دکان بند ہے


ہمارے ہاں بعض دکانیں ایسی ہوتی ہیں جو شاید تعمیر ہی اس لئے کی جاتی ہیں کہ ان کو ہمیشہ بند رکھا جائے گا۔

دنیا میں دو جگہوں نے فقط ایک بار سورج کا منہ دیکھا ہے۔ ایک وہ موسی و فرعون کے قصے میں پانی کی تہہ نے اور دوسرا ان دکانوں کے کمروں نے کہ جس وقت ان کو بنا کر ان کا شٹر گرایا جا رہا تھا۔

یہ دکانیں آپ کو ہر شہر دیہات میں ملیں گی۔ معلوم نہیں مالکان انہیں بناتے کیوں ہیں؟ جب جب آپ انہیں دیکھیں گے ان کا شٹر بند ہی ملے گا۔ ان میں سے بہت ساری دکانیں ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہوتے بس یا ٹرین کی کھڑکی سے نظر آتی ہیں۔ بعض دفعہ ایسی جگہوں سے گاڑی گزرتی ہے کہ تاحد نگاہ جنگل بیابان پھیلا پڑا ہے۔ آدم زاد کا نام نشان نہیں۔ مگر ایسی دو چار دکانیں چپ چاپ کھڑی ہوں گی۔ پھر کبھی یوں ہو گا کہ گاڑی چل رہی ہے دور دور تک لہلہاتی فصلیں اور مربعوں کے مربعے زرعی زمین کے سڑک کے دونوں اطراف ہیں۔ آبادی ندارد۔ مگر ایک کھیت کے کنارے بر لب سڑک دو تنہا دکانیں شٹر بند کیے گرمی میں کھڑی ہیں۔ بھئی تمہارا یہاں کیا کام ہے؟ کیوں کھڑی ہو؟ کیا سزا ہے؟

یہ تو ہو گئی آبادیوں سے دور کی بات۔ اب آ جائیے شہروں میں۔ یہاں بھی آپ کو ایسی دکانیں ہر جگہ نظر آئیں گی۔

ان میں پہلے نمبر پر اشٹام فروش کی دکان ہے۔

ممکن ہے آپ میری بات سے متفق نہ ہوں اور آپ نے کبھی کبھار اشٹام فروش کی دکان کھلی بھی دیکھی ہو مگر میں شرطیہ کہتا ہوں کہ جس دن آپ کو اشٹام کی ضرورت ہو اور آپ کو دکان بند نہ ملے تو مجھے آ کر پکڑ لیجیے گا۔ جو چور کی سزا وہ میری سزا۔

دوسرے نمبر پر جو دکان ہے وہ سینیٹری اور ہارڈ وئیر کی ہے۔ ان کے مالکان کو دکان بند کرنے کا بہانہ چاہیے۔ اور کچھ نہ ہو تو وقفہ برائے نماز کا گتہ لٹکا کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔

اس کے بعد آتی ہیں الیکٹرک سٹور کی دکانیں۔ ان غریبوں کے ساتھ خدا جانے یمراج کی کیا ذاتی رنجش ہے کہ آئے روز بوجہ فوتگی ان کی دکان بند ہوتی ہے۔

فوتگی نہ بھی ہو تو یہ ٹھیک اس وقت سے پندرہ منٹ قبل دکان بند کر کے چلے جاتے ہیں جب ہمارے واش روم کا انرجی سیور پٹاخہ مارتا ہے۔ آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ اطلاع انہیں کون پہنچاتا ہے۔

اگلا نمبر ایسا ہے کہ خدا دشمن کو بھی اس دکان کا محتاج نہ کرے۔ وہ ہے کسی بھی مکینک کی دکان۔

اول تو ہر وہ چیز جس کا مکینک جمعہ کو دکان کی چھٹی کرتا ہے بروز جمعرات عین عصر کے بعد خراب ہوگی۔ مکینک تک جانے میں مغرب عشا ہوجاتی ہے۔ پہنچ کر ادھر ادھر والوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب بند کر گئے ہیں۔ اور اب پرسوں ہی کھولیں گے۔ مبارک ہو۔ آپ کا پورا ویک اینڈ برباد ہو گیا۔

کچھ دکانیں ایسی ہوتی ہیں جو فقط اس وقت کھلتی ہیں جب ہم ان پر نہیں جاتے۔

چند سال پہلے اسلام آباد کے ایک پوش علاقے کے ریستوران میں ایک نمک دانی اور کالی مرچ دانی دیکھی۔ دونوں بہت خوب صورت لگیں۔ نہایت نفیس سٹیل کی بنی ہوئی اور ان میں شیشے کے اندر پیارا سا بٹن لگا ہوا۔ بیرے سے پوچھا یہ کہاں سے ملتی ہے؟ اس نے پہلے تو ہمیں غور سے دیکھا پھر کچھ سوچ کر کہا کہ معلوم نہیں مگر اس ریستوران کی ساری کراکری تو دبئی سے آتی ہے۔

یہاں سے آپ کو شاید فقط فلاں دکان سے ملے تو ملے ورنہ کہیں نہیں ہے۔ بس اسی چکر میں کھانا جلدی جلدی ختم کر کر فوراً مذکورہ دکان پہنچے تو معلوم ہوا کہ آج بروز جمعہ ناغہ ہے۔ بہت دکھ ہوا۔ مصروفیات میں بات بھول بھال گئی۔ ایک اتوار کے دن کہیں سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں وہی مارکیٹ آئی جس میں وہ دکان تھی۔ فوراً گاڑی گھمائی اور جلدی جلدی دکان پر پہنچے تو دکان پھر بند تھی۔ ساتھ والے دکاندار بھائی سے پوچھا کیوں صاحب آج تو ”بروز جمعہ ناغہ“ بھی نہیں۔ اتوار ہے۔ پھر کیوں بند ہے؟

مسکرا کر بولے جی ہاں۔ پچھلے ہفتے سے انہوں نے جمعہ کی بجائے اتوار کی چھٹی شروع کر دی ہے۔ آج کل ہر گھر میں اتوار ہی کا جو ٹرینڈ ہے جی۔

ہم دانت پیستے ہوئے واپس آ گئے۔
بات پھر آئی گئی ہو گئی اور ایک برس بیت گیا۔

ایک دن منگل کا دن تھا اور ہم کہیں کھانا کھانے گئے۔ وہاں پھر دوبارہ اسی نمک دانی پر نگاہ پڑی۔ بس مچل ہی تو گئے۔ بیگم سے کہا لو بھئی آج تو نہ جمعہ ہے نہ اتوار اور نہ ہی ابھی رات ہوئی ہے۔ آج تو کچھ ہو جائے ضرور خرید لیویں گے۔

اس بار وہ دکان راستے میں نہ پڑتی تھی بلکہ ہمیں لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑا۔ جا کر جو دیکھتے ہیں تو دکان بدستور بند تھی۔

بھائی صاحب! یہ دکان تو اتوار کو بند ہوتی ہے ناں؟
”کون سی یہ والی دکان؟ جی سر یہ صرف اتوار کو ہی بند ہوتی ہے۔“
ساتھ والے دکان دار نے بتایا۔
مگر آج تو منگل ہے۔ میری آواز اضطراری طور پر اونچی اور روہانسی ہو گئی۔

”جی ہاں سر آج واقعی منگل ہے مگر یہ صاحب اہل خانہ اور بچوں کے ساتھ عمرے پر گئے ہیں۔ اب تو جنوری کی پانچ تاریخ کو ہی آئیں گے۔ ایک منٹ (گھڑی پر تاریخ دیکھتے ہوئے ) آج تو دسمبر کی تاریخ۔ چھبیسسسسسس تاریخ۔ ۔ ایک منٹ، ایک منٹ

اوہ ہ ہ۔ آپ تو وہی نہیں جو پچھلے سال بھی نمک دانی لینے آئے تھے؟ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ہا ہاہاہا
دکاندار نے فلک شگاف قہقہہ مارا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments