اسحاق ڈار کی واپسی اور امیدیں: ’مفتاح اسماعیل کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی‘

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


کِیہ حال اے جی، تُسی ٹھیک او ( کیا حال ہے، آپ اچھے ہیں؟)

فائل بغل میں دبائے ایک شخص ایوان صدر کے میٹنگ حال میں داخل ہوا اور اس نے سامنے کھڑی خاتون کو دیکھتے ہی حال احوال پوچھا۔ اس شخص کا دھیما اور مؤدبانہ انداز دیکھ کر محسوس ہوا کہ جیسے وہ اس خاتون کا کوئی پرانا جاننے والا اور کسی درجے میں ممنونِ احسان بھی ہے۔

یہ منظر میں نے حیرت سے دیکھا اور سوالیہ نگاہوں سے خاتون کی طرف دیکھا جو صدر مملکت کی پریس سیکریٹری تھیں۔

کہنے لگیں: ’یہ اسحاق ڈار ہیں، ہمیشہ اسی طرح دھیمے اور مہربان لہجے میں بات کرتے ہیں، ورنہ میرا اِن سے نہ کوئی تعارف ہے اور نہ مجھے اُن کے ساتھ کبھی کام کرنے کا موقع ملا ہے۔‘

ایک سیاسی شخصیت اور مسلم لیگ ن کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے میرے لیے وہ اجنبی نہیں تھے لیکن اس قسم کے اسحاق ڈار سے میرا پہلا تعارف تھا۔

اسی شام اتفاق سے وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان (مرحوم) سے ملاقات ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا ’یہ شخص بنیادی طور پر ایک محنت کش ہے۔ اللہ نے اسے بہت کچھ دے رکھا ہے لیکن محمود غزنوی کے ایاز کی طرح اپنی گدڑی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غریبوں کا درد ہمیشہ اس کے دل میں رہتا ہے۔‘

سینیٹر اسحاق ڈار کتنے غریب پرور ہیں اور کتنے اچھے وزیر خزانہ رہے ہیں اس سوال کا جواب تو تاریخ کے ذمے ہے لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ یہی اسحاق ڈار اب واپس وطن لوٹ آئے ہیں۔ صرف وطن واپس نہیں آئے بلکہ سیدھے ایوانِ اقتدار میں لینڈ کر رہے ہیں۔

اسحاق ڈار

اسحاق ڈار کی وطن واپسی پاکستان کی معیشت کے لیے کتنی مفید ثابت ہو گی اور غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے لیے خیر کی کیا خبر لائے گی، یہ ایک مختلف سوال ہے۔ اس سوال سے زیادہ اہمیت اس سوال کی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ اور اتحادی حکومت کے اندر اور خاص طور مسلم لیگ ن میں اس تبدیلی کا استقبال کِس انداز میں کیا جائے گا؟

مسلم لیگ ن کے ردعمل کو جانچنے کے کئی پیمانے ہیں۔

  • وہ ردعمل جو اس جماعت سے وابستہ کارکن اور رہنما آف دی ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں
  • وہ ردعمل جو مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور پارٹی کے تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف کی نمائندہ مریم نواز شریف کی طرف سے مختلف مواقع پر سامنے آیا
  • وہ حکمت عملی جس کے تحت وزارت خزانہ میں یہ تبدیلی ہوئی

مفتاح اسماعیل ’قربانی کا بکرا‘

مفتاح

مسلم لیگی حلقوں کا مفتاح اسماعیل بارے میں آف دی ریکارڈ تاثر بڑا دلچسپ ہے، جیسے مسلم لیگ سندھ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ایک رُکن نے مفتاح اسماعیل کے ذکر پر اس نمائندے کے سامنے ظاہر کیا۔ کہنے لگے ’یار، یہ بھی عجب آدمی ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان بھی مسکراتے ہوئے کرتا ہے جس سے عام آدمی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔‘

مفتاح اسماعیل کے بارے میں مسلم لیگ کی صفوں میں اس قسم کا تاثر بظاہر منفی ہے لیکن اس قسم کے تبصروں کے باوجود مفتاح اسماعیل کی صلاحیت، محنت اور مشکل حالات میں حکومت سنبھالنے کے بعد ان کے طرز عمل کی پذیرائی بھی کی جاتی ہے۔

سینٹرل کمیٹی کے اُسی رکن کا کہنا ہے کہ مفتاح جانتے تھے کہ ان کی وزارت عارضی ہے اور عارضی وزارت کے باوجود ان کی ذمے داری کچھ اس قسم کی ہے جیسے ’قربانی کا بکرا‘ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنا کام نہایت محنت اور ایمان داری کے ساتھ کیا۔

مسلم لیگ کا دوسرا اور نہایت اہم ردعمل وہ ہے جو مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی طرف سے مختلف مواقع پر سامنے آیا۔ مثلاً وزارت خزانہ نے جب تاجروں کے لیے بجلی کے بلوں میں ٹیکس شامل کر دیا تو اس موقع پر انھوں نے ایک دلچسپ ٹویٹ کیا: ’مفتاح بھائی، بجلی کے بِل پر ٹیکس واپس لیں، تاجر بھائی پریشان ہیں اور شکوہ کر رہے ہیں۔ امید ہے آپ کوئی حل نکالیں گے۔‘

مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں کے بارے میں مریم نواز کا یہ کوئی پہلا اور آخری ٹویٹ نہیں تھا۔ حالیہ دنوں میں مبینہ طور پر سامنے آنے والی آڈیو لیکس میں بھی مریم نواز نے مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں پر اعتراض کیے ہیں جیسے: ’اسے پتا نہیں کہ یہ کر کیا رہا ہے، اس نے بہت مایوس کیا، اس کی شکایتیں ہر جگہ سے آتی رہتی ہیں۔‘

مفتاح اسماعیل کے استعفے اور سینیٹر اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ میں آمد کے پس پردہ حکمت عملی کو مریم نواز کی ان گفتگو اور ٹویٹس کی مدد سے آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔

ن لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق اُن کی جماعت حکومت میں آنے سے پہلے ہی سمجھتی تھی کہ ملک کی اقتصادی صورتحال کے پس منظر میں کاروبار مملکت سنبھالنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ آئی ایم ایف سے مدد لیے بغیر ملک چلایا نہیں جا سکے گا اور آئی ایم ایف سے معاہدے کا نتیجے عوام پر شدید معاشی دباؤ کی صورت میں برآمد ہو گا۔

پارٹی جانتی تھی کہ یہ صورتحال تھوڑے ہی دنوں میں مسلم لیگ کو مقبولیت کے اعتبار سے اس پوزیشن پر لاکھڑا کرے گی جو تحریک عدم اعتماد سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ نے ابتدا سے ہی وزارت خزانہ کے فیصلوں اور مفتاح اسماعیل کے بارے میں نہایت سوچا سمجھا موقف اختیار کیے رکھا۔

بظاہر اس حکمت عملی کا مقصد ہی یہی تھا کہ مفتاح اسماعیل کے زمانے کے فیصلوں کا بوجھ آسانی سے پارٹی کے کاندھوں سے اُتارا جا سکے تاکہ جب مسلم لیگ ن انتخابی میدان میں اُترے تو وہ ہلکی پھلکی ہو۔

اسحاق ڈار

آئی ایم ایف ڈیل اور دورۂ امریکہ کے بعد ریلیف کا امکان

آئی ایم کی شرائط اور اس کے باعث عوام پر بوجھ پڑنے کی وجہ سے مسلم لیگ جس دباؤ کا شکار ہوئی ہے، اس سے نجات کیسے ممکن ہے؟

اس سوال کا جواب بھول بھلیوں کے کھیل جتنا پیچیدہ ہے۔ مفتاح اسماعیل کچھ عرصے سے ایسے سگنل دے رہے تھے کہ اکتوبر سے عوام کو نہ صرف پیٹرول کے نرخوں میں قابل ذکر آسانی میسر آئے گی بلکہ ہوش ربا مہنگائی میں بھی کمی آنی شروع ہو جائے گی۔

مسلم لیگی حلقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو وہی آئی ایم ایف سے کامیاب ڈیل ہے۔ دوسری وجہ حالیہ دورۂ امریکا کے موقع پر آئی ایم ایف کے ساتھ مفتاح اسماعیل ہی کی قیادت میں دوبارہ مذاکرات ہیں جن کی وجہ سے مزید کئی رعایتیں یقینی دکھائی دیتی ہیں۔

اس کے علاوہ حکومت کو یقین ہے کہ مختلف ذرائع سے آئندہ چند ہفتوں میں تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے قریب رقوم پاکستان کو مل جائیں گی لہٰذا توقع کی جا رہی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں یہ اضافہ حکومت اور عوام دونوں کے لیے ایک بڑے ریلیف کا ذریعہ بن جائے گا۔

یوں بدلے ہوئے حالات میں بدلی ہوئی اقتصادی قیادت اتحادی حکومت اور خاص طور پر مسلم لیگ ن کو آسانی کے ساتھ سانس لینے کا موقع ہی مہیا نہیں کرے گی بلکہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کہ وجہ سے یہ جماعت جس عدم مقبولیت کا شکار ہو گئی ہے، ایک تازہ دم وزیر اور اس کی طرف سے فراہم کی گئی اقتصادی رعایتوں کی وجہ سے کھوئی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ حاصل کرنے بھی کامیاب ہو جائے گی۔

مسلم لیگ اس ضمن میں کتنی پُرامید ہے، اس کا اندازہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی گفتگو سے ہوتا ہے۔

بی بی سی نے ان سے سوال کیا تھا کہ ان کی حکومت اسحاق ڈار سے کیا توقعات رکھتی ہے۔ تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اسحٰق ڈار مسلم لیگ ن کے انتہائی سینیئر رہنما ہیں۔ ان کے حوالے سے ہماری حکومت اور جماعت میں مکمل یکسوئی ہے۔ اسحاق ڈار کی جماعت کے لیے بے شمار خدمات اور قربانیاں ہیں۔ معاشی میدان میں اسحاق ڈار کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسحاق ڈار صاحب کو پارٹی قائد میاں نواز شریف کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ مجھے پورا یقین اور اعتماد ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی بدولت پاکستان کو مشکل معاشی حالات سے نکالیں گے۔‘

کیا مسلم لیگ ن نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ایک ایسے وزیر خزانہ کو قربان کر دیا جس نے بقول خود ن لیگ کے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر معیشت کو سنبھالا دیا؟

میرے اس سوال پر موجودہ حکومت میں انتہائی اہم عہدے پر فائز ایک شخصیت نے کُھل کر قہقہہ لگایا اور کہا: ’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا۔‘

پھر ایک شعر پڑھا:

اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اس کے بعد کہا ’ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔‘

اب دیکھنا یہ ہے کہ منکسر المزاج وزیر خزانہ جن سے غیر معمولی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں، ان امیدوں پر پورے اُترتے بھی ہیں یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments