آزادی بیس کیمپ اور سوشل میڈیا


بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چند دنوں سے عیدگاہ کے احاطے میں کینسر ہسپتال کی تعمیر کی نہ صرف منصوبہ بند کی جا رہی ہے بلکہ اس سلسلے میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو بھی بنیاد رکھنے کے لیے مدعو کیا جا رہا ہے۔ شاید آنے والے کچھ عرصے میں امیت شاہ صاحب ہسپتال کی بنیاد رکھ دیں۔ ویسے عیدگاہ کی اپنی تاریخ ہے، عید گاہ کو ہندستان کے خلاف مزاحمت کا نشان سمجھا جاتا ہے ۔ عیدگاہ سے بھارتی ریاستی جبر کے خلاف ہونے والی تقاریر، مظاہرے اور پھر اسی احاطے میں مزاحمت کرنے والے شہدا کا قبرستان عیدگاہ کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

اب یہاں ہسپتال کی تعمیر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں میں بے چینی بڑھا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ وادی میں غیر ریاستی باشندوں کو ووٹ کے حقوق، ڈومیسائل کا غیر ریاستی باشندوں کو اجرا ء مقبوضہ وادی کے رہنے والوں کے لیے جہاں تشویش کا باعث ہے، وہیں اب بھارت کی جانب سے وادی میں رہنے والوں کے معاشی قتل کی بھی منصوبہ بندی پریشانی میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ اکثر اوقات مقبوضہ وادی سے تعلق رکھنے والے افراد سوشل میڈیا پران موضوعات پر بحث کرتے پائے جاتے ہیں۔

مختار بابا، جو حریت رہنما مسرت عالم کے پاکستان میں نمائندہ ہیں، سے موجودہ وادی کی صورت حال پر گفتگو کے دوران مختار بابا کا کہنا تھا کہ بھارتی سرکار اس وقت وادی میں مزاحمت کو ختم کر چاہتی ہے اور اس کے لیے دہلی سرکار وادی میں انتخاب چاہتی ہے۔ اسی طرح سید علی شاہ گیلانی مرحوم کے نمائندہ خصوصی اور حریت کے سابق کنوینر عبداللہ گیلانی نے بھی خدشات کا اظہار کیا۔ عبداللہ گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارت ایک طرف آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے جبری پالیسیاں اپنا رہا ہے، دوسری طرف ترقیاتی منصوبوں سے دنیا کو پیغام دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ کشمیر میں سب اچھا ہے۔ تاہم بھارت جانتا ہے کہ کشمیریوں کا دل جیتا نہیں جاسکتا۔ وادی سے تعلق رکھنے والے ایک فرد نے نام نہ ظاہر کرنے کی صورت میں بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آزاد کشمیر ہماری آواز بنے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عوام بنیادی حقوق اور ریاستی بد انتظامی پر آئے روز سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ریاستی حکومت عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کرنے کی بجائے اپنی شاہ خرچیوں میں مصرف ہیں۔ کچھ دن پہلے مسلم لیگ نون کے صدر شاہ غلام قادر فرما رہے تھے کہ آزاد حکومت کا کام وادی سے آئے مہاجرین کو پناہ دینا اور سہولیات دینا ہے۔ آزاد حکومت کا مقبوضہ وادی کی تحریک سے تعلق نہیں اور عوامی غصہ کے باعث شاہ صاحب نے خودمختار کشمیر کے حامیوں کی مذمت کی اور ساتھ لعنت بھی بھیج دی۔

اب ریاستی حزب اختلاف کی جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لیے سر گرم ہیں۔ دوسری طرف حکومتی جماعت پی ٹی آئی اپنی بدانتظامی اور اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے تنقید کی زد میں ہے۔ اب تو ریاستی حکومت نے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کو رجسٹر کر کے ان کو اشتہار دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ حکومت اس سلسلے میں تین کروڑ کے قریب فنڈ بھی جاری کرے گی۔ وزیراعظم تنویر الیاس کے مطابق سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھرپور طریقے سے حکومت کا دفاع کر رہے ہیں اور آزادی کی تحریک کو فروغ دے رہے ہیں۔

اگر آپ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا حال دیکھیں، تو وہ اپنے مخالف نظریہ رکھنے والوں کو گالم گلوچ سے نوازتے پائے جاتے ہیں۔ ان حضرات کی طرف سے اپنے مخالف نظریات رکھنے والوں کو غدار، را ایجنٹ، مہاراجہ پرست، پٹواری، کان کترا، اور ایسے بہت سے ناموں سے مخاطب کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے مخالفین بھی بھرپور انداز میں اپنا دفاع کرتے ہوئے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو ان کا شجرہ نسب بتاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کہ زیر انتظام کشمیر میں لوگوں کے پاس بنیادی انٹرنیٹ تک نہیں اور یہ تمام حضرات خود کو اکثریت نمائندہ قرار دیتے ہیں، جبکہ ریاست میں موجود لوگ سوشل میڈیا سرکس سے لاعلم ہیں۔

اسی طرح یہ تمام حضرات وادی کی بھی کسی طرح مدد نہیں کر رہے بلکہ اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اس صورت حال میں آزاد حکومت کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کا سہارا لینے کے بجائے عوامی مسائل پر توجہ دے اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ کشمیر کی آزادی کی بات رہی تو ریاستی حکومت اس قابل نہیں کہ مقبوضہ وادی کی کسی بھی طرح مدد کرے تقاریر سے بہتر خاموشی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments