محمد عجیب، پاکستانی نژاد پہلے مسلمان برطانوی لارڈ میئر


محمد عجیب برطانیہ میں 1985 ء میں منتخب ہونے والے پہلے ایشیائی مسلمان لارڈ میئر ہیں۔ ان کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع میرپور کے ایک گاؤں چھترو سے ہے۔ وہ گریجویشن کر کے پچاس کی دہائی کے آخر میں برطانیہ پہنچے۔ بڑی محنت سے اپنا ایک مقام بنایا۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے سیاست کا آغاز کیا اور 1979 میں پہلی دفعہ کونسلر منتخب ہوئے۔ 1985 میں برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ کے پہلے پاکستانی مسلمان لارڈ میئر مقرر کیے گئے۔

ان کی ساری زندگی نسل پرستی، برادری ازم اور رنگ، نسل، مذہب اور برادری کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف جنگ سے عبارت ہے۔ یارکشائر میں بہت اہم عہدوں پر فائز رہے۔ 2001 میں ملکہ برطانیہ نے برطانیہ کے سب سے بڑے سول ایوارڈ کمانڈر آف برٹش ایمپائر سے نوازا۔ اب عملی سیاست سے ریٹائر ہو کر خاندان کے ساتھ بریڈ فورڈ میں سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔

محمد عجیب صاحب سے میری پہلی ملاقات اسی سال جولائی کے وسط میں برطانیہ کے علاقہ یارکشائر میں واقع ڈیل لاجز میں ووکنگ کے ڈپٹی میئر راجہ الیاس خان کی طرف سے ان کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں ہوئی۔ ان سے ملاقات پر میں اپنے آپ کو انتہائی چغد محسوس کر رہا تھا کہ چھ سال تک ان کے آبائی علاقے ڈڈیال میں تعیناتی اور درجنوں بار ان کے آبائی گاؤں چھترو جانے کے باوجود میں ان کے بارے میں اتنا کیوں نہ جان سکا۔ اس تقریب میں ان کی باتیں سنیں تو ان کے بارے میں سب سے پہلا تاثر میرے ذہن میں یہ آیا کہ آپ اپنی کمیونٹی کے ساتھ ثابت قدمی سے جڑے رہنے کی ایک بہترین مثال ہیں۔

پھر ان کے بارے میں ان کے دوستوں کی مرتب کردہ کتاب
THE JOURNEY OF RISING ABOVE THE ORDINARINESS ”( بلندیوں تک کا سفر) پڑھنے کو ملی۔
اپنی عادت کے مطابق پہلے ہی دن میں نے کتاب پڑھ لی۔ کتاب پڑھنے کے بعد اپنے آپ پر دوبارہ افسوس ہوا کہ ایسی عمدہ خصوصیات کی حامل شخصیت سے پہلے ملاقات کیوں نہیں کی۔ مجھے بینک کی اڑتیس سال کی نوکری اور پچاس سالہ ہوشمند زندگی میں بہت بڑی بڑی شخصیات سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان میں سے زیادہ تر شخصیات مجھے بابا فرید شکر گنج ؒ کے اس شعر کی مناسبت سے لگیں جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور تھا۔

کنھ مصلی، صوف گل، دل کا تی گراوٹ
باہر دسے چاننا، دل اندھیاری رات

یعنی بظاہر بڑے پارسا، نیک، بڑی میٹھی زبان لیکن اندر سے دل چھری کی طرح تیز اور باطن سیاہ اور تاریک۔ لیکن مجھے محمد عجیب صاحب کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہی نظر آیا یعنی جو منہ سے کہا اس پر عمل بھی کیا۔ میں ان کے بارے میں لکھی گئی کتاب کا مطالعہ کر چکا تھا۔ ان کی شخصیت کے سب پہلوؤں سے ان کے دوستوں کی رائے اور ان کے کام کی زندگی کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے بارے میں تفصیل سے واقفیت ہو چکی تھی۔ ان کی کتاب پڑھ کر میرے دل میں فوراً یہ خیال آیا کہ ان جیسی شخصیت کے بارے میں بہت پہلے بہت کچھ لکھا جانا چاہیے تھا۔

ان کے بارے میں جو باتیں انگریزی زبان میں لکھی گئی ہیں عام آدمی یا ان کے اپنے آبائی علاقے کے لوگوں کو بھی ان کے بارے میں پتہ چلنا چاہیے۔ اس پر مجھے پہلی دفعہ کسی انگریزی کتاب کا اردو میں ترجمہ کرنے کا خیال آیا۔ گو کہ میری انگریزی میں مہارت واجبی سی ہے لیکن یہ خیال آتے ہی میں نے کتاب کے پہلے دو مضمون اردو میں ترجمہ کیے اور کتاب کے مرتب کنندہ ظفر تنویر سے رابطہ کیا اور انہیں پوچھا کہ میں اس کتاب کا کتاب کا ترجمہ کرنا چاہتا ہوں۔ اسی شام کو مجھے محمد عجیب صاحب کا فون آیا۔ انہیں تعجب تھا کہ مجھے کیسے کتاب کا ترجمہ کرنے کا خیال آیا اور بغیر کسی مالی مفاد کے میں کیسے اس کام کا بیڑہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ترجمہ کیے ہوئے دونوں مضامین پڑھ کر اس کام کو مکمل کرنے کا کام مجھے سونپ دیا۔

ان سے دوسری بالمشافہ ملاقات اسی ماہ بریڈ فورڈ میں ان کے خوبصورت گھر میں ہوئی۔ سہ پہر چار بجے طے شدہ وقت سے چھ منٹ پہلے میرے ان کے گھر پہنچ جانے پر انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کیونکہ ہم پاکستانی وقت کی پابندی میں سب سے پیچھے ہیں۔ اس تفصیلی ملاقات جس میں اشتیاق احمد اور یعقوب نظامی بھی موجود تھے، جو کچھ ان کے دوستوں نے ان کے بارے میں لکھا تھا مجھے وہ اس سے کہیں بڑھ کر مجھے نظر آئے۔ میں نے انہیں انتہائی بردبار، شفیق، سادہ، عاجزی اور انکساری سے بھرپور اور ظاہر باطن ایک رکھنے والی شخصیت جانا اور یہ حقیقت بھی ہے۔

دو گھنٹے پر محیط اس ملاقات میں ان کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں کو قریب سے جاننے اور ان کے خیالات کو سمجھنے کا موقع ملا۔ لاشعوری طور پر میں بھی انہی کے راستے کا پیروکار ہوں۔ انہوں نے برطانوی معاشرے میں مساوات، رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور برادری ازم کے خلاف اپنی تمام کوششیں بروئے کار لاتے ہوئے اس کے خاتمہ کے لئے جنگ لڑی اور راقم نے بھی ایک گدی نشین ہونے کے باوجود خانقاہی نظام کو چھوڑ کر اپنے لئے نئی راہیں متعین کیں اور اسی کی دہائی میں برادری ازم سے بغاوت کرتے ہوئے گاؤں کے ایک پڑھے لکھے شخص کی حمایت کی جس پر گاؤں کی دو بڑی برادریوں کی طرف سے کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن محمد عجیب صاحب کی جدوجہد کے سامنے ہمارا کام تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

وہ یقیناً ایک ذہین اور ہونہار شخص تھے اسی لئے ڈڈیال کی ایک چھوٹی سی ڈھوک سے اٹھ کر انہوں نے اس وقت کے مشرق وسطی کے جدید ترین شہر کراچی میں جا کر اپنا مقام بنایا۔ خود محنت کر کے اپنے آپ کو سنبھالا اور پچاس کی دہائی میں گریجویشن مکمل کی جب میٹرک پاس کر لینا بھی ایک بہت بڑا معرکہ تصور کیا جاتا تھا۔ میں اپنے استاد محترم نذیر تبسم صاحب کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ اگر محمد عجیب پاکستان میں رہتے تو کسی دفتر میں کلرکی کر کے ریٹائر ہو جاتے۔

میرے خیال میں جس ہمت اور حوصلے سے انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اگر وہ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں رہتے تو بھی ان میں موجو د جوش، ولولہ اور زندگی میں کچھ کر جانے کا عزم انہیں سیاست میں ہی نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی کسی بہت بڑے مقام تک ضرور پہنچا دیتا۔ علم کی طاقت کا ادراک انہیں شروع ہی سے تھا جس کی بنا پر نا صرف انہوں نے پاکستان جیسی نوزائیدہ مملکت میں غربت اور نا مساعد حالات کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کے لئے کراچی جیسے دور دراز شہر کا سفر کیا اور اپنے بچوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔

انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ساٹھ کی دہائی کے رنگ و نسل کی بنا پر امتیازی سلوک کرنے والے نسل پرست برطانوی معاشرے میں پاکستانی کشمیری اور دیگر تارکین وطن کے بچوں کو رہائش اور تعلیم کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لئے جدوجہد کی اور ان کے بچوں کے لئے ان کے مذہب اور ان کی ثقافت کی بنا پر تعلیم کا حصول ممکن بنایا۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے برطانیہ کی سیاست میں اپنا ایک مقام بنایا۔

پاکستانی تارکین وطن اور سیاہ فام کمیونٹی کے لئے بہت کام کیا۔ بڑے اچھے عہدوں پر بڑی ایمانداری اور محنت سے کام کیا۔ لیبر پارٹی میں شمولیت کے بعد عملی سیاست میں آئے تو وہ کونسلر بھی منتخب ہوئے اور پہلے ایشیائی مسلمان لارڈ میئر بھی منتخب ہوئے۔ برطانیہ کے دفاع جیسے حساس محکمہ کے مشیر کے طور پر کام کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی کمیونٹی اور برطانوی معاشرے میں خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں ملکہ برطانیہ نے کمانڈر آف برٹش ایمپائر جیسے بڑے اعزاز سے نوازا۔

ان کی مختلف مقامات پر کی گئی تقریروں اور مختلف اخباروں میں چھپے ان کے مضامین کے متن کا بغور مطالعہ کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ برطانیہ یورپ، امریکہ اور پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ خصوصاً برطانیہ میں بسنے والے پاکستانی، کشمیری اور مسلمانوں کے مسائل کا بڑے احسن طریقہ سے تجزیہ کر کے انہیں برادری ازم سے بالا تر ہو کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر برطانیہ کی عملی سیاسی زندگی میں بھرپور شرکت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ ایک پاکستانی کشمیری تارک وطن کی حیثیت سے وہ کسی بھی محب وطن پاکستانی سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اس میں مخلص بھی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان نے کبھی ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ ان کی سیاست جمہوریت پر مبنی رہی ہے اس لئے انہوں نے پاکستان کے آمروں کی حمایت کے سلسلے میں ملنی والی پرکشش پیشکشوں کو ٹھکرا کر اپنے جمہوریت پسند ہونے کا ثبوت دیا۔

وہ پاکستان کی سیاست اور اس کے حالات پر گہری نظر رکھتے رہے ہیں جس کا اظہار ان کے پاکستان پر لکھے گئے مضامین میں پایا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کو درپیش سیاسی اور دوسرے مسائل کی ہمیشہ نہ صرف نشان دہی کرتے رہے ہیں بلکہ ان کا قابل عمل حل بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ مایوسی پھیلانے کی بجائے امید دلاتے ہیں۔ برطانیہ میں اپنی کمیونٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اور پاکستان میں بہتری کے لئے وہ ہمیشہ پر امید نظر آئے ہیں۔ ان کی صحت و سلامتی کے لے ڈھیروں دعائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments