عمران خان کے جھوٹ کا پردہ فاش کیا جائے!


واشنگٹن سے آنے والے سفارتی مراسلہ کے بارے میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ایک نئی آڈیو لیک کے بعد وفاقی کابینہ نے مطلع کیا ہے کہ اس مراسلہ کی اصل کاپی وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے ریکارڈ سے غائب ہے۔ حکومت نے اسے ’ناقابل معافی مجرمانہ فعل‘ قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ نئی آڈیو میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اس مراسلہ کو من پسند معنی پہنا کر سیاسی طور سے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہے تھے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے ان دونوں انکشافات کے بعد اس معاملہ پر متعلقہ لوگوں کے خلاف آئین کی شق 6 کے تحت مقدمہ قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔ سیاسی تصادم کے موجودہ ماحول میں اس قسم کی تجویز اور سرکاری حلقوں میں اس کی پذیرائی کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہوگی۔ لیکن حکومت اور اس کے اراکین کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا کہ ملک میں سیاسی معاملات طے کرنے کے لئے غداری کی شق کا حوالہ دینا ناجائز اور ناقابل قبول طریقہ کار ہے۔

اول تو کسی بھی سیاسی لیڈر یا پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاسی حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے۔ عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر اگر غداری کا مقدمہ قائم کر کے ان کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کا خواب دیکھا جائے گا تو یہ ویسا ہی ناقابل قبول اقدام ہو گا جس کا الزام موجودہ حکومت میں شامل لوگ سابقہ حکومت پر عائد کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ رہا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں سیاسی مخالفین سے نمٹنے کے لئے ناجائز اور جھوٹے مقدمے قائم کیے گئے اور سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے انہیں طویل مدت تک کے لئے جیلوں میں بند کیا گیا۔ خاص طور سے گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں بری کرنے کے بعد اس دعوے کو سچ پر مبنی قرار دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔

سیاسی بنیاد پر مخالفین کو عتاب کا نشانہ بنانے کا طریقہ تب ہی ختم ہو سکتا ہے اگر کوئی حکومت کسی مثبت روایت کا آغاز کرے۔ موجودہ حکومت میں تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی اہم ترین سیاسی پارٹیاں شامل ہیں۔ اس لئے اگر یہ حکومت اپنے شدید سیاسی مخالف کے ساتھ متوازن اور قانون کی مقررہ حدود میں رہتے ہوئے معاملہ کرتی ہے تو اسے سیاسی تلخی کم کرنے کے نقطہ نظر سے ایک مناسب اور مثبت پیش رفت سمجھا جائے گا۔ اگرچہ یہ امکان بھی موجود ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف اسے حکومت کی کمزوری اور بودا پن قرار دیتے ہوئے، یہ سمجھنے کی غلطی کریں کہ حکومت ان سے خوف زدہ ہے۔

تاہم ملک میں بدلتے ہوئے حالات اور نت نئے انکشافات کے بعد اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ بہت سی درپردہ باتیں منظر عام پر آنے سے عمران خان کے سیاسی گولہ بارود میں قابل ذکر کمی واقعہ ہوگی۔ اب انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنے اور یہ بتانے کی ضرورت ہوگی کہ انہوں نے ایک سفارتی مراسلہ کی بنیاد پر کس حد تک قومی مفاد کے خلاف سازش کی اور ایسا غیر ضروری ہیجان پیدا کیا جس سے نہ صرف قومی سلامتی کو خطرہ پیدا ہوا، آئینی طریقے سے قائم ہونے والی حکومت کو ناجائز کہنے کا تاثر قائم کیا گیا اور دنیا کی سپر پاور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو داؤ پر لگانے کا خطرہ مول لیا گیا۔ پاکستان کے لئے امریکہ کے ساتھ تعلقات یوں بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں کہ امریکہ پاکستانی مصنوعات کا سب سے بڑا گاہک ہے۔ واشنگٹن اگر پاکستان سے محض درآمدات بند کرنے کا اعلان ہی کردے تو ملک کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تاہم یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکرٹری اور چند وزرا کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے جو آڈیو کلپس منظر عام پر آئے ہیں ان میں کی جانے والی باتیں سنگین مجرمانہ سرگرمی کا اشارہ دیتی ہیں۔ حکومت یا ملکی سیاسی قیادت سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کے ساتھ حساب بیباک کرنے کے لئے انتظامی اختیارات استعمال کرنے سے گریز کرے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ اگر کوئی سیاسی لیڈر ملکی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کی کسی غیر قانونی حرکت کی وجہ سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچتا ہے تو اس سے معمول کے نظام قانون کے مطابق جواب طلب نہیں کیا جاسکتا۔

یہ تو ضروری ہے کہ وزرا اور سیاسی لیڈر جوش بیان میں ہر وقوعہ کو غداری قرار دے کر اس پر کارروائی کرنے جیسے بیانات داغنے سے گریز کریں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی اہم ہے کہ اگر سابق وزیر اعظم، وزرا یا کسی سرکاری اہلکار نے جان بوجھ کر اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے سیاسی مقاصد کے لئے قانون شکنی کا ارتکاب کیا ہے تو اس کی گرفت کی جائے۔ البتہ سیاسی قیادت اس عمل سے خود کو دور رکھے اور ملک کے استغاثہ و عدالتی نظام کو ایسی کسی بھی قانون شکنی کے خلاف ضروری کارروائی کرنے دے۔

وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ کرنا اور اسے عام کرنا بھی ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے حال ہی میں متعدد آڈیو کلپس سامنے آنے پر ضروری قدم اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی نے ایسی ریکارڈنگ اور اسے عام کرنے والے عناصر کا سراغ لگانے کے لئے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ یہ کمیٹی صرف شہباز حکومت کے دور میں ہونے والی غیر قانونی ریکارڈنگ کا ہی جائزہ نہیں لے گی بلکہ سابقہ دور حکومت کی جو آڈیو کلپس سامنے آئی ہیں، ان کے بارے میں بھی کسی تعصب کے بغیر یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کون سے عناصر یہ گفتگو ریکارڈ کرتے رہے تھے اور کیا وجہ ہے کہ انہیں اب عام کیا جا رہا ہے۔

ناجائز آڈیو ریکارڈنگ اور وزیر اعظم ہاؤس اور اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز لوگوں کی غیرقانونی نگرانی کو مسترد کرنے کا البتہ یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ حال ہی میں سامنے آنے والی آڈیو لیکس میں سنسنی خیز اور ملکی مفاد کے خلاف جو معلومات سامنے آئی ہیں، انہیں نظر انداز کر دیا جائے اور متعلقہ لوگوں سے ان کے غیرقانونی عمل کی جواب دہی نہ کی جائے۔ سفارتی مراسلہ کے حوالے سے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے دو آڈیو کلپس سامنے آئے ہیں۔

ان میں واضح طور سے جانا جاسکتا ہے کہ عمران خان معمول کے ایک خفیہ سفارتی مراسلہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ حتی کہ اس منصوبہ میں ایک متحرک سرکاری افسر یعنی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ مل کر اس معاملہ سے بالکل بے خبر ایک سرکاری افسر سیکرٹری امور خارجہ سہیل محمود کو استعمال کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ عمران خان کی سامنے آنے والے دونوں آڈیو کلپس سننے کے بعد حالات کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے : وزیر اعظم اپنے پرنسپل سیکرٹری کو کہتے ہیں کہ سفارتی مراسلہ یا سائفر سے ہم نے کھیلنا ہے اور اسے اپوزیشن کے خلاف استعمال کرنا ہے لیکن کسی ملک کا نام نہیں لینا۔

دوسری آڈیو کی گفتگو میں اعظم خان کے علاوہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر بھی شامل ہیں۔ اس میں عمران خان اپنے وزیر خارجہ کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے چار افراد کی ایک میٹنگ منعقد کرنی ہیں۔ اس میں عمران خان، اعظم خان، شاہ محمود قریشی اور سیکرٹری خارجہ شریک ہوں گے۔ پروگرام کے مطابق سہیل محمود سے سفارتی مراسلہ پڑھنے کے لئے کہا جانا تھا اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے اس میٹنگ کی منٹس لکھنے تھے۔ اور اس ٹرانسکرپٹ کو سائفر کا پیغام بنا کر جلسوں میں استعمال کرنا مقصود تھا۔ یعنی منٹس میں ایسی باتیں شامل کرنے کی سازش کی گئی کہ جو درحقیقت اصل مراسلہ میں موجود ہی نہیں تھیں۔ واضح رہے قومی سیکورٹی کمیٹی دو مرتبہ یہ واضح کرچکی ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی تھی۔

یہ معلومات اگرچہ ’غیر قانونی ریکارڈنگ‘ کے ذریعے منظر عام پر آئی ہیں لیکن یہ سنگین اور قومی مفادات کو داؤ پر لگانے والی معلومات ہیں۔ عدم اعتماد کے بعد عمران خان نے سائفر کو اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا اور پاکستانی عوام کی بڑی اکثریت کو یہ ماننے پر آمادہ کیا کہ موجودہ حکومت سیاسی صورت حال تبدیل ہونے کی وجہ سے کسی آئینی طریقہ کار کے تحت وجود میں نہیں آئی تھی بلکہ اسے امریکہ نے ایک سازش کے ذریعے مسلط کیا تھا۔

جوش خطابت میں عمران خان ملکی عسکری اداروں پر الزام لگاتے رہے ہیں انہوں نے یہ غیر ملکی سازش ناکام بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ان آڈیوز میں بات کرنے والے تمام افراد چونکہ بقید حیات ہیں، اس لئے قومی مفاد اور قانونی نقطہ نظر سے ضروری ہو گا کہ ان سے اس سلسلہ میں حلفاً دریافت کیا جائے کہ سفیر اسد مجید کے سائفر اور اسے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرنے کے بارے میں کیا بات چیت کی گئی تھی۔ خاص طور سے اس معاملہ میں دو افراد اعلیٰ سرکاری افسر ہیں۔ انہیں اپنے عہدے کے حلف کے تحت تمام معلومات کسی با اختیار تحقیقاتی ٹیم یا عدالت کو بتانا ہوں گی۔ اسی طرح عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ معاملہ پر بیان حلفی جمع کروائیں یا کسی با اختیار جوڈیشل اتھارٹی کے سامنے بیان ریکارڈ کروائیں۔

عمران خان نے سفارتی مراسلہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اب اس کا اعتراف بھی سامنے آ چکا ہے۔ اپریل میں یہ معاملہ سامنے آنے کے فوری بعد راقم الحروف نے انہیں سطور میں شہباز حکومت سے کہا تھا کہ وہ اس معاملہ کو حتمی انجام تک پہنچائیں۔ یا تو اس کی عدالتی تحقیقات کے بارے میں تحریک انصاف کے مطالبے کو پورا کیا جائے یا امریکہ کے ساتھ مواصلت کے بعد اسد مجید اور ڈونلڈ لو کی ملاقات کا سرکاری ٹرانسکرپٹ اور سفارتی مراسلہ پبلک کیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ حکومت نے البتہ اسد مجید کو قومی سلامتی کمیٹی میں بلا کر اور ان کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد اس معاملہ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عمران خان اسے مسلسل رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور اپنے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال کرتے رہے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان نے اپنا ایک ایسا فین کلب بنا لیا ہے جو آنکھیں بند کر کے ان کے ہر جھوٹ کو تسلیم کرنے اور اس پر یقین کرنے پر راضی ہوتا ہے لیکن یہ صورت حال تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ تمام معلومات سامنے آنے اور حقائق کی مصدقہ تصویر میں پاکستانی عوام کو عمران خان کے جھوٹ سچ کو پرکھنے کا موقع ملے گا۔ اسی لئے اس معاملہ کو سیاسی پنجہ آزمائی کی بجائے قانونی اور عدالتی طریقہ کار کے تحت انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments