” بڑے بے آبرو ہو کر نتائج نہم کے نکلے“


سنا کرتے تھے کہ ہمارے سکولوں میں سوائے درس تدریس سب کچھ ہوتا رہتا ہے مگر اب کے سال جماعت نہم کے رسوائے زمانہ نتائج نے اس پر مہر ثبت کردی۔ لہٰذا نظام تعلیم کی تجہیز و تکفین کا جاری عمل اب تدفین کے مراحل بھی طے کر چکا۔ جس نظام میں خشت اول کی تنصیب ہی کج روی کا شکار ہو تو خشت نہم کیونکر درست ہو سکتی ہے۔ محکمہ، والدین اور معماران قوم کی مشترکہ کاوشوں اور حکومتوں کی تعلیم روسٹ پالیسیوں کے باعث پورا نظام تعلیم پاتال نشین ہے۔

تاہم نہم کے رزلٹ کی ”منی“ معمول سے کافی زیادہ بدنام ہوئی ہے۔ اس تاریخی رزلٹ نے شاگردان عظام اور اساتذہ کرام کو چھٹی کا دودھ تو کیا ”نویں کا دودھ“ بھی یاد لا دیا۔ ایسے میں تعلیم کی ”مراد“ ہرگز ”راس“ نہیں آ سکتی۔ اب پیڈا ایکٹ سے لیس محکمہ ماسٹروں سے حساب لینے کے چکر میں ہے تو استادوں کے پی ایس ٹی، ای ایس ٹی اور ایس ایس ٹی نامی فرقے باہمی ”مین و میخ“ نکالنے میں جتے ہیں۔ سوچنا ہو گا کہ

، ہوئی تذلیل تو کچھ باعث تذلیل بھی ہے ”

سچ ہے کہ وقت کی برسوں کی پرورش کئی سانحات کو منصہ شہود پر لاتی ہے۔ چار سال ہوئے سکولوں سے اساتذہ صرف جاتے دیکھے، مگر کسی کی تقرری نہ ہوئی۔ ایک تو سٹاف تشویشناک حد تک کم ہے جبکہ انہیں بھی کلاسوں سے نکال کر کل وقتی ڈاک اور دیگر سرگرمیوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ ہر صبح کا آغاز ڈینگی ایکٹویٹیز کے بے برکت کام سے ہوتا ہے اور ہزاروں موبائل بکف ٹیچرز مچھروں کے خلاف آن لائن قتال میں شریک ہوتے ہیں۔ جبکہ طالبان علم استاد کی غیر موجودگی میں کتابوں سے مکھیاں مارنے کے فرائض انجام دے کر گھروں کو سدھار جاتے ہیں۔

درجہ چہارم اور کلرک بھی نہ ہونے کے برابر ہیں سو صفائی و انتظامی امور بھی طلبا اور اساتذہ کے ذمہ ہیں۔ مار نہیں پیار کے سنہری اصولوں کے مطابق جسمانی سزا گناہ کبیرہ ہے۔ فعل ہونے کے اندیشے ہیں نہ نام کٹنے کا خوف ہے۔ اگر نرسری سے ہشتم تک نکموں کو بھی فیل کرنا منع ہے تو پھر نہم میں بورڈ کا سخت امتحان سمجھ سے بالا ہے۔ کرونائی عہد میں بنا پڑھے اور بغیر امتحان پروموشن اور انگریزی جیسے مضمون کو نظر انداز کرنا کہاں کی عقل مندی تھی؟

آج پورا نظام سکول ٹیب اور فونز کے وینٹی لیٹر پر ہے۔ گل کاغذ کو بڑی خوبی سے گلشن میں سجا کر بلبلوں کو خوب الو بنانے کا عمل جاری ہے۔ گویا زہر دے کر زندہ رہنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ دوسری طرف فکر معاش اور مزید بچوں کی حسرت لیے والدین بھی اپنے فرائض سے غافل ہیں جنھیں درجن بھر نور ہائے نظر کے لیے وقت نہیں۔ کر کٹیریا نامی وائرس، جذباتی سیاست اور انٹرنیٹ اس جذباتی قوم کے خون میں سرایت چکے ہیں۔ انڈونیشیا کے سکولوں کی طرز پر یہاں بھی موبائل شکنی وقت کی ضرورت ہے۔

نرسری تا ہشتم، پاس فیل کے اصولوں پر موثر امتحانی نظام لایا جائے اور جلد از جلد ٹیچرز کی تعیناتی ممکن بنائی جائے۔ افسوس کہ تعلیم ہماری ترجیح رہی، نہ اب ہے۔ دوسرے انبیاء کی امتیں تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے آج دنیا میں معتبر ہیں اور، معلم، بنا کر مبعوث ہوئے نبیﷺ کی امت اپنی گم شدہ میراث کی فکر سے ہی غافل ہے۔ بقول شاعر،

حیرت کہ رہ علم سے بیگانہ ہے وہ قوم جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments