ہرجوت کور بھامرہ: انڈین ریاست بہار میں سکول طالبہ کی سینیٹری پیڈز کی درخواست پر خاتون افسر کا متنازعہ بیان اور معافی


انڈیا کی ریاست بہار میں سکول کی طالبات کی جانب سے سینیٹری پیڈز فراہم کرنے کی درخواست پر اعلیٰ سرکاری خاتون افسر کے بیان پر ملک میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ بہار کی بیوروکریٹ خاتون افسر نے اپنے متنازعہ بیان پر عوامی سطح پر ردعمل آنے کے بعد معافی مانگ لی ہے۔

مشرقی ریاست بہار میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ میں سکول طالبات نے خاتون سرکاری افسر سے نوجوان لڑکیوں کو سکولوں میں ماہواری کے ایام کے دوران پیڈز فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

جس کے جواب میں خاتون افسر نے طالبات سے کہا کہ وہ جلد ہی حکومت سے مفت کپڑے، مفت جوتے اور حتی کہ کنڈومز دینے کی توقع بھی کریں گی۔

خواتین کی ماہواری کے متعلق بات کرنا انڈیا میں اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے اور ماہواری کے دوران خواتین کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ لڑکیاں ماہواری کی عمر کو پہنچنے کے بعد سکولوں میں حفظان صحت کی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے سکول جانا چھوڑ دیتی ہیں۔

حکومت کے صحت اور سماجی اشاریوں کے سب سے جامع نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، انڈیا کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک بہار میں صرف 59 فیصد خواتین ماہواری کے دوران حفظان صحت کے طریقوں (مثلاً پیڈز) کا استعمال کرتی ہیں۔

انڈیا

یہ معاملہ کیا ہے؟

منگل کو ریاست کے دارالحکومت پٹنہ میں لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے حکومتی پروگرام 'شاسخت بیٹی، سمردھ بہار (بااختیار بیٹی، خوشحال بہار) کے تحت ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں سکول طالبات سے بات چیت کے لیے خاتون بیورکریٹ افسر ہرجوت کور بھامرہ کو مدعو کیا گیا تھا۔

اس ورکشاپ کا مقصد سکول طالبات کو صنفی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے حکومتی سکیموں کے متعلق آگاہ کرنا تھا۔

اس پروگرام میں سکول طالبات میں سے ایک لڑکی نے خاتون افسر سے درخواست کی کہ اگر حکومت لڑکیوں کو ماہواری کے دوران حفظان صحت کے لیے سینیٹری پیڈز فراہم کرے تو یہ بہتر ہو گا کیونکہ بازار میں ان کی قیمت 20 سے 30 روپے ہے۔

طالبات نے انھیں اپنے سکولوں میں ٹوٹے ہوئے بیت الخلا اور اسے استعمال کرتے ہوئے ہونے والی پریشانی کے متعلق بھی بتایا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس ورکشاپ میں زیادہ تر 15 سے 16 برس کی طالبات شامل تھیں۔

ماہواری

ہرجوت کور بھامرہ جو خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزارت میں ایک سینئر بیوروکریٹ ہیں اور انڈین ریاست بہار میں وویمن اینڈ چائلڈ ڈویلمپنٹ کارپوریشن کی سربراہ ہیں، سکول کی طالبات کے سوالات سے ناراض دکھائی دی۔

انھوں نے طالبات کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘آپ کو سب کچھ حکومت سے ہی کیوں چاہیے؟ اس سوچ کو تبدیل ہونے کی ضرورت ہے، آپ کو خود کرنے کی ضرورت ہے۔’

جب طالبات نے عوام کے ووٹ سے آنے والی حکومت سے ان کے مسائل حل کرنے پر اصرار کیا تو خاتون سرکاری افسر نے غصے میں جواب دیا کہ ‘یہ حماقت کی انتہا ہے، پھر آپ ووٹ نہ دیں، پاکستان بن جائیں، کیا آپ صرف پیسے اور سہولیات کے لیے حکومت کو ووٹ دیتے ہیں۔’

خاتون افسر کے بیان پر تنازعہ اور معافی

ان کے اس مکالمے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کے بعد تیزی سے وائرل ہو گئی اور اس پر ایک ہنگامہ اور تنازع بن گیا۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے ان کے تبصرے کو ‘شرمناک’ قرار دیا اور کہا کہ خاتون افسر ‘سرکاری نوکری کے قابل نہیں ہیں۔`

خاتون سرکاری افسر نے بعدازاں یہ دعویٰ کیا کہ جس طرح سے اس واقعے کو رپورٹ کیا گیا وہ ‘غلط، جھوٹا اور بدنیتی پر مبنی تھا۔’ اور انھوں نے ان کے بیان سے متعلق سب سے پہلے رپورٹ کرنے والے ہندی زبان کے اخبار کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی بھی دی۔

انھوں نے کہا کہ ‘میں خواتین کے حقوق اور انھیں بااختیار بنانے کے لیے سب سے زیادہ آواز اٹھانے والوں میں سے ہوں۔` ان کا کہنا تھا کہ ‘چند شرپسند عناصر’ ان کی ساکھ کو ‘بدنام’ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن معاملہ یہی تھما نہیں بلکہ دہلی کے کمیشن برائے خواتین کی سربراہ سواتی مالیوال نے بھی بہار کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ تیجاشوی یادیو سے ہرجوت کور کے بیان سے متعلق کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جبکہ انڈیا کے قومی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے سات دن کے اندر پورے معاملے پر اعلیٰ خاتون افسر سے تحریری جواب طلب کیا ہے۔

بہار کے وزیر اعلیٰ نے بھی خاتون افسر کے بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر اجلاس بلانے اور کارروائی کرنے کا حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان: ماہواری پر اخراجات ایشیا میں سب سے زیادہ

’پہلی بار پیریڈز ہوئے تو سمجھی بلڈ کینسر ہو گیا‘

انڈیا نے ماہواری کے پیڈ سے ٹیکس ہٹا دیا گیا

پاکستان میں ماہواری پر بات اور سینیٹری پیڈز تک رسائی مشکل کیوں؟

بہار حکومت میں سماجی بہبود کے محکمے کے وزیر مدن ساہنی نے خاتون افسر کے بیان سے متعلق میڈیا نمائندوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ‘ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہرجوت کور نے ایسا بیان کیوں دیا، اس کے بارے میں وہ ہی بہتر بتا سکتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ جذبات میں بہہ گئیں اور اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکیں۔`

انھوں نے ریاست میں خواتین کو فراہم کیے جانے والے مواقع سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘وزیر اعلیٰ صرف خواتین کی آواز پر بہار کو منشیات سے پاک کرنے کی مہم میں مصروف ہوئے ہیں۔ خواتین کو سرکاری ملازمتوں کے ساتھ ساتھ پنچائیت کی سطح پر بھی مخصوص کوٹہ دیا گیا ہے۔ اور سکولوں میں بچیوں کو سینیٹری یپیڈز سے لے کر کپڑوں تک کی رقم دی جاتی ہے۔’

سوشل میڈیا اور حکومتی حکام کی جانب سے خاتون سرکاری افسر کے بیان کا نوٹس لیے جانے کے بعد خاتون افسر ہرجوت کور جنھوں نے پہلے اپنے بیان کو ‘سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کردہ’ قرار دیا تھا نے ایک نیا بیان جاری کرتے ہوئے معافی مانگ لی ہے۔

انھوں نے اپنے نئے بیان میں کہا کہ ‘اگر ورکشاپ کے دوران ان کے الفاظ سے کسی لڑکی یا طلبا کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو میں ہرجوت کور وویمن اینڈ چائلڈ ڈویلمپنٹ کارپوریشن کی سربراہ کی حیثیت سے معافی مانگتی ہوں۔ میرا بیان کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں تھا مگر بہتری کے لیے حوصلہ افزائی کرنا تھا۔`

ہرجوت کور بھامرہ کون ہیں؟

ہرجوت کور، بہار حکومت میں سنہ 1992 کے بیچ کی آئی اے ایس کیڈر کی سرکاری افسر ہیں۔ وہ بہار میں وویمن اینڈ چائلڈ ڈویلمپنٹ کارپوریشن کی سربراہ اور منیجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں۔

ماضی میں وہ مائنز اینڈ ارتھ سائنسز کے علاوہ شعبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی سربراہ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ وہ محکمہ اینمل اینڈ لائف سٹاک میں بھی بطور سیکرٹری کام کر چکی ہیں۔

ہرجوت کور کے شوہر دیپک کمار بھی بیوروکریٹ ہیں اور محکمہ تعلیم میں بطور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کام کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر پر موجود ان کی پروفائل کے مطابق انھوں نے انڈیا کی مشہور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments