روحانیات۔ نفسیات اور سائنسی تحقیقات (دوسری قسط)


تیسرا گروہ۔ مرگی کے مریض
خدا اور فرشتوں سے باتیں کرنے والے لوگوں کا تیسرا گروہ مرگی کے مریضوں کا ہے۔

مختلف ہسپتالوں کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ اور نفسیاتی وارڈز میں کام کرنے کے دوران میری کئی ایسے مریضوں سے ملاقات ہوئی جن کے نفسیاتی عوارض سے یوں لگتا تھا جیسے وہ سکزوفرینیا کے مریض ہوں کیونکہ انہیں غیبی آوازیں بھی آتی تھیں اور وہ عجیب و غریب مذہبی توہمات کا بھی شکار تھے لیکن جب انہیں سکزوفرینیا کی دوا دی جاتی تو ان کی بیماری پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ مریض اپنے ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات کے لیے ایک معمہ تھے۔ آخر جب ان مریضوں کے دماغ کی لہروں کا ای ای جیEEG ٹیسٹ کیا گیا تو واضح ہوا کہ وہ مرگی کے مریض ہیں اور جب ان کی مرگی کی ادویہ سے علاج کیا گیا تو وہ شفایاب ہو گئے۔ دراصل وہ لوگ ٹمپورل لوب کی مرگی کا شکار تھے۔

ٹمپورل لوب کا معمہ

وہ ماہرین جو دماغ کے مختلف حصوں کا مطالعہ اور تحقیق کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انسان کے دماغ کے دائیں حصے کا انسان کے تخلیقی اور روحانی تجربات سے گہرا تعلق ہے۔

کینیڈین ڈاکٹر رابرٹ بکمین نے اپنی کتاب
CAN WE BE GOOD WITHOUT GOD
میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ میں یہاں اس گفتگو کا خلاصہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ڈاکٹر بکمین کا کہنا ہے کہ انسان کے دماغ کے دو حصے ہیں۔ بائیں دماغ کا تعلق زبان اور گفتگو سے ہے جبکہ دائیں دماغ کا تعلق اپنی ذات اور کائنات کی پہچان اور شعور سے ہے۔ 1940 سے انسانی دماغ کی لہروں کے ای ای جی کے ٹیسٹ نے ہمیں اس معمہ کو حل کرنے میں مدد کی۔ بکمین نے ہمیں بتایا کہ دائیں دماغ کی حساسیت کی وجہ سے ہم انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کے دائیں دماغ کے ٹمپورل لوب حد سے زیادہ حساس ہیں۔ جب یہ حصے خود بخود فعال ہو جاتے ہیں تو انسانوں پر مرگی کے دورے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ہولنگز جیکسن نے مرگی کے مریضوں پر تحقیق کر کے ہمیں بتایا کہ دائیں دماغ کی ٹمپورل لوب کی مرگی کا تجربہ روحانی تجربے سے مشابہت رکھتا ہے۔ ایسے مریض کی ایک مثال روس کے مشہور لکھاری فیودور دوستووسکی تھے جنہیں مرگی کے دورے پڑتے تھے۔ وہ اپنے ٹمپورل لوب کی مرگی کے دورے کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

’میرے شعور میں اچانک حیرت انگیز تبدیلی آئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری روح میں ایک در کھل گیا ہو اور اس میں روشنی داخل ہو رہی ہو‘

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ عین ممکن ہے دوستووسکی کی طرح بعض سنت سادھو اور صوفی بھی ٹمپورل لوب کی مرگی کے مریض ہوں۔

ڈاکٹر ولڈر پینفیلڈ نے بھی انسانی دماغ پر کافی تحقیق کی ہے۔ ان کی تحقیق نے ہمیں بتایا ہے کہ جب انسانی دماغ کے بائیں حصے کو لیبارٹری میں فعال کیا جاتا ہے تو جسم کے مختلف حصے حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن جب دائیں دماغ کے ٹمپورل لوب کو STIMULATE کیا جاتا ہے تو جسم کے کسی حصے میں کوئی حرکت نہیں ہوتی بلکہ انسانی شعور میں تبدیلی آتی ہے اور اسے کسی اور ہستی کی قربت اور ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو یوں لگتا ہے جیسے ان کا کسی خدا یا فرشتے سے رشتہ جڑ گیا ہو۔

دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جس کا دائیں دماغ کا ٹمپورل لوب حساس ہے لیکن حد سے زیادہ نہیں۔ ایسے لوگ فنکار بن جاتے ہیں۔ چاہے وہ شاعر ہوں ادیب ہوں ’دانشور ہوں یا ایکٹر۔ وہ ایک خیالی دنیا میں چلے جاتے ہیں اور فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔

تیسرا گروہ عام لوگوں کا ہے جن کے دائیں دماغ کے ٹمپورل لوب حساس نہیں ہوتے۔ انہیں نہ مرگی کے دورے پڑتے ہیں اور نہ ہی وہ شاعر ’ادیب‘ دانشور یا ایکٹر بنتے ہیں۔

ایک اور سائنسدان ایم اے پرسنگر نے اپنی تحقیق سے ہمیں یہ بتایا کہ اگر ہم عام انسانوں کے دائیں ٹمپورل لوب کو لیبارٹری میں فعال کریں تو انہیں بھی روحانی تجربات ہوتے ہیں۔ وہ پرسکون محسوس کرتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ وہ کسی ماورائی طاقت کے ساتھ جڑ گئے ہوں۔ بعض کو تو فرشتوں یا خدا کی آواز بھی آتی ہے۔

مرزا غالب کا مشہور شعر ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غال۔ ب صریر خامہ نوائے سروش ہے

مرزا غالب کا خیال تھا کہ شاعر کو بھی فرشتے کی غیبی آواز سنائی دیتی ہے جو اسے شعر لکھواتا ہے۔ اسے آمد ہوتی ہے اور وہ شاعر نئے اشعار رقم کر لیتا ہے۔ یہ دائیں دماغ کے ٹمپورل لوب کا کرشمہ اور کرامت ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم تخلیقی اور روحانی تجربات کو سائنس اور نفسیات کے علم سے کیسے سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں کینیڈین ماہر نفسیات جولین جینز ہماری مدد کرتے ہیں۔ وہ ان تجربات کی اس طرح تشریح کرتے ہیں کہ انسان ایک طویل عرصے تک یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے دماغ کے دو حصے ہیں۔

دایاں دماغ اور بایاں دماغ
بائیں دماغ کا تعلق زبان سے ہے اور دائیں دماغ کا تعلق تصورات سے ہے۔

شاعر کے اشعار دائیں دماغ میں تخلیق ہوتے ہیں لیکن جب وہ بائیں دماغ میں آتے ہیں تو بایاں دماغ یہ سمجھتا ہے کہ وہ کہیں باہر سے آئے ہیں۔ اگر وہ شخص مذہبی اعتقادات رکھتا ہے تو وہ ان کا رشتہ کسی فرشتے یا خدا سے جوڑتا ہے۔ اگر وہ شخص لامذہب ہے تو وہ اس کا تعلق اپنے لاشعور سے جوڑتا ہے۔

ڈاکٹر بکمین کا کہنا ہے کہ ہم کسی بھی انسان کے دائیں ٹمپورل لوب کو لیبارٹری میں فعال کریں تو اسے روحانی تجربہ ہو سکتا ہے اور وہ کسی خدا سے بات کر سکتا ہے۔ بکمین مزاحیہ انداز میں کہتے ہیں کہ خدا ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے

GOD IS A STATE OF MIND

جب ہم روحانیات کا نفسیات اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ اس کے دو حصے ہیں۔

پہلا حصہ تجربہ ہے اور دوسرا حصہ اس کی تعبیر و تفہیم۔

وہ تجربات جنہیں ہم روحانی تجربات کہتے ہیں وہ تجربات کسی انسان کو بھی ہو سکتے ہیں۔ مذہبی لوگ ان تجربات کا تعلق خدا سے اور لا مذہبی لوگ لاشعور سے جوڑتے ہیں۔ روحانی تجربات دہریوں کو بھی ہو سکتے ہیں۔ سیکولر سائنسدان اور ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ روحانی تجربات کا تعلق انساں سے ہے کسی بھگوان ’رحمان یا یزداں سے نہیں

SPIRITUALITY IS PART OF HUMANITY NOT DIVINITY
چوتھا گروہ۔ عام انسان

روحانیات کی نفسیات کے سلسلے میں بیسویں صدی کے ایک اور ماہر نفسیات ابراہم میسلو نے بھی ہمارے علم میں اضافہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روحانیات کے پیچیدہ مکالمے میں ایک مسئلہ زبان کا ہے۔ چونکہ ہم روحانی تجربات کے لیے مذہبی زبان استعمال کرتے ہیں اس لیے مذہبی ’غیر مذہبی اور لا مذہبی لوگوں کو ان کے بارے میں مکالمہ کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کا مشورہ تھا کہ ہم ایسے تجربات کے لیے جو ماضی میں روحانی تجربات کہلاتے تھے نئے الفاظ اور اصطلاحیں استعمال کریں کیونکہ ان تجربات کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ میسلو نے ان تجربات کو روحانی تجربات کہنے کی بجائے

PEAK EXPERIENCES

کا نام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربات کسی بھی انسان کو ہو سکتے ہیں چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی۔ پکا عیسائی ہو یا پکا دہریہ۔ ان انسانی تجربات کا اب ہم سائنس اور نفسیات کے علم سے اس طرح مطالعہ اور تجزیہ کر سکتے ہیں جیسے کسی اور انسانی تجربے کا۔ ایسی تحقیق کے نتائج کو مذہبی اور غیر مذہبی دونوں گروہ قبول کر سکتے ہیں۔

میسلو کا کہنا تھا کہ معمولی لوگوں کو غیر معمولی تجربات ہو سکتے ہیں جن کا ان کے ایمان اور عقیدے سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے تجربات

غروب آفتاب دیکھتے
لمبی سیر کرتے
تنہائی میں وقت گزارتے
موسیقی سنتے اور
بچوں سے کھیلتے بھی ہو سکتے ہیں۔
میسلو نے ان تجربات کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا اور ان کے نتائج کو
RELIGIONS, VALUES AND PEAK EXPERIENCES

کتاب میں رقم کیا۔ اس مختصر سی کتاب میں بہت سے راز پوشیدہ ہیں۔ یہ کتاب روحانیات کی نفسیات کے علم میں گرانقدر اضافہ ہے۔

سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا بھی کہنا تھا کہ سائنسی تحقیق کے دوران سائنسدانوں کو بھی ایسے تجربات ہوتے ہیں جنہیں روحانی تجربات کہا جا سکتا ہے لیکن ایسے تجربات کا بھی کسی مذہب یا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایسے تجربات انسانی تجربات ہیں جو
ایک شاعر کو بھی ہو سکتے ہیں
ایک ادیب کو بھی
ایک فنکار کو بھی ہو سکتے
ایک دانشور کو بھی
ایک صوفی کو بھی ہو سکتے ہیں
ایک سائنسدان کو بھی

جب کوئی انسان جو روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بائیں دماغ سے کام لے رہا ہوتا ہے جب کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے اور کسی گمبھیر مسئلے پر یکسوئی سے سوچتا ہے تو اس کا اپنے دائیں دماغ سے رشتہ جڑ جاتا ہے۔ ایسے میں اسے ایسے تجربات ہونے لگتے ہیں جنہیں ہم روحانی یا تخلیقی تجربات کا نام دیتے ہیں۔ یہ تجربات شاعروں ’ادیبوں‘ فنکاروں ’دانشوروں‘ صوفیوں اور سائنسدانوں کو اس لیے زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ زندگی کے رازوں کے بارے میں زیادہ غور و فکر کرتے ہیں اور انسانیت کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس سوچ و بچار سے ان کی شعور کی ایسی اعلیٰ سطح تک رسائی ہو جاتی ہے جس تک عام انسانوں کی رسائی مشکل ہوتی ہے۔ ایک مشہور تاریخ داں آرنلڈ ٹوئنبی نے کہا تھا کہ ہر قوم کی ایک اقلیت تخلیقی لوگوں کی ہوتی ہے ہمیں اس اقلیت کا خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ انسانیت کی اکثریت کے مستقبل کا دارو مدار اسی اقلیت پر ہے۔ یہ اقلیت اپنی تخلیقی سوچ اور زندگی کے رازوں سے پردہ ہٹا کر انسانیت کے ارتقا کے سفر میں روایتی اکثریت کی رہنمائی کرتی ہے۔

۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments