کے جواز میں یہی دلیل دیتا ہے کہ یہ کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں ہے بلکہ یوکرینی علاقوں میں آباد روسی آبادی کے تحفظ کے لئے محدود فوجی ایکشن ضروری تھا کیوں کہ یوکرین طاقت کے زور پر ان علاقوں پر تسلط برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے روس نے ان خبروں کے بعد یوکرینی سرحد پر فوجیں جمع کرنا شروع کی تھیں کہ یوکرین نیٹو کا رکن بننا چاہتا ہے۔ روس کا کہنا تھا کہ اس طرح نیٹو افواج براہ راست روس کے لئے خطرہ بن جائیں گی۔ یوکرین میں امریکی اڈے روس کی قومی سلامتی اور علاقائی خود مختاری کے لئے خطرہ ہوں گے۔ تاہم ایک خوف کی بنیاد پر ایک نہتے اور چھوٹے ہمسایہ ملک پر حملہ کو کسی عالمی اصول یا اخلاقیات کے تحت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس امر پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور روس اس معاملہ میں جنگ سے پہلے اعتماد سازی کا ماحول پیدا نہیں کرسکے اور ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جس کا انجام قریب دکھائی نہیں دیتا۔ اس جنگ کی وجہ سے نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا شدید بحران اور مشکلات کا شکار ہوئی ہے۔ یہ بے یقینی کسی بڑے تصادم کی وجہ بھی بن سکتی ہے اور ایسی ہی کسی صورت حال میں غیر ارادی طور پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک بھی پہنچنے کا امکان ہو سکتا ہے۔

اگر چہ یہ درست ہے کہ روس نے یوکرین پر حملہ کر کے جارحیت کا مظاہرہ کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب امریکہ اور نیٹو ممالک اسے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی موقع دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ واضح ہے کہ یوکرین کو جنگ کے لئے تیار کرتے ہوئے امریکی لیڈر کسی بھی طرح روس کی عسکری صلاحیت کو شدید اور طویل المدت نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ امریکی قیادت کا ایک ممکنہ مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی طرح روس میں صدر پوتن کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جائے اور جنگ کے باعث عائد معاشی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کو روسی قیادت کی غلطی قرار دے کر روس میں ایسا سیاسی ماحول پیدا کیا جائے جس کے نتیجے میں کوئی ایسی قیادت ابھر سکے جو براہ راست امریکہ یا نیٹو کو چیلنج کرنے کا حوصلہ نہ کرے۔

روسی قیادت بھی ان ارادوں سے آگاہ ہے۔ تاہم صدر پوتن جیسے طاقت ور اور خود پسند لیڈر کو میدان جنگ میں شکست کی تہمت بھی گوارا نہیں لیکن وہ جنگ بند کرنے کی ضرورت بھی ضرور محسوس کرتے ہیں۔ صدر پوتن کی طرف سے قومی سلامتی کے لئے ہر حد تک جانے کی ’دھمکی‘ کا ایک مقصد امریکیوں سے وہ سپیس حاصل کرنا بھی ہو سکتا ہے جس میں جنگ بندی ممکن ہو سکے اور روس کو شکست قبول کیے بغیر جنگ بند کرنے کا اعلان کرنے کا موقع مل سکے۔ روس نے اس حوالے سے دھمکیاں دینے کے علاوہ کچھ عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔ روسی افواج نے مشرقی یوکرین میں روسی آبادی والے جن چار علاقوں پر قبضہ کیا ہے اب وہاں ریفرنڈم کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم کا مقصد وہاں کی آبادی سے روس کے ساتھ انضمام کی منظوری لے کر ان علاقوں کو باقاعدہ طور سے روس میں شامل کرنا ہے۔ یوکرین، نیٹو اور امریکہ نے اس منصوبہ کو سختی سے مسترد کیا ہے اور ریفرنڈم کو ڈھونگ قرار دیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف روس کے وزیر خارجہ سرگی لاروف نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر یہ علاقے روس میں شامل کرلئے گئے تو ان کی حفاظت بھی ویسے ہی کی جائے گی جیسے یہ روسی مین لینڈ کا حصہ ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ یوکرین میں جنگ کی تبدیل شدہ صورت حال میں روسی صدر جوہری جنگ کی بالواسطہ دھمکی کے جلو میں لوہانسک، ڈونیٹسک، خرسان، ذپروزیا میں ریفرنڈم کرواکے ان علاقوں کو روسی مملکت کا حصہ قرار دیں اور مشروط جنگ بندی کا اعلان کردیں۔ یوکرین کے علاوہ اگر امریکہ و نیٹو ممالک نے اس ’پیشکش‘ کو قبول نہ کیا تو جنگ طویل اور پیچیدہ بھی ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ سرگی لاروف نے واضح طور سے کہا ہے کہ روسی آبادی والے ان علاقوں کے انضمام کے بعد ان پر حملہ روس پر براہ راست حملہ تصور ہو گا۔ جبکہ یوکرین اپنی حدود میں شامل کسی بھی علاقے سے دست بردار نہ ہونے کا واضح اعلان کر رہا ہے۔

ان حالات میں ایٹمی جنگ کی دھمکی کو محض سیاسی و عسکری حکمت عملی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک تشویش صورت حال ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں خطرناک جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک ایک دوسرے کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر کسی لیڈر نے ارادتاً ا ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش نہ بھی کی تو سنسنی خیزی کے ماحول میں غیر ارادی یا سانحاتی طور سے جوہری ہتھیار استعمال ہوسکتے ہیں۔ ایسا کوئی عمل دنیا میں تباہی و بربادی کا پیغامبر ہو گا۔ یہ تصور کر لینا کہ کسی جوہری جنگ کو ایک خاص علاقے تک محدود رکھا جاسکتا ہے یا اس کا نقصان کسی ایک ہی ملک کو ہو گا، حقائق سے نگاہیں چرانے کے مترادف ہے۔

ان حالات میں روس اور امریکہ کو یکساں طور سے تصادم ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یوکرین میں جنگ کا کوئی بھی موقع محض دوسرے کو کمزور یا کم ہمت سمجھ کر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ایٹمی ہتھیار ہمت یا حوصلہ سے نہیں گھبراہٹ یا شدید پریشانی کی صورت میں استعمال ہوں گے۔ امریکہ کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ روس کو ایسی کسی صورت حال کی طرف دھکیلنے کی کوشش تو نہیں کر رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments