اٹھارہویں ترمیم بتدریج معدوم ہو رہی ہے


مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ) ہر ملک میں ہوتی ہے جو کہ خارجہ و داخلہ سمیت فوج کے ریٹائرڈ و حاضر سروس فوج کے افسران، عدلیہ سے وابستہ افراد، دانشوروں اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس کا مقصد جمہوری عمل میں اداروں کی خدمات کے ذریعے جمہوریت کو نقصان پہنچانے سے بچانا ور اسے مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ دنیا میں جیسے جیسے جمہوریت اور جمہوری رویوں میں بہتری آتی گئی مقتدرہ کی ہیئت تبدیل ہوتی گئی یوں مہذب جمہوریتوں میں تھنک ٹینک کی شکل اختیار کرتی گئیں لیکن ان میں محققین اور ایکسپرٹس کی تعداد نمایاں ہوتی گئی جبکہ فوجیوں کی نمائندگی کی جگہ سیکیورٹی سے متعلق ماہرین شامل ہوتے گئے۔

مگر پاکستان میں ابھی مقتدرہ کا معاملہ الٹا ہے اس میں تمام تر بالادستی فوج کی ہے اور وہ بھی بری فوج کی۔ پہلے جو مختلف شعبوں و اداروں سے نمائندگی ہوتی تھی اب اس میں سارے فیصلے فوج ہی کرتی ہے عدلیہ جو فوج کے تابع ہوتی تھی وہ بتدریج اپنی پوزیشن بنانے میں کامیاب ہوئی اس کے باوجود فوج کی ساتھی بنی رہی۔ اب عدلیہ کسی طور اپنا اختیار کرتی ہے لیکن بہرحال فوج ہی فیصلے کرتی ہے۔ مقتدرہ سویلینز کو اختیارات کی منتقلی کی ہمیشہ سے مخالف رہی۔

‏ ‏‏ آصف زرداری کی حکومت نے ملک میں سویلین حکومت کے تسلسل کے لئے ایک جمہوری بنیاد رکھی تھی کہ سویلین حکومت ہی جمہوری طریقے سے اگلی حکومت کو اقتدار منتقل کرے جسے اسٹیبلشمنٹ نے خوش آئند نہیں سمجھا اور پوری کوشش کرتی رہی کہ عدلیہ کے ذریعہ سویلین حکومت کو مکمل اختیار کے استعمال سے روکا جا سکے۔ مقتدرہ کی بے چین روح اقتدار کی سویلینز کے ہاتھوں تبدیلی اور 18 ویں ترمیم کے نفاذ کو اپنے لئے ایک چیلنج کے طور پر لے لیا۔

یہ دونوں اقدامات پارلیمنٹ کی بڑی گستاخیوں میں شمار ہونے لگی، مقتدرہ نے پارلیمنٹ کو اس کی سزا دینے اور ترمیم کی مزاحمت کرنے کی ٹھان لی۔ خاص طور پر جب زرداری گورنمنٹ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے این ایف سی ایوارڈ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے چھوٹے صوبوں کے لئے پنجاب کے حصے میں سے بہت کچھ دے دیا جس کو مقتدرہ نے پسند نہیں کیا۔ مگر مقتدرہ نے اپنی پریشانیوں کے ازالے کے لئے ایک متوازی سیاسی لیڈر شپ کی تیاریاں شروع کردی گئی، یوں عمران خان کو جس نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا 2011 میں اچانک بڑے لیڈر کے طور پر ابھارا گیا

2013 کے انتخابات کے بعد نواز شریف نے 18ویں ترمیم کے خلاف اپنا جھکاؤ مقتدرہ کی جانب رکھا اور وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی میں رکاوٹیں پیدا کی تاکہ پنجاب کے مفادات کی بالا دستی کو کوئی بڑا نقصان نہ پہنچے۔ ویسے بھی نواز شریف کے دور میں جن سبجیکٹس کو صوبوں میں منتقل ہونا تھا وہ نہ ہو سکا۔ میاں صاحب نے 18ویں ترمیم میں مزید ترمیم کرنے کا آئیڈیا دیا لیکن ان کی دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود وہ ایسا نہ کر سکے۔

نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس اور ڈان لیکس 18ویں ترمیم کو نہ تبدیل کرنے کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ نواز شریف حکومت نے بھی 18ویں ترمیم کو زیادہ پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھا مگر کہا جاتا ہے کہ اتنی بڑی خدمت انجام دینے کے باوجود نواز شریف کی حکومت کو مقتدرہ نے پھر بھی پسند نہیں کیا کیونکہ مقصد سویلینز چاہے خود کو کتنی ہی دفعہ منتخب ہونے کا دعوٰی کریں وہ کسی صورت مقتدرہ سے بھاری نہیں ہیں۔ یوں 18ویں ترمیم کو زک پہنچا کر وزارتوں کو صوبوں میں منتقل نہیں ہونے دیا گیا۔

اس کے بعد عمران خان کی حکومت کے دور میں تو یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ اختیارات کو صوبوں کی سطح پر منتقل کر دیا جائے، بلکہ صوبوں کے پاس جو اختیارات تھے وہ بھی واپس لئے گئے جن میں تعلیم اور صحت کے شعبے خاص طور سے شامل ہیں۔ عمران خان نے بھی پوری کوشش کی کسی طرح 18 ویں ترمیم کو ختم کرے ان کے وزیر وقتاً فوقتاً اس آئینی ترمیم کے خلاف بیانات دیتے رہے مگر پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کا گلہ بھی ہر وقت رہا۔ اقتدار سے علیٰحدگی کے بعد عمران خان مسلسل دو تہائی ووٹ حاصل کرنے کا نعرہ بھی اسی لئے دے رہے ہیں کہ 18 ویں ترمیم کو ختم کرسکیں اور اسٹیبلشمنٹ سے اپنی خدمات کا اعتراف کرا سکیں۔

18 ویں ترمیم جس نے غیر آئینی اقدامات اور اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل مداخلت کو روکنا تھا وہ بے اثر ہو کر رہ گئی بلکہ اس نے پارلیمنٹ کے زیردست کام کرنے والے اداروں کے لئے مداخلت کے راستوں کا بہانہ فراہم کر دیا۔ جس میں سیاست دانوں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پر اعلیٰ عدالتوں نے اپنے سائلین یا وکلا کے ذریعے جمہوری عمل میں مداخلت کے لئے پٹیشنز داخل کروائیں۔ اس میں پہل میاں محمد نواز شریف نے کی جب وہ میمو گیٹ اسکینڈلز میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے تاکہ منتخب حکومت کے خلاف عدلیہ کے ذریعے مداخلت کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔

یہ عمل 18ویں ترمیم منظور ہونے کے صرف دو سال بعد کیا۔ اسی طرح رضا ربانی نے ایوان کی منتخب کردہ 18ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے دباؤ میں آ کر 19ویں ترمیم کر دی کیونکہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے دھمکی تھی۔ اس طرح منتخب پارلیمنٹ کی ججوں کی نامزدگی کے اختیارات سے دستبردار ہو کر عدلیہ کو اپنے آئینی معاملات میں مداخلت کا جواز دیدیا۔ پانامہ کیس سب سے بڑی مثال ہے جب عمران خان کے تعاون سے عدلیہ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا پورا موقع فراہم کیا۔

عمران خان سے سپریم کورٹ نے دیدہ دلیری سے کہا کہ ادھر ادھر کہاں دھکے کھا رہے ہو ہمارے پاس آؤ ہم انصاف فراہم کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کا سب طاقتور مضبوط کردار فوج نے بھی جو ہمیشہ سے 18ویں ترمیم اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نیز سیاسی معاملات میں سے فوج کے اخراج کو پسند نہیں کرتی تھی اس کو ڈان لیکس نے اچھا موقع فراہم کر دیا۔ حالانکہ فوج اور اس کی ایجنسیوں نے 18ویں ترمیم کے ساتھ ہی عمران خان کی شکل میں نئی سیاسی قیادت کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ صدر زرداری اس سازش کو نہ سمجھ سکے بلکہ نواز دشمنی میں پنجاب کی سیاست سے دستبرداری کی تاکہ عمران نون لیگ سے مقابلہ کر کے نون لیگ کی طاقت کو کمزور کرے۔

مقتدرہ اور فوج کی پارلیمانی سیاسی میں مداخلت کو ”جائز“ قرار دینے کی لمبی کہانی ہے جس کو یہاں چھوڑ کر کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے حزب اختلاف اور حزب اقتدار کو اتنی خوبصورتی سے اپنا گرویدہ بنا دیا کہ اب تیرہ پارٹیاں ایک طرف اور عمران خان اور ان کے اتحادی دونوں گھوم پھر اس کی زلف کے شکار ہو گئے۔ ‏ پہلے عمران خان فوج پر انحصار کرتے ہوئے اس کی تعریف میں قلابے ملاتے تھے اور نون لیگ اور ان کے اتحادی فوج بالخصوص جنرل باجوہ کو اپنے اقتدار سے ہٹانے جانے کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے پھر بازی ایسی پلٹی گیارہ سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ اور ان کے اعلیٰ عہدیدار دل کو لبھا گئے جبکہ جو بچے تھے جن کی نیپیاں بدلی جاتی تھیں، وہ میر صادق اور میر جعفر ہونے کے طعنے دینے لگ گئے۔

یہ ہے کمال ہماری اسٹیبلشمنٹ کا کہ جسے 18ویں ترمیم کے باعث کنارے پر بٹھا دیا گیا تھا اب وہ پھر سے اور پورے دم خم سے ناخدا بن گئے، عدلیہ جسے اپنے ماضی کے رویوں کے باعث پچھلے قدموں پر جانا تھا اب اپنی دہلیز پر سب کو ماتھا چومنے پر لگا دیا ہے۔ اور 18ویں ترمیم اپنا سا منہ لے کر ایک کونے میں چلی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments