دروپدی مورمو اور ہمارا خوف زدہ آئین


دروپدی مورمو بھارت کے صوبہ اڑیسہ کے ایک دور دراز گاؤں میں پڑھتی تھی۔ گاؤں بھی ایسا کہ زندگی کی تمام سہولتوں کو سر پر اٹھا کر گھر لانا پڑتا۔ کچے مکانوں میں رہنے والی پکے ارادوں والی نکلی۔ اس نے اس قدر محنت کی اور حالات کو اپنے عزم سے شکست دے دی جس میں اس کا ساتھ ریاست نے آئین کی صورت میں دیا اور آج وہ خاتون جس کا نام محترمہ دروپدی مورمو ہے بھارت کی پندرہویں صدر بن گئی۔ اس نے پچیس جولائی 2022 ؁ کو بھارت کی پندرہویں صدر کا عہدہ سنبھالا۔

خوشی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دروپدی کا تعلق بھارت کی نہ صرف اقلیتی برادری سے ہے بلکہ شیڈول کاسٹ سے ہے۔ معاشرے کے منفی رویے اور ذات پات کا نظام بھی اسے ملک کے سب سے بڑے عہدے کو حاصل کرنے سے روک نہ سکا۔ بھارت میں سماجی طور پر بے شک کچھ نہ ہو پھر بھی لوگوں کو اپنے قانون اور آئین پر بھروسا ہے کیونکہ بھارت کا آئین اپنے شہریوں کو بلا رنگ و نسل و مذہب برابر تحفظ فراہم کرتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو دروپدی مورمو جیسی ایک شیڈول کاسٹ، ڈاکٹر من موہن سنگھ ایک سکھ اور ڈاکٹر عبدالکلام ایک مسلمان اس ملک کے صدر نہ بن پاتے اور نہ ہی ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی سربراہ ایک مسیحی خاتون ہوتی۔

وہاں جب ایک طلبہ مسکان خان کے پردے پر حملہ ہوتا ہے تو سارا میڈیا اس کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ بڑے مان کے ساتھ بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے اپنے سمیدان کا حوالہ دیتی ہے کہ بھارت کی شہری ہوتے ہوئے اپنی عدالتوں پر بھروسے کا اظہار کرتی ہے۔ اس کو یقین ہے کہ اس کی چادر اس کا آئین ہے جو اسے تحفظ فراہم کرتا ہے یعنی وہ آئین جس کو بھارت کے پہلے وزیر قانون بابا جی امبھیڈکر نے لکھا جو خود بھی ایک دلت تھا۔

پس آج دروپدی مورو جی کے ساتھ بھی اس کا آئین کھڑا ہے وہ آئین جو بھارت کو ایک سیکولر ریاست بناتا ہے۔ ہندو اکثریت کے اس دیش میں لوگ چاہتے تو وہ چپڑاسی بھی نہیں بن سکتی تھی لیکن اس کے ساتھ لوگ نہیں بلکہ اس کے ملک کا آئین کھڑا تھا جو دروپدی جی کے ساتھ ساتھ کسی کو بھی بلا رنگ و مذہب تفریق ملک کی بڑی سے بڑی ذمہ داری لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔

ایک عورت اور وہ بھی اقلیتی برادری سے تعلق اس پر شیڈول کاسٹ ہندو ہوتے ہوئے وہ کمال کر دیا جس کو سلیوٹ کرنے کو دل چاہتا ہے اور اس آئین کو بھی جو بلا کسی خوف کے ملک کے ہر شہری کو ملک کا سربراہ سمیت اہم عہدوں پر فائز کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔ دروپدی مورمو جی نے دنیا میں ہمت کی مثال قائم کی ہے اور دوسرا ان کا وہ سمیدان یعنی آئین جس نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کے واسی پہلے بھارتی ہیں پھر کسی اور مذہب سے ان کا تعلق ہے اور ویسے بھی بقول بابائے قوم قائد اعظم۔ ”ریاست کا مذہب سے کیا لینا دینا“ ۔

اگر آپ گیارہ اگست کی تقریر پڑیں تو بابائے قوم قائداعظم نے پاکستان کے مستقبل کے آئین کی تشکیل کی بنیاد تو وہیں پر رکھ دی تھی وہ بنیاد جس پر ملک کے ہر شہری کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا حق حاصل ہو۔ جہاں ہر پاکستانی سرکاری عہدوں پر مذہب سے بالا تر ہو کر کام کرے اور ملک و قوم کا نام دنیا میں امن و انصاف کی پہچان بن جائے۔ جو بات ہم تقریروں اور چوراہوں پر کرتے پھرتے ہیں کہ یورپ ہمارے زریں اصولوں پر عمل کر کے ترقی کر گیا وہ ہم خود کیوں نہیں کرتے شاید ہم کرنا ہی نہیں چاہے ہم بے عمل اور منافق قوم بن چکے ہیں۔

دنیا آج کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے لیکن ہم ابھی تک ان مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جو ہمارا سماجی مسئلہ ہی نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ریاست اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں مہیا کرنے کی بجائے تبلیغ پر توجہ دے رہی ہے بھائی یہ کام مولوی کا ہے اسے کرنے دیں وہ آپ سے بہتر کر سکتا ہے۔ ساری ترتیب ہی الٹ پلٹ ہو چکی۔ جن کو ریاست کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ سیاست کر رہے ہیں اور جن کو سیاست کرنی ہے وہ تبلیغ کر رہے ہیں۔

پس جنہیں تبلیغ کر نی تھی وہ سیاسی کاروبار میں مصروف ہیں۔ انصاف مہیا کرنے والے ویلفیئر کر رہے ہیں۔ ہم غریب عوام اس طبقہ سے انصاف کے طلب گار ہیں جو ہمارے ہی استحصال کے ذمہ دار ہیں کیسا لطیفہ ہے۔ علاقہ کے بدمعاش سیاستدان ہو تو ایسے ہی جیسے دودھ کی راکھی بلی کو بٹھا دیں۔ اگر ہم اپنی سیاسی تاریخ کو کھنگالیں تو معلوم ہو گا آئین ساز کیبنٹ میں کوئی ایک ممبر بھی متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا نہیں تھا سب کے سب وڈیرے اور جاگیردار تھے۔

جن بیچارے غیر مسلم نمائندوں کے ساتھ بابائے قوم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ ہمارا ساتھ دیں تو آپ ملک و آئین کا حصہ ہوں گے وہ بیچارے تو مایوس اور بے عزت ہو کر یہاں سے نکال دیے گئے یا دل برداشتہ ہو کر خود ہی چلے گئے۔ یعنی ہمارے وطن کی بنیادوں میں ظلم کے ساتھ بے انصافی کا لہو بھی کہیں شامل ہے تبھی تو آج کی عمارت میں کہیں پر بھی انصاف اور قانون نظر نہیں آتا۔

ہو سکتا ہے پچھتر سالوں میں کوئی معجزہ ہو جائے لیکن یہاں جب تک ہمارے آئین سے غیر مسلم پاکستانی کے ملک کے سربراہ ہونے کا خوف برقرار رہے گا یہاں کوئی بھی انگلستان کی طرح وزیر صادق خان نہیں بن سکتا، کوئی ڈاکٹر من موہن سنگھ کی طرح ملک کا صدر اور کوئی وزیر دفاع جارج فرنینڈس نہیں ہو سکتا اور کوئی دروپدی مورمو جیسی شخصیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ ایسا نہیں یہ ممکن نہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے لیکن پہلے ہمارے پیارے وطن کے خوف زدہ آئین سے خوف نکال باہر پھینکنا ہو گا تبھی یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ تبھی اس ذات پات کے نظام کو شکست ہو سکتی ہے جس کی بنیاد پر میرا اور آپ کا وطن حاصل کیا گیا تھا۔ پاک وطن کو صرف اور صرف امن اور انصاف سے ہی پاک کیا جاسکتا ہے ورنہ۔ آپ بہتر جانتے ہیں۔ پاکستان پائندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments