اُداسی بھری دُھن


ہم گرم ملکوں کے رہنے والے جب مغرب میں آ بستے ہیں تو یہاں موسم کے ہاتھوں بہت پریشان رہتے ہیں۔ کڑکڑاتا ہوا جاڑا جب ہڈیوں میں اترتا ہے تو مانو جسم کا ہر جوڑ جم جاتا ہے۔ باہر درجہ حرارت منفی بیس ہے نرم و گداز کمبل سے نکلنے کا من نہیں مگر گھڑی کا الارم بج گیا تو بستر چھوڑتے ہی بنتی ہے۔ آسمان سے گرتے برف کے گالے ہوں یا موسلادھار برستی بارش کوئی کام نہیں رکتا زندگی کی گاڑی ایک لگے بندھے راستے کی جانب ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہے۔ میں بیس سال میں بھی اس موسم کی عادی نہ ہو پائی۔ گرم دوپہروں کی یاد کو خود سے الگ کرنا کتنا دشوار ہے کوئی میرے دل سے پوچھے۔ برستی ہوئی بارش میں گاڑی چلانا آج بھی عذاب لگتا ہے

کام سے فارغ ہو کر گھر جا رہی تھی کہ اچانک بارش کی افتاد نے آ گھیرا حالانکہ خبروں میں چھ بجے کی پیشن گوئی تھی مگر موسم ان پیشن گوئیوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنی ہی بے ڈھنگی چال سے چلتا ہے۔ بگڑے مزاج کے کڑے تیور بتا رہے تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں جل تھل ایک ہو جائے گا۔ اس کا کیا بگڑ جاتا اگر آدھے گھنٹے بعد برستی کم از کم میں گھر تو پہنچ جاتی۔

ایسا بھی نہیں تھا کہ کوئی وہاں میرے انتظار میں بیٹھا تھا مگر اپنی چھت کے سکون کی بات ہی الگ ہے۔ بارش میں وائپرز کی تیز حرکت سے دماغ چکرانے لگتا ہے۔ ابھی ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ کیا کروں کہ اچانک نظر ریستوران کے نیون سائن پہ جا ٹکی۔ اطمینان کی اک گہری سانس کے ساتھ ہی میں نے گاڑی کا رخ پارکنگ لاٹ کی جانب کر دیا۔

ریستوران میں ویرانی سی چھائی ہوئی تھی۔ اندر اور باہر کی ویرانی کا عجیب سا امتزاج تھا۔ ہم دیسی عورتیں کہیں بھی ہوں، کتنا بھی پڑھ لکھ جائیں صدیوں سے اندر بیٹھا ویرانوں کا خوف ہمارے دل کو اپنے آہنی شکنجے میں دبوچے رکھتا ہے۔ ملگجی سی روشنی میں یہ عود کر باہر نکلتا ہے۔

کونے کی میز پہ صرف ایک جوڑا بیٹھا تھا۔ کچھ اپنے جیسے ہی تھے۔ وضع قطع سے کالج کے سٹوڈنٹس لگ رہے تھے۔ بھائیں بھائیں کرتے گھر اور ریستوران کسے اچھے لگتے ہیں؟ مگر جیسا ہم سوچتے ہیں ویسا تو شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ جب ویرانہ دم کے ساتھ لگا ہو تو کوئی کیا کرے؟

رکوں یا چلی جاؤں؟

اسی گو مگو کی کیفیت میں بجلی کے کڑکڑانے کی تیز آواز سے توجہ کھڑکی کی جانب مبذول ہو گئی۔ بارش اتنی تیز ہو چکی تھی گویا آسمان میں ہزاروں چھید ہو گئے ہوں۔ چھاجوں پانی برس رہا تھا۔ گرج چمک آنکھوں کو چندھیانے کے ساتھ ساتھ دل دہلا رہی تھی۔ اماں بچپن میں بارش میں باہر نہیں جانے دیتی تھیں ہمیشہ ایک ہی بات کہتیں،

بی بی باہر مت جانا یہ بد بخت بجلی پہلوٹھی کے بچوں کی دشمن ہوتی ہے تاک لگائے باہر کھڑی ہو گی۔

اس بات کو زمانہ گزرا مگر وہ نامراد خوف دل سے نکل کے ہی نہیں دیتا۔ نہ جائے ماندن اور نہ پائے رفتن کے مصداق رکنے کا فیصلہ کرنا ہی پڑا اور قدم اسی جانب خودبخود اٹھ گئے جہاں وہ دونوں بیٹھے تھے۔

کسی کی تنہائی میں مخل ہونے پہ کچھ خجالت تو ہوئی پر دماغ نے فوراً ڈانٹ پلائی کہ یہ ریستوران ہے یہاں تو کوئی بھی آ سکتا ہے۔ اتنی دھواں دھار بارش میں کہیں اور جانے کا سوچ کر ہی جھرجھری سی رگ و پہ میں دوڑ گئی۔ سو دو ٹیبل کے فاصلے پر بیٹھ گئی تاکہ دسراہٹ کا احساس رہے۔ ریستوران چھوٹا تھا میزیں بھی قریب قریب تھیں۔ ان کی دھیمی دھیمی سرگوشیاں مجھ تک پہنچ رہی تھیں۔ دونوں نے بیک وقت ایک متجسس اچٹتی نگاہ مجھ پر ڈالی، جیسے جاننے کی کوشش کر رہے ہوں کہ میرا تعلق کہاں سے ہے۔ شاید شک کی نظر سے دیکھنا بھی ہم دیسیوں کی فطرت میں شامل ہے۔ پھل بیری کی بیماری نے میرے چہرے اور ہاتھ پیروں کی رنگت تبدیل کر دی ہے اس وجہ سے بھی عموماً لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں۔

میں نے اپنا بھاری کوٹ اتار کر کرسی کی پیچھے لٹکا دیا سیٹل ڈاؤن ہوتے ہی ویٹرس کو کافی اور سینڈوچ کا آرڈر دیا اور انٹرنیٹ کا پاس ورڈ معلوم کیا بیگ سے ٹیبلٹ نکالی اور ڈاؤن لوڈ کی ہوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کرنے لگی پر نجانے کیوں کتاب میں دل ہی نہیں لگ رہا تھا۔ خدا جانے کتنی دیر میں بارش تھمے گی؟ وہ تو اپنے وقت سے ہی تھمتی ہے مگر سوچ کا بے لگام گھوڑا وسوسوں کی وادی میں بلا وجہ ہی ادھر ادھر دوڑ کر خود کو ہلکان کر رہا تھا۔

کن اکھیوں سے ان دونوں کی جانب دیکھا تو لگا کہ انہیں میری طرف سے اطمینان ہو گیا ہے کہ میری اپنی دنیا ہے اور مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ یوں بھی ایک ایشیائی پچاس پچپن سالہ تنہا عورت کی زندگی میں کرنے کو کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ شور و غل میں آوازیں گم ہو جاتی ہیں مگر سناٹے میں کان ذی حس ہو جاتے ہیں۔ نہ چاہنے کے باوجود بھی بہت کچھ سنائی پڑ جاتا ہے۔ دل نے بہت ملامت کی مگر کانوں میں پڑتی آوازوں نے تجسس کو مزید بڑھاوا دیا۔ کان تو بند نہیں کیے جا سکتے۔ ذرا سی دیر میں ہی میں ان کے نام جان چکی تھی۔

وہ دنیا و مافیا سے بے خبر اٹکھیلیوں میں مصروف تھے۔ ویٹرس نے ان کا آرڈر پلیس کیا وائن گلاس میں انڈیلنی چاہی تو لڑکے نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ خود گلاس بھرا اور لڑکی کی جانب کھسکا دیا اور اپنا گلاس بھرنے لگا کہ اچانک لڑکی نے کہا، ہنی میں نے پہلے کبھی نہیں پی!

لڑکا بولا شالو میرے جند جان پی لے، پی لے ریلیکس ہو جائے گی۔

شالو ابھی کشمکش میں تھی کہ پیئے یا نہ پیئے۔ چند لمحے تک انگلیاں گلاس سے کھیلتی رہی اس دوران لڑکا اپنا آدھا گلاس خالی کر چکا تھا اور اس کی ہمت بڑھاتے ہوئے پنجابی میں بولا،

کیوں سوچی پئی ایں پی لے کچھ نہیں ہوندا (کیوں سوچ میں پڑی ہے، پی لے، کچھ نہیں ہوتا)

لڑکے کے اصرار پر شالو نے گلاس اٹھا کر لبوں سے لگا لیا اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے شروع کیے۔ دھیمی دھیمی ہنسی قہقہوں میں بدلنے لگی۔ ویرانے میں ہنگامے کا سماں تھا۔ گلاس کے اختتام تک لڑکی کا اعتماد بحال ہو چکا تھا اب اس کھلکھلاتی ہنسی میں چہکار شامل ہو چکی تھی۔ ہنی کی پیشقدمی میں کچھ اضافہ ہو چلا تھا۔

مغرب میں یہ عام سی بات ہے، کسی کو اچنبھا نہیں ہوتا۔ میری توجہ ان سے ہٹ کر ٹیبلٹ کی جا نب ہو گئی تھی ابھی ایک صفحہ ہی پڑھا ہو گا کہ میرا آرڈر آ گیا۔ میں دھیرے دھیرے گرم کافی کی چسکیاں لینے لگی۔ باہر بارش بدستور جاری تھی گو بجلی کی کڑک میں کچھ کمی آ چکی تھی کہ اچانک شالو کی آواز سنائی دی،

ہنی سنگھ تو مجھے چھوڑ تو نہیں دے گا؟
ہنی سنگھ نے اپنے مضبوط بازو اس کی گردن میں حمائل کرتے ہوئے کہا،
شبھ شبھ بول، تو ایسا کیوں سوچتی ہے؟

وائن کی بوتل بھی ختم ہو چکی تھی۔ ہنی سنگھ کی آنکھوں میں لال ڈورے تیر رہے تھے کہ اچانک شالو نے کہا،
اسی بات کا تو ڈر ہے۔
ہنی سنگھ مخمور آواز میں بولا ڈر، کس بات کا ڈر؟
شالو جیسے کسی اور ہی جہان میں پہنچ چکی تھی خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولی،

ہم اپنے اپنے کنبے اور برادریوں سے جڑے ہوئے لوگ ہیں، یہاں آ کر بھی ان کے وچار نہیں بدلے ہیں۔ ہم کتنے بھی آزاد کیوں نہ ہو جائیں کچھ ناتے ہمیں ہمیشہ جکڑے رکھتے ہیں۔ ان کی یہی جکڑن زندگی میں پچھتاوے بھر دیتی ہے

ہنی سنگھ سوچ لے، ہمارا دھرم الگ ہے۔
بھگوانوں کی لڑائی میں انسان ہار جاتے ہیں اگر ہم بھی ہار گئے تو۔ اس نے جملے کو نامکمل چھوڑ دیا۔

ہنی سنگھ خاموش تھا شالو بھی خاموش تھی۔ کل کائنات خاموش تھی شہنائی کی دھن کے بجائے جیسے کسی نے فضا میں وائلن پہ اداسی بھری دھن چھیڑ دی ہو۔ اور میرا ذہن تیس سال پیچھے جا چکا تھا۔

ماضی کے دریچے سے کسی نے چیخ کر کہا، بھول جاؤ، یہ شادی نہیں ہو سکتی سید کا غیر سید سے نکاح جائز نہیں ہے۔ یہاں تو مسلک ہی الگ ہے خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔

بھگوانوں کی جنگ میں انسان ہی کیوں ہارتے ہیں؟ اس جنگ نے نجانے کتنی زندگیاں برباد کیں ہیں۔

لباس بدل جانے سے سوچ نہیں بدلتی۔ زندگی کا ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ ہم دیسی لوگ کہیں بھی چلے جائیں ان گٹھریوں کے بوجھ سے ابھی تک خود کو آزاد نہیں کر پائے ہیں۔

شالو کیا کہہ رہی تھی اور ہنی سنگھ نے کیا کہا، اب مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔

باہر بارش تھم چکی تھی میرا کافی کا کپ بھی خالی ہو چکا تھا۔ ریستوران کی فضا میں جیسے سرد سا خوف در آیا تھا۔ منہ میں کافی کا آخری گھونٹ کڑواہٹ بھر گیا تھا۔ میں نے بل ادا کیا اور تیز قدموں چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments