گم شدہ جسم


کہیں دور سے کوئی آواز آ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ڈھول پیٹ رہا ہو۔ ”نہیں شاید یہ ڈھول نہیں ہے، کچھ اور ہے۔“ اس نے غنودگی کے عالم میں سوچا۔ اگر یہ ڈھول نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ شاید کوئی لوہار لوہا کوٹ رہا ہے۔ نہیں یہ لوہار بھی نہیں ہے۔ اس نے سوچا۔ آواز میں شدت آ گئی۔ اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔ اب وہ مکمل طور پر بیدار ہو چکا تھا۔ کوئی زور زور سے اس کے بیڈ روم کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ اس نے سامنے دیوار پر لگے وال کلاک پر نگاہ ڈالی۔ کچھ دھندلا نظر آ رہا تھا، اس نے آنکھیں مل کر دیکھا نو بج رہے تھے۔ دروازے پر ایک بار پھر دستک دی گئی۔

”آتا ہوں، ذرا صبر تو کرو۔“ اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے زور سے کہا۔ اچانک اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے پر پڑی۔ وہ بری چونکا اور دروازے کی طرف بڑھتے قدم رک گئے۔ آئینے میں اسے ایک نامانوس شخص نظر آیا تھا۔ دروازے کی طرف بڑھنے کے بجائے وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھا اور عکس کو غور سے دیکھنے لگا۔ دکھائی دینے والا شخص ستر برس کا رہا ہو گا۔ اس کا جسم دبلا پتلا تھا۔ چہرے پر جھریاں تھیں۔ سر کے بال کافی حد تک اڑ چکے تھے۔ بچے کھچے بال برف کی مانند سفید تھے۔ وہ کانپ کر رہ گیا۔ یہ شخص کون ہے؟ اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ ہاتھ کی پشت پر رگیں ابھری ہوئی تھیں۔ اس نے دروازہ کھولنے کا ارادہ موقوف کر دیا۔ ایک بار پھر کسی نے دستک دی۔ ”دروازہ کھولو“ کسی عورت کی آواز سنائی دی۔

”تھوڑی دیر انتظار کرو۔“ اس نے چیخ کر کہا۔ زور سے بولنے کی وجہ سے اسے کھانسی آ گئی۔ اس دوران باہر سے کچھ کہا گیا۔ ”میں نے کہا نا تھوڑی دیر بعد دروازہ کھولتا ہوں۔“ اس نے کھانسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

”آخر آپ کر کیا رہے ہیں؟“ باہر سے پوچھا گیا۔

”بتاتا ہوں، کچھ دیر ٹھہر جاؤ۔“ وہ صورت حال پر غور کرنا چاہتا تھا۔ وہ گزری ہوئی رات کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے ٹھیک سے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔ اس نے کمرے میں چاروں طرف نگاہیں گھمائیں۔ دیوار پر لگی تصویر دیکھ کر اس نے ایک گہری سانس لی۔ یہ فیملی فوٹو تھی۔ یہ تصویر اس نے چند ماہ پہلے ہی بنوائی تھی۔ صوفے پر وہ اور اس کی بیوی درمیان میں بیٹھے تھے اور دائیں بائیں اس کی بیٹی اور بیٹا تھا۔ اسے یاد آیا کہ یہ اس کی بیوی کی خواہش تھی کہ ان کے بیڈ روم میں فیملی فوٹو ہو اور تصویر بنوانے کے لیے وہ ایک اسٹوڈیو میں گئے تھے۔ تصویر میں تیس برس کا جوان آدمی تھا جس کے سر پر گھنے سیاہ بال تھے۔ جسم فربہی مائل تھا۔ اس کے بائیں جانب متناسب جسم والی اس کی خوب صورت بیوی تھی۔ دائیں جانب اس کی چار سالہ گول مٹول بیٹی تھی اور بیوی کے ساتھ اس کا سات برس کا دبلا پتلا بیٹا بیٹھا تھا۔

اس نے گزشتہ چند روز اور خاص طور پر گزری ہوئی رات کے بارے میں سوچا۔ وہ ایک دفتر میں کلرک کے طور پر کام کرتا تھا۔ اسے یاد آیا کہ اس کا سخت گیر باس ان دنوں بہت زیادہ کام دے رہا تھا۔ وہ اور اس کے ساتھی کلرک، ہیڈ کلرک کے دفتر میں بیٹھ کر باس کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ باس کو چند مہینے پہلے ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ اس کی انجیو گرافی ہوئی تھی اور چند دن بعد ہی وہ صحت یاب ہو کر واپس آ گیا تھا۔ ہارٹ اٹیک نے باس کا کچھ نہیں بگاڑا تھا وہ اسی تند مزاجی کے ساتھ ان سے کام لیتا تھا۔

کام بہت زیادہ تھا اور تنخواہیں بہت کم تھیں۔ مشکل یہ بھی تھی کہ پرائیویٹ ادارہ تھا۔ گورنمنٹ جب تنخواہ بڑھاتی تھی تو ادارہ ان کی تنخواہ نہیں بڑھاتا تھا۔ انھوں نے کئی بار باس سے بات کی تھی لیکن باس کے پاس ہزار دلائل ہوتے تھے کہ تنخواہ کیوں نہیں بڑھائی جا سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر بار ایسی درخواست کے بعد سختی کچھ اور بڑھ جاتی تھی۔

اسے یاد آیا کہ گزشتہ روز دفتر میں کام کے دوران باس کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ باس کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ شام کو پانچ بجے دفتر سے چھٹی کے بعد اس کے ساتھی کلرک نے کہا تھا کہ باس کی عیادت کے لیے جاتے ہیں مگر اس کی بیٹی کی سالگرہ تھی۔ اس نے منع کر دیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ جس ہسپتال میں باس کا علاج ہو رہا تھا وہ اس کے گھر سے خاصی دور پڑتا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ کل چلے جائیں گے آج گئے تو بیٹی کی سالگرہ کا پروگرام درہم برہم ہو جائے گا۔

اس نے اپنی بیوی بچوں سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ دفتر سے واپسی پر وہ کیک لے کر گھر آئے گا۔ اس نے اس پارٹی میں اپنے پڑوسی اور دوست مرزا صاحب کی فیملی کو بھی بلایا ہوا تھا۔ وہ سب گھر میں اس کے منتظر ہوں گے۔ لیکن اس کا ساتھی کلرک نہیں مانا تھا۔ اصرار کر کے اسے ساتھ لے گیا تھا۔ وہ کیک لے کر تین گھنٹے کی تاخیر سے گھر پہنچا تھا۔ اس نے بچوں اور مرزا صاحب کو تو منا لیا تھا لیکن بیوی کا موڈ بگڑا ہوا تھا۔ ان کے درمیان خاصی تو تو میں میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ سو گیا تھا۔

اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ صبح اٹھتے ہی یہ افتاد آن پڑے گی۔ گزشتہ روز پیر تھا، دفتر کا پہلا دن تھا۔ یہ یاد آتے ہی وہ اچھل پڑا۔ اف آج منگل ہے اور دفتر پہنچنے کا وقت صبح آٹھ بجے ہے جب کہ اس وقت سوا نو بج رہے تھے۔ لیٹ جانے کی صورت میں اس کی ایک دن کی تنخواہ کٹ سکتی ہے۔ اس نے ایک بار پھر آئینے میں دیکھا۔ اس پر عجیب سی جھنجھلاہٹ طاری ہو گئی۔ میں کیسے دفتر جا سکتا ہوں۔ میرے ساتھ یہ کیا واقعہ ہوا ہے۔ میرا جسم کدھر ہے؟ دروازے پر پھر دستک دی گئی۔

”خدارا دروازہ تو کھولیں، آپ دروازہ کیوں نہیں کھول رہے۔“ اس کی بیوی کی آواز سنائی دی۔
”کھول دوں گا بس تھوڑا سا وقت اور دے دو۔“
”آپ ٹھیک تو ہیں؟“

”میں بالکل ٹھیک ہوں تم فکر نہ کرو۔“ اس نے آواز لگائی پھر آئینے میں دیکھ کر آہ بھری۔ میں کہاں ٹھیک ہوں۔ میرا جسم گم ہو گیا ہے۔ میں باہر نکلوں گا تو میری بیوی مجھے پہچان نہیں سکے گی۔ میرے بچے بھی مجھے نہیں پہچانیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ ڈر جائیں۔ میں انہیں کیا بتاؤں گا کہ میرا جسم کہاں ہے؟ میری بیوی میری بات سننے کے بجائے شاید پولیس کو بلا لے گی۔ میرے خلاف رپورٹ درج کروائے گی کہ میں نے اس کے خاوند کو کہیں غائب کر دیا ہے اور اس کے گھر میں گھس آیا ہوں۔

اس نے سوچا کہ باقی باتیں بعد میں ہو سکتی ہیں پہلے دفتر میں فون کر دینا چاہیے کہ میری طبیعت خراب ہے اور میں آج دفتر نہیں آ سکتا لیکن فون کیسے کروں۔ گھر میں لینڈ لائن تو ہے مگر فون لاؤنج میں ہے۔ لاؤنج میں جانے کے لیے بیڈ روم کا دروازہ کھولنا ہو گا اور دروازے کے باہر اس کی بیوی ہوگی۔ وہ فون بھی نہیں لگوانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں یہ فالتو خرچ تھا لیکن باس کا آرڈر تھا کہ فون لازمی ہے تا کہ وہ کسی بھی وقت کام کے لیے بلا سکے۔ کئی بار اسے چھٹی کے روز بھی بلا لیا جاتا تھا مگر ایکسٹرا ٹائم کے پیسے شاذ و نادر ہی ملتے تھے۔

وہ آئینے کے قریب چلا گیا اور نہایت غور سے اس اجنبی جسم کو دیکھنے لگا۔ وہ اس بوڑھے جسم کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ خاص طور پر وہ چہرہ دیکھ رہا تھا لیکن زیادہ دیر تک دیکھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اس نے نگاہیں پھیر لیں۔ اچانک اسے خیال آیا کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ اس نے ابھری ہوئی رگوں والے بوڑھے ہاتھ کی طرف دیکھا اور جسم پر چٹکی بھری مگر کچھ بھی نہ بدلا۔ دو تین بار چٹکی بھری کچھ بھی نہ ہوا۔ اف اب کیا کروں۔ اگر یہ خواب ہے تو میری آنکھ کیوں نہیں کھل رہی۔ کاش اب یہ خواب ختم ہو جائے اور مجھے میرا جسم واپس مل جائے۔ وہ تھکے تھکے انداز میں چلتے ہوئے پیچھے ہٹا اور بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے۔ ”اے رب کریم یہ کن گناہوں کی سزا ہے۔“ وہ بڑبڑایا۔

کئی لمحوں تک وہ ساکت بیٹھا رہا۔ دروازے پر ایک بار پھر ہلکی سی دستک ہوئی۔ اس نے ایک گہری سانس لی جیسے کسی نتیجے تک پہنچ گیا ہو پھر اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازے کے قریب جا کر اس نے اپنی بیوی کو آواز دی۔

”سنو! کیا تم میری آواز سن رہی ہو؟“
”جی سن رہی ہوں۔ خدا کے لیے بتائیے کہ کیا مسئلہ ہے؟“ اس کی بیوی کی آواز سنائی دی۔
”میں ایک بہت عجیب مشکل میں پھنس گیا ہوں۔“
”خدا خیر کرے۔ کیا ہوا ہے جلدی بتائیے۔“ اس کی بیوی کی گھبرائی ہوئی آواز آئی۔
”میں۔ مم۔ میرا جسم کھو گیا ہے۔“ اس نے ہکلا کر کہا۔

”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔“
”سمجھنے کی کوشش کرو۔ میری روح کسی اور جسم میں ہے اور میرا جسم دکھائی نہیں دے رہا۔“
”آپ فوراً دروازہ کھولیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں۔“

”مجھے دیکھ کر تم اور ڈر جاؤ گی۔ پہلے میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں خود اپنے آپ کو پہچان نہیں پا رہا تم کیسے پہچانو گی۔ دیکھو مسئلہ یہ ہے کہ میرا جسم گم ہو گیا ہے اور میں اسے کیسے تلاش کروں۔“

”آپ پتا نہیں کیا کہہ رہے ہیں اگر کچھ گم ہو گیا ہے تو ہم پولیس میں رپورٹ درج کروا دیتے ہیں وہ ڈھونڈ لیں گے۔“

”تم واقعی کچھ نہیں سمجھ رہی ہو۔ کوئی چھوٹی موٹی چیز گم نہیں ہوئی میرا جسم گم ہو گیا ہے۔“ اس نے جھنجھلا کر کہا۔

”مجھے کچھ نہیں پتا بس آپ دروازہ کھول دیں۔“

”میں نہیں کھول سکتا۔“ اس نے صاف انکار کر دیا۔ اس بار اس کی بیوی نے دروازہ کھولنے کے لیے فریاد نہ کی۔ چند لمحے خاموشی رہی پھر اس کی بیوی کی سسکیاں سنائی دینے لگیں۔

”تم رو رہی ہو؟“ اس نے بے قرار ہو کر پوچھا۔
”آپ سن نہیں رہے۔ ہاں میں رو رہی ہوں۔“ اس کی بیوی کی رندھی ہوئی آواز آئی۔
”اچھا میں دروازہ کھولتا ہوں لیکن بچوں کو کچھ نہ بتانا۔ بچے کہیں تمہارے آس پاس تو نہیں ہیں۔“
”نہیں میں اکیلی ہوں آپ دروازہ کھولیں“

اس نے لرزتے ہاتھوں سے دروازے کے ہینڈل کو پکڑا پھر آہستگی سے لاک کھول دیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آ گیا۔ اس نے ہینڈل پکڑ کر دروازہ اندر کی طرف کھولا۔ اس کی بیوی یک دم اس سے لپٹ گئی۔ وہ اس وقت شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے آنکھیں کھولیں۔ یک دم اسے احساس ہوا کہ اس سے لپٹی ہوئی عورت اس کی بیوی نہیں ہے۔ وہ چونک اٹھا۔ اس نے فوراً اس عورت کو پیچھے ہٹایا۔ دبلی پتلی سی عورت کے بال سفید تھے وہ عمر رسیدہ عورت اس کی بیوی کیسے ہو سکتی تھی۔

”کون ہو تم؟“

”اب آپ مجھے بھی پہچاننے سے انکار کر رہے ہیں۔ میں آپ کی بیوی ہوں۔“ بوڑھی عورت نے شکایتی انداز میں کہا۔

”نہیں میں اپنی بیوی کو اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ میرے بچے کہاں ہیں؟“ اس نے تیزی سے کہا۔ ایک بار پھر اسے کھانسی آ گئی۔

”آپ کا بیٹا دفتر گیا ہے۔ آپ کی جگہ اب وہی تو کام کر رہا ہے اور آپ کی بیٹی اپنے میاں کے ساتھ اپنے گھر میں ہے۔“

”تم جھوٹ بول رہی ہو۔ میرا بیٹا تو سکول میں ہو گا مگر بیٹی کہاں ہے؟“

”اچھا آپ بیٹھ جائیں۔“ بوڑھی عورت اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے لاؤنج میں لے آئی پھر پرانے سے صوفے پر اسے بٹھا دیا۔ پانی کا گلاس بھر کر اسے دیا۔

”پانی پئیں“ اس نے چپ چاپ گلاس پکڑ لیا۔ بوڑھی عورت نے ٹیلی فون کا رسیور اٹھا کر کوئی نمبر ڈائل کیا اور آہستہ آواز میں باتیں کرنے لگیں لیکن وہ اس کی باتیں سن رہا تھا۔

”بیٹا آج جلدی گھر آ جانا۔ تمہارے ابو بہت بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ تمہیں تو پتا ہے انھوں نے ساری زندگی بہت محنت کی ہے کبھی ایک لمحہ آرام نہیں کیا۔ ہمارے ساتھ بھی وقت نہیں گزارا۔ میرا دل چاہتا ہے شام کو ہم کسی پارک میں جائیں اور باہر سے کچھ کھائیں۔ اتنے پیسے ہوں گے ناں تمہارے پاس۔ ٹھیک ہے بیٹا جلدی آنا۔“

وہ سوچنے لگا کہ یہ بوڑھی عورت مدد کے لیے اپنے بیٹے کو بلا رہی ہے اور مجھے بے وقوف بنانے کے لیے کہانی گھڑ رہی ہے۔ مگر میں کیا کروں۔ میری فیملی کدھر ہے؟ اور میرا جسم کہاں گیا؟ مجھے سب سے پہلے تو اپنا گم شدہ جسم تلاش کرنا چاہیے۔ اس نے گلاس سے دو گھونٹ پانی پیا اور گلاس میز پر رکھ دیا پھر گہری سانس لے کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments