پارٹی کے جیالے اپنی پارٹی کو بچائیں


دوسری پارٹیوں میں کیا ہوتا ہے کیا نہیں۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو چاہیے کہ جو بھی بندہ سرکاری عہدے پر فائز ہے اس کو بالکل بھی پارٹی کا عہدہ نہ دیا جائے۔ کوئی مشیر کوئی وزیر کوئی سینیٹر ایسے لوگوں کو پارٹی کا کوئی عہدہ نہ دیا جائے سینیئر وائس چیئرمین سے لے کر نیچے لیول تک اس تجویز پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے درج ذیل فائدے پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے ورکرز اٹھا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان پیپلز پارٹی اپنی پارٹی میں ایسا قانون بنا سکتی کہ ایک بندہ دو عہدے نہیں رکھ سکتا اور پارٹی کو حکومت سے الگ رکھنا تو اس سے بہت زیادہ نئے چہرے پارٹی کی خدمت کے لئے سامنے آ جائیں گے اور نئے چہروں کو بھی اپنی کارگردگی دکھانے کا موقع میسر ہو گا۔

پارٹی یونین کونسل لیول تک اپنی تنظیمی ڈھانچے کو مکمل مضبوط کرنے میں آسانی سے کامیاب ہو جائے گی۔ ورکرز اور جیالوں کی اپنی مقامی قیادت تک رسائی یقینی ہو گی۔ پارٹی کے عہدے دار الگ اور ٹکٹ ہولڈر الگ الگ اپنے حلقوں میں بہتر وقت دے پائیں گے۔ اسی طرح ایک بندے کو دو عہدے دینے سے پارٹی مسائل اور گروپ بندی کا شکار ہوتی ہے۔ جو کہ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر مامور ہے۔ ایک ممبر اسمبلی، وزیر، مشیر، سپیکر یا کوئی سینٹ میں اپنی ذمہ داری نبھانے والا پارٹی کا نمائندہ اسمبلی کے اجلاس سے کیسے غیر حاضر رہ سکتا ہے؟

اگر وہ اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس سے غیر حاضر ہوتا ہے تو بھی پارٹی کا نقصان اور اگر ممبر اسمبلی یا کوئی سینیٹر یا سپیکر وغیرہ اپنے حلقوں میں یا اپنے عہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام و اپنے ورکرز جیالوں کے مسائل کے لئے ان سے رابطہ نہیں کرتا تو اس صورت میں بھی پارٹی کا نقصان۔ اگر یہ ممبر اسمبلی چھٹی والے دن اپنے علاقوں میں بھی جائیں تو عوام کو دیکھیں یا گھر کو؟ ہماری پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ پورا نہ ہونے کی ایک واضح وجہ یہ ہی ہے کہ کوئی بھی عہدے دار اپنے عہدے کو مکمل وقت نہیں دے پاتا اور پھر ہم اس کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو کیسے ٹھہرا سکتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر انقلابی تنظیمی اصلاحات نہ کی گئی تو ہماری پارٹی ہماری زندگی میں کبھی اقتدار میں نہیں آ سکتی جوڑ توڑ کے ساتھ بھی اب بہت مشکل ہے بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنوانا کیونکہ نون لیگ والے بھی بہت بڑے خلائی مخلوق کے پٹھوں ہیں اس لیے یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو کو چاہیے کہ یوسف رضا گیلانی سے لے کر راجہ پرویز اشرف تک قمر زمان کائرہ سے لے کر حسن مرتضی تک سب عہدے داروں کی ایک لسٹ بنوائیں اور جن کے پاس سرکاری عہدے ہیں ان کو پارٹی کے عہدوں سے فارغ کر کے ان کی جگہ نوجوان لوگوں کو عہدے دے کر ان کی صلاحیتوں سے پارٹی کے لئے کام کروایا جائے۔

اگر کوئی سٹی یا ضلع کا صدر ہے تو وہ ٹکٹ لینے سے پہلے اپنا عہدہ چھوڑ کر کسی اور کو موقع دے تاکہ عوام سے رابطہ منقطع نہ ہو۔ شہری علاقوں میں عہدے داروں کی حد عمر 40 سے 42 سال مقرر کی جائے اور دیہاتی علاقوں میں حد عمر 50 سال۔ جو حالات ہیں ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب میں نوجوان اور متحرک لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنے قائد اور پارٹی کے مشن کو سامنے رکھتے ہوئے عوامی رابطوں کے لئے اپنی اپنی ٹیم بنا کر ورکرز کے مسائل کے حل کو یقینی بنائیں۔

ہمارے پاس آل ریڈی صوبائی ممبرز وزیر مشیر ہیں لیکن موجودہ پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی تنظیمی لحاظ سے بہت زیادہ کمزور ہے اور کافی بحران کا شکار ہے اگر ہم نئے بندے لانا چاہتے ہیں تو اس طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ہمارے پاس ایک لشکر شامل ہو جائے گا کیونکہ یہ سسٹم کسی پارٹی میں نہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک انقلابی پارٹی ہے اور ہمیں ایسی انقلابی اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ہمارے پاس واضح دلیل ہے کہ ہمیں پنجاب کے علاوہ کے پی کے اور جنوبی پنجاب میں نئے چہروں کی اشد ضرورت ہے۔

یہ معاملات پہلے کبھی نہ تھے کیونکہ پہلے ہمارے پاس محترمہ شہید تھیں لیکن اب معاملات اور ہیں۔ اگر کل کو فاطمہ بھٹو کو سندھ میں لانچ کر دیتے ہیں تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا؟ اسٹیبلشمنٹ اگر فاطمہ بھٹو کو وزیر اعظم بننے کی پیشکش کر دے تو؟ یہ سوال سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہاں کافی نادان کہیں گے کہ کیسے ممکن ہے تو سوچیں جیسے عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ویسے ہی فاطمہ بھٹو کو بھی بنانے والے بنا دیں گے۔

یہاں ہر کوئی نواب بنا ہوا ہے ایک ٹکٹ پر دو دو مزے لے رہے ہیں اور ورکرز کے کام وہاں کے وہاں ہی۔ علاقے کا صدر اپنے اپنے علاقے میں رہے گا تو اس میں پارٹی کا فائدہ ہی فائدہ ہو گا۔ اس کے برعکس اگر ممبر اسمبلی اجلاس میں شامل ہونے کے لئے اگر لاہور اسلام آباد شفٹ ہو جائیں گے تو حالات مزید خراب ہوں گے ۔ اسی طرح آصفہ بھٹو زرداری کا ذکر کیا جائے تو ان کو بھی پاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کا صدر بنایا جائے کیونکہ وہ ابھی ممبر اسمبلی نہیں ہیں۔ ان کی سیاست کا باقاعدہ آغاز کروانا ہمارے لئے خوش آئند ہو گا۔

آصفہ بھٹو زرداری کا سیاست میں مکمل انوالو ہونا پاکستان کے جیالوں اور جمہور پسندوں کے لئے خوشی کی علامت ہو گا کیونکہ مخالفین بھی محترمہ کے بچوں کے لئے محبت کی نظر رکھتے ہیں اور ان کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر پارٹی قیادت ایسا قانون بنا دے کہ ایک وقت میں ایک بندہ صرف ایک عہدہ رکھ سکتا ہے تو میں چیلنج کرتا ہوں کہ جب نئے چہروں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا تو پارٹی میں ایک لشکر شامل ہو گا اور بہت نئے چہرے کام کرتے دکھائی دیں گے جس سے پاکستان پیپلز پارٹی اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بازو مضبوط ہوں گے ۔ جیالوں و ورکرز کا اپنی قیادت سے رابطہ آسان ہو جائے گا۔ رضا کار جیالے اس بات کو سیریس لیں اور پارٹی کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments