انسانی سمگلر: ’جو موت سے خوفزدہ نہیں وہ روانڈا جانے سے بھی نہیں ڈریں گے‘
جین کوربن - بی بی سی پینوراما
رات ڈھل رہی تھی جب میں ترکی کے شہر استنبول میں ایک خفیہ ٹھکانے کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ میں یہاں کئی مہینوں کی کوشش اور قابل بھروسہ ایجنٹ کی مدد سے انسانی سمگلنگ کے کاروبار میں کلیدی حیثیت رکھنے والے شخص سے ملنے آئی تھی۔
یہ بی بی سی پینو راما کی تفتیش کا حصہ تھا جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کیسے ہزاروں پناہ گزین جنوبی انگلینڈ کی ساحلوں پر پہنچ کر پناہ حاصل کرنے کی درخواستیں دائر کرتے ہیں۔
اس نوجوان نرم گفتار انسانی سمگلر کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ایک ملک سے ہے اور انھوں نے ایک سیاہ لباس پہن رکھا ہے۔ انھوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے کاروبار کے بارے میں بتانے پر رضا مندی ظاہر کی۔ ہماری بات چیت کے دوران اُن نے محافظ اس گھر کے باہر پہرہ دے رہے تھے جہاں ہم موجود تھے۔
میں نے اُن سے کہا کہ انسانی سملنگ غیر قانونی کام ہے تو اُن کا کہنا تھا ’میں جانتا ہوں یہ غیر قانونی ہے لیکن میرے لیے انسانیت قانون سے زیادہ قیمت رکھتی ہے۔ ہم لوگوں کی مدد کرتے ہیں، ہم اُن سے اچھا سلوک کرتے ہیں، ہم عورتوں کی عزت کرتے ہیں ہم کسی کی بھی بے عزتی یا دل آزاری نہیں کرتے۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ برس بحیرہ روم میں دو ہزار کے قریب پناہ کے متلاشی افراد ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔
اپریل میں برطانوی حکومت نے روانڈا کے ساتھ ایک 12 کروڑ پاؤنڈ مالیت کا معاہدہ کیا جس کے تحت کچھ پناہ گزینوں جن میں زیادہ تعداد مردوں کی ہو گی، کو روانڈا بھیجا جائے گا اور روانڈا میں ان کے قیام کے دوران اُن کی جانب سے پناہ کی درخواستوں پر برطانوی حکومت کارروائی کرے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد انسانی سمگلروں کا کاروبار ختم کرنا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو انگلش چینل کو عبور کرنے سے روکنا ہے۔
رواں برس کم از کم 30 ہزار افراد نے چھوٹی کشتیوں پر اس عبور کیا ہے جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد اس سے بھی زیادہ تھی۔
انسانی سمگلر سینکڑوں لوگوں کو برطانیہ بھیجتے ہیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ان کا کاروبار بہت منافع بخش ہے اور ان کے بقول وہ اسے ایک جائز کاروبار کی طرح ہی چلاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
یورپ جانے کا خواب جس نے دو دوستوں کو ایرانی اغوا کاروں کے چنگل میں پھنسا دیا
’مجھے ڈر تھا کہ سمندر میں دفن ہو جاؤں گا‘
ٹرک سے 53 تارکین وطن کی لاشیں برآمد: ’ڈرائیور لاعلم تھا کہ اے سی کام نہیں کر رہا‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ ایک شخص ہے یا پورا خاندان، ہر فرد کو ایک جیسی قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔ برطانیہ جانے کا خرچہ 17000 ڈالر ہے۔‘
تو کمزور کشتیوں میں سمندر عبور کروانے کے دوران وہ لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی کیا توجہیہ پیش کرتے ہیں؟
ان کا دعویٰ تھا ’حادثے ہو سکتے ہیں۔ ہم لوگوں کو روکنے کے لیے انھیں ڈراتے بھی ہیں۔ میں انھیں بتاتا ہوں کہ یہ راستہ خطرناک ہے اور آپ مر سکتے ہیں۔ اور میں ان کے والدین کو بھی بتاتا ہوں۔‘
انھوں نے ہمیں ایک فارم دکھایا جس پر یہ تنبیہ موجود ہوتی ہے اور گاہک اس پر دستخط کرتا ہے کہ وہ ان تمام خطرات سے آگاہ ہے۔
استنبول دراصل مشرق وسطی، افریقہ، یورپ اور ایشیا میں داخلے کا راستہ ہے اور یہاں انسانی سمگلنگ کی بلیک مارکیٹ بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔
یہاں مارکیٹنگ میں بھی مقابلے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سمگلرز منزل کے حساب سے مختلف قیمتوں کی پیشکش کرتے ہیں۔
یہاں جعلی پاسپورٹ اور برطانوی ڈرائیونگ لائسنس بھی برائے فروخت ہیں۔ حتیٰ کے برطانوی دفتر داخلہ کی جانب پناہ گزینوں سے پوچھنے جانے والے ممکنہ سوالات کے نمونے بھی دستیاب ہیں۔
سمگلر شہر کے کسی محفوظ مقام پر اپنے گاہکوں کو اکھٹا کرتے ہیں۔ اس شہر میں کم از کم 50 لاکھ پناہ گزین ہیں۔ یہ سب ایک چھوٹے سے کمرے میں بھرے ہوتے ہیں اور یہ یہاں مہینوں تک انتظار کرتے ہیں جب تک کہ ان کے لیے محفوظ راستے کا انتظام نہیں ہو جاتا۔ سمگلرز کا گروہ ان افراد کے لیے مقامی بازار سے کھانا اور پانی لاتا ہے۔
انسانی سمگلر نے ہمیں بتایا کہ ’ہم انھیں ایک گھر میں رکھتے ہیں اور تمام انتظامات ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ جب تیاری مکمل ہو جاتی ہے تو ہم ان کے فون لے لیتے ہیں تاکہ پولیس ہمیں ڈھونڈ نہ سکے۔‘
اس کے بعد ان پناہ گزینوں کو ایک گاڑی میں استنبول سے پہاڑوں کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ یہ چھ سے دس افراد کے گروہ میں چلتے ہوئے بحیرہ روم میں سمگلروں کی کشتی تک جاتےہیں۔
انھیں یونان یا اٹلی لے جایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے
انگلش چینل: غیر قانونی طریقے سے برطانیہ میں داخلے کی کوشش کرنے والوں کے لیے قوانین کیا ہیں؟
حادثے کی وائرل تصویر: ’کشتی میں 40 لوگ تھے، صرف ایک زندہ بچا‘
اگرچہ انھوں نے تردید کی تاہم ان انسانی سمگلر کے بارے میں بھی کہا گیا تھا کہ ان کی کشتی پر بھی پناہ گزین ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔
انھوں نے ہمیں ایسی ویڈیوز دکھائیں جن میں بھری ہوئی کشتیوں میں بھرے ہوئے نوجوان ہاتھ ہلا رہے ہیں اور جاتے ہوئے اُن کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
اس سفر کے لیے ادا کی گئی رقم مڈل مین کے پاس ہوتی ہے جب تک خاندانوں کو یہ پتا نہیں چل جاتا ہے وہ بحفاظت پہنچ گئے ہیں۔ یہ سمگلر زیادہ رقم ادا کرنے والوں کے لیے پُرتعیش سروس بھی مہیا کرتے ہیں۔
اس کے بعد پناہ گزین یورپ میں داخل ہو کر شمالی فرانس تک جاتے ہیں اور کچھ کا مقصد انگلش چینل سے گزر کر برطانیہ پہنچنا ہوتا ہے۔ کیلس کی 100 کلومیٹر کی پٹی میں جرائم پیشہ افراد کا ایک نیٹ ورک ہے جو انسانی سمگلرز کے بھیجے گئے افراد کو آخری رکاوٹ پار کروانے میں مدد کرتے ہیں۔ ‘
انسانی سمگلر کہتے ہیں ’ہم چھوٹی کشتی خریدتے ہیں جس کی قمیت 10 سے 20 ہزار ڈالر ہوتی ہے۔ ایک مسافر کو کشتی چلانے پر ایک مفت سفر کی پیشکش کی جاتی ہے۔‘
یہ تفصیلات بتانے کے بعد وہ اس مکان سے نکلنے کے لیے بے چین نظر آئے جہاں ہماری ملاقات ہو رہی تھی کیونکہ اُن کے محافظوں کو خطرہ تھا کہ وہ پکڑے جائیں گے۔
آخری بار جب میں نے انسانی سمگلر کو دیکھا تو وہ سمندر عبور کرنے کے لیے کشتی خرید رہے تھے۔ ان کا کاروبار فی الحال تو کافی مضبوط ہو رہا ہے۔ اب بھی انگلش چینلز سے بڑی تعداد میں لوگ سرحد عبور کر رہے ہیں اسی اثنا میں برطانوی حکومت عدالت میں اپنے روانڈا منصوبے کو محفوظ اور قانونی ثابت کر رہی ہے۔
برطانیہ سے پناہ گزینوں کو بے دخل کیے جانے سے متعلق فیصلہ اگلے ماہ متوقع ہے۔
میں نے انسانی سمگلر سے پوچھا ’کیا حکومت کے اس لائحہ عمل سے کوئی فرق پڑے گا؟‘
انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’اگر وہ روزانہ 1000 افراد بھی روانڈا بھیجتے ہیں تو بھی لوگ جانا ترک نہیں کریں گے، یا اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے۔‘
’اگر وہ موت سے خوفزدہ نہیں ہیں تو وہ روانڈا جانے سے بھی نہیں ڈریں گے۔‘
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کا عالمی بحران تخلیقی حل کا متلاشی ہے۔
- ’موت کا جزیرہ‘: اینتھریکس کے وہ خفیہ تجربے جن کے لیے برطانوی فوج نے سائنسدانوں کی مدد حاصل کی - 24/04/2024
- جمیلہ علم الہدیٰ: مشکل وقت میں شوہر کے ہمراہ ’گھریلو اخراجات اٹھانے والی‘ ایرانی صدر کی اہلیہ کون ہیں؟ - 23/04/2024
- ’مایوس‘ والدہ کی چیٹ روم میں اپیل جس نے اُن کی پانچ سالہ بیٹی کی جان بچائی - 23/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).