خدیجہ مستور کا ناول “آنگن”


آنگن کہانی ہے اس وقت کی جب برصغیر پر گورے قابض تھے۔ صدیوں سے خطے کی بدولت بطور قوم رہنے والے اب مذہب مذہب کی سیاست کھیلنے لگے تھے۔ مطالعہ پاکستان جیسی کتابوں نے جہاں چھوٹے چھوٹے ذہنوں کو تاریخ کی جگہ سطحی اور بے مطلب ’فکشن‘ میں الجھا دیا ہے وہیں آنگن جو کہ فکشن کیٹگری سے تعلق رکھنے والی کتاب ہے زبردست انداز میں اس دور میں اٹھتی، بٹی ہوئی آزادی کی تحریکوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ بڑے پیمانے پر رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور واقعات کے آنگن جیسے چھوٹے پیمانے کو شدت سے متاثر کرنے کی عمدہ منظر کشی ہے۔ خدیجہ مستور کے قلم کی روانی قابل داد ہے۔ عام اور سادہ الفاظ کے استعمال سے مشکل باتوں کو بھی آسان اور دل چھو لینے والے انداز میں بیان کیا ہے۔

موسموں کا بیان بہت عمدہ ہے۔ ناول میں بہار سچ میں بہار لگنے لگتی ہے۔ ایسے ہی خزاں، سردی اور گرمی۔ گزرتے وقت کی خوبصورت منظر کشی۔

ہر کردار اپنی طرز کا ہے۔ اپنے علیحدہ ہی مسائل اور رویے رکھتا ہے۔ مجھے کرداروں کے حوالے سے یہ ناول اور بھی اچھا لگا کہ کوئی بھی کردار فرشتہ یا شیطان نہیں دکھایا گیا۔ کرداروں کو ان کے حالات اور گردونواح کے نتیجے کے طور پر پراڈکٹ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ جیسے مرکزی کردار عالیہ محبت سے نفرت کرتی ہے۔ اسے مرد فریبی اور دھوکہ دینے والے لگتے ہیں کیونکہ اسی محبت میں گرفتار اس کی بڑی بہن تہمینہ نے اپنی جان دے دی تھی۔ بہن کے ٹھنڈے جسم کا عکس اس کے ذہن پر چھپ کر رہ گیا۔

ناول میں نوجوان لڑکیوں میں محبت جیسے جذبات پیدا ہونے اور پھر خوف میں ہر پل اس محبت کو دبانے کو دل کو ٹھیس لگاتے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ تہمینہ کی صفدر کے لیے محبت اور ساتھ ہی بڑی بیٹی ہونے کی ذمہ داری، صفدر کا غریب خاندان سے تعلق اور دوسری طرف تہمینہ کی اونچے گھرانے کی ماں جو غریبوں کو انسان ہی نہیں سمجھتی۔ کیسے اس سارے چکر میں تہمینہ اور صفدر کو چپ سی لگ جاتی ہے۔ صفدر کے سوا کسی دوسرے مرد سے شادی ہونے پر تہمینہ اپنی جان دے دیتی ہے۔

عالیہ اور تہمینہ کی ماں ایک ایسا کردار ہے جو ہمیں اپنی زندگیوں میں آس پاس مختلف صورتوں میں آج بھی دکھائی دیتا ہے۔ ذات پرست، بے حد اسٹیٹس اسٹیٹس کرنے والی اور صرف اپنی بات کو درست سمجھتی، ناشکری اور جذبات سے عاری کردار۔ ایسے لوگ ہم آسانی سے اپنے آس پاس تلاش کر سکتے ہیں۔ ماں کی بھابھی گوری خاتون ہیں جن پر اس غلامی کے دور میں ماں جی کو بڑا ناز ہے۔ ہر وقت اپنے مائیکے کی بڑائی کے گیت گاتی رہتی ہیں۔ یہ کردار صحت مند جذبات سے عاری ماں کا ہے جسے اپنی سگی اولاد تک کے سکون کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس کی اکڑ اس کے اور ساتھ رہنے والوں کے درمیان کسی دیوار کی طرح حائل رہتی ہے اور وہ کسی کے ساتھ جذباتی تعلق قائم نہیں کر سکتی۔

نجمہ پھوپھی دیسی انگریز ہیں۔ جنھوں نے انگریزی میں ماسٹرز کیا اور اردو بولنے اور اردو میڈیم پڑھنے والے سب جاہل گنوار لگنے لگے۔ ہر ایک پر انگریزی الفاظ سے رعب جھاڑنا ان کا مشغلہ تھا۔

کریمن بوا ان کے گھر کی ملازمہ جو اپنی والدہ کے ہمراہ دادی کے جہیز میں آئی تھیں، ذہنی غلامی کی مکمل تصویر ہیں۔ وہ انتہائی کم تنخواہ میں دن بھر اپنے بڑھاپے میں بھی کھپتی رہتی، دادی کے ان پر تشدد کے باوجود صرف دعائیں دیتیں اور دادی کے آخری لمحات پر یہ دعائیں مانگنے لگیں کہ مولا بیگم صاحبہ کی جگہ مجھے اٹھا لے! ان کے نزدیک ایک ملازم کو اتنا ہی وفادار ہونا چاہیے۔

عالیہ کے ابا اور چچا اپنی ذات، گھر بار، بیوی بچے اور سکون سب کچھ آزادی کی تحریک پر لٹا چکے ہوتے ہیں۔ مڑ کر اپنے بچوں کو پوچھ لینا بھی بھول چکے ہوتے ہیں۔ سیاسی میدان میں ہیرو اور لیڈر اور اپنے گھر میں ان کا ہونا نہ ہونے کے برابر۔ ایسے میں گھر کی مالی حالت اور آپس کے جذباتی تعلقات خرابی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف خود پسند اکڑو ماں اور دوسری طرف والد صاحب کی گھریلو معاملات میں عدم دلچسپی عالیہ کو ہر لمحہ ستاتی ہے۔

گھر کا نوجوان جمیل مسلم لیگ کا حامی ہوتا ہے جبکہ چچا کانگریس کے۔ یوں ایک ہی آنگن میں مختلف سیاسی نظریات کے مولوی بستے ہیں تو آئے دن ہنگامہ ہوتا ہے۔ عالیہ کے ابا تو کسی انگریز سے ناچاقی کی صورت میں جیل چلے جاتے ہیں جہاں ان کی موت واقع ہو جاتی ہے البتہ چچا کا مشن جاری رہتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ بھی کسی حملے میں مارے جاتے ہیں اور وہی سیاسی پارٹی جس کے لیے نیند تک حرام کیے رکھی چند ہزار لواحقین کو تھما کر انھیں فراموش کر دیتی ہے۔

کہانی میں غیرت کے پھندے، عورت اور مرد کے لیے کرداروں کے مختلف معیاروں اور مادی اشیاء کو زندگی کا مقصد ماننے کے حوالے سے بھی واقعات آتے ہیں۔

آخرکار پاکستان بن جاتا ہے۔ عالیہ اپنی ماں کے ساتھ اپنے رئیس ماموں کے پاس پاکستان آ جاتی ہے۔ چچا کے گھر والوں سے خطوط کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور نئے نشیب و فراز عالیہ کے منتظر ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments