انڈیا آرمینیا کو اسلحہ کیوں فروخت کر رہا ہے؟

دیپک منڈل - نمائندہ بی بی سی


آرمینیا کو انڈیا 2000 کروڑ روپے کے ہتھیار فروخت کرے گا۔ سنہ 2020 میں آرمینیا نے اپنے پڑوسی ملک آذربائیجان کے ساتھ جنگ لڑی تھی لیکن ایک بار پھر دونوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی ہے۔ اس لیے انڈیا کے ساتھ کیا گیا یہ معاہدہ آرمینیا کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

انڈین وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق 2000 کروڑ روپے کے اس سودے کے تحت انڈیا سب سے پہلے آرمینیا کو پیناکا ملٹی بیرل راکٹ لانچر فراہم کرے گا۔ یہ ملٹی بیرل راکٹ لانچر سسٹم انڈین دفاعی ادارے ڈی آر ڈی او نے تیار کیا ہے اور انڈیا اسے پہلے ہی چین اور پاکستان کی سرحد پر تعینات کر چکا ہے۔ پیناکا کا یہ پہلا بین الاقوامی آرڈر ہے۔

آذربائیجان، ترکی اور پاکستان کا گروپ

آذربائیجان کو پاکستان اور ترکی کے ابھرتے ہوئے اتحادی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ آذربائیجان نے آرمینیا کے خلاف جنگ میں بھاری نقصان پہنچانے کے لیے ترکی سے لیے گئے ڈرون کا استعمال کیا تھا۔ اب آذربائیجان پاکستان سے چینی ساختہ جے ایف 17 لڑاکا طیارے خریدنا چاہتا ہے۔

ترکی، آذربائیجان اور پاکستان کے درمیان سنہ 2017 میں ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط ہوئے جس نے تینوں کے درمیان سکیورٹی تعاون کی بنیاد رکھی۔ اس میں تینوں کے درمیان پہلے سے جاری دفاعی معاہدوں کو آگے بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔

گذشتہ سال آذربائیجان نے ترکی اور پاکستان کے ساتھ مل کر سنہ 2020 میں آرمینیا کو 44 روزہ جنگ میں شکست دینے کے بعد ‘تھری برادرز’ یا ‘تین برادران’ فوجی مشق کا انعقاد کیا۔ ترکی، پاکستان اور آذربائیجان کے نئے اتحاد نے تیزی سے انڈیا مخالف موقف اختیار کیا ہے۔

کشمیر پر پاکستان کا موقف دنیا کو معلوم ہے لیکن ترکی نے بھی انڈیا میں آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کی مخالفت کی۔ واضح رہے کہ یہ انڈین آئین کے تحت اس کے زیر انتظام کشمیر کو دی جانے والی خصوصی حیثیت تھی جسے انڈیا نے دو سال قبل کالعدم قرار دیا۔

بہر حال آذربائیجان اور ترکی دونوں نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے۔

اکنامک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق، آذربائیجان اس وقت غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کا چیئرمین ہے۔

آذربائیجان کا انڈیا مخالف موقف

آرمینیا کا سب سے بڑا حامی ملک روس اس وقت یوکرین کی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ حال ہی میں یہ بھی دیکھا گیا کہ ترکی نے بغیر کسی وجہ کے یوکرین کو بیرکتار ٹی بی ٹو ڈرون دیا جس نے کئی روسی ٹینک تباہ کر دیے تھے۔ اس ڈرون کو کافی پذیرائی ملی۔

ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے جبکہ آذربائیجان گیس فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ ترکی آذربائیجان کی گیس سپلائی کو بھی روسی گیس کے متبادل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

انڈیا کے آرمینیا کے مقابلے میں آذربائیجان کے ساتھ مضبوط اقتصادی تعلقات ہیں۔ وہاں کی کئی گیس فیلڈز میں انڈیا کی کمپنی او این جی سی کی سرمایہ کاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کے ترکی اور پاکستان کے قریب جانے کی وجہ سے انڈیا کو آرمینیا کی مدد سے سٹریٹجک توازن قائم کرنے کے لیے یہ پہل کرنی پڑی۔

اس وقت آذربائیجان اور آرمینیا کے تنازع سے انڈیا کو کوئی براہ راست خطرہ نہیں ہے لیکن یہ ترکی اور پاکستان کے درمیان اتحاد کو مضبوط کر رہا ہے۔ ترکی-آذربائیجان-پاکستان اتحاد کی بنیاد اسلامی ہے۔

آرمینیا کا سب سے بڑا حامی روس اس وقت یوکرین کی جنگ میں مصروف ہے۔ اس لیے اس علاقے میں سٹریٹجک توازن کے لیے انڈیا آرمینیا کو ہتھیار فروخت کرنا چاہتا ہے۔

انڈیا آرمینیا کو اسلحہ کیوں فروخت کر رہا ہے؟

آرمینیا کو ہتھیاروں کی فراہمی کے انڈیا کے فیصلے کو سمجھنے کے لیے، بی بی سی نے سینیئر سٹریٹجک اور سکیورٹی تجزیہ کار میجر جنرل ایس بی استھانہ سے بات چیت کی۔

مسٹر استھانہ نے کہا: ‘انڈیا کا فیصلہ اقتصادی اور اسٹریٹجک دونوں نقطہ نظر سے اہم ہے۔ پہلے انڈیا ہتھیار نہیں بناتا تھا۔ ہتھیاروں کی تیاری میں صفر سے شروع ہونے والا انڈیا اب اسے برآمد کرنے کی پوزیشن پر پہنچ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلحے کی برآمد سے اس کی دفاعی صنعت مضبوط ہوتی ہے۔ اس سے زرمبادلہ حاصل کیا جائے گا اور اس طرح انڈیا کا غلبہ بھی بڑھے گا۔

یہ بھی پڑھیے

آذربائیجان، آرمینیا تنازع: ’پاکستان کشمیر پر حمایت کے بدلے ترکی کا احسان چکا رہا ہے؟‘

کیا ایران اور آذربائیجان کا پرامن رشتہ صرف فوجی مشقوں کے باعث کشیدگی کا شکار ہے؟

انڈیا کی میزائلوں اور لیزر گائیڈڈ بموں سے لیس ڈرون حاصل کرنے کی بھرپور کوششیں

انڈین جنگی سازو سامان

میجر جنرل استھانہ کہتے ہیں: 'ہتھیاروں کی صنعت ایک بہت منافع بخش صنعت ہے۔ اس میں مواقع بہت ہیں کیونکہ امریکی ہتھیار بہت مہنگے ہیں۔ روس کی پیداوار اس وقت کمزور ہے اور چینی ہتھیاروں کی افادیت کا مسئلہ ہے۔ اگر انڈیا پرائیوٹ اور پبلک پارٹنرشپ کے ذریعے ہتھیاروں کی تیاری پر زور دیتا ہے تو اس کے پاس اس کی بہت اچھی صلاحیت ہے۔‘

میجر جنرل استھانہ بھی اس معاہدے کی سٹریٹیجک اہمیت کی وضاحت کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘پاکستان اور ترکی نے مل کر آذربائیجان کی بہت مدد کی ہے۔ یہ ممالک وقتاً فوقتاً انڈیا مخالف موقف اپناتے رہے ہیں۔ دوسری طرف آرمینیا کی مدد کرنے والے ممالک بہت کم ہیں۔ ابھی وہ دباؤ میں ہے۔ اگر انڈیا، آرمینیا کی مدد کرتا ہے تو اس کا غلبہ بڑھے گا اور اس کا سٹریٹجک قد بڑھے گا۔‘

’ایسی صورتحال میں انڈیا ایک قابل اعتماد سٹریٹجک دوست کے طور پر ابھرے گا جو اس کی شبیہ کو مضبوط کرے گا۔ آرمینیا کو ہتھیار دینے کا فیصلہ اقتصادی اور سٹریٹیجک دونوں لحاظ سے انڈیا کے لیے اہم ہے۔‘

پانچ سالوں میں 35 ہزار کروڑ کے ہتھیار فروخت کرنے کا ہدف

پیناکا پہلی بار کسی بھی ملک کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ آرمینیا ماضی میں بھی انڈیا سے فوجی ساز و سامان خریدتا رہا ہے۔ سنہ 2020 میں آرمینیا نے آذربائیجان کے ساتھ جنگ میں انڈیا سے ہتھیاروں کا پتہ لگانے والا ریڈار ‘سواتی’ خریدا تھا۔

گذشتہ مالی سال (2021-22) کے دوران انڈیا کی اسلحہ اور فوجی ساز و سامان کی برآمدات 13,000 کروڑ روپے تک بڑھ گئیں۔

سنہ 2020 میں مودی حکومت نے پانچ سالوں کے دوران 35,000 کروڑ روپے کے ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کی برآمد کا ہدف مقرر کیا تھا۔ حکومت 2025 تک دفاعی مینوفیکچرنگ کو 1.75 لاکھ کروڑ روپے تک لے جانا چاہتی ہے۔

رواں سال جنوری میں انڈیا نے فلپائن کو براہموس میزائل فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس وقت انڈیا دنیا کے 75 ممالک کو فوجی ساز و سامان فروخت کرتا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments