آدم خور شیروں کے جزیرے: جہاں شکار بننے کے باوجود لوگ شیر کی پوجا کرتے ہیں

جیک پالفری - بی بی سی فیچرز


’مجھ پر 23 جون 1984 میں حملہ ہوا تھا۔‘

دریائے گنگا کے ڈیلٹا میں جزیروں کے سلسلے میں پھونی گیان نے دریا کے کنارے سنبھل کر بیٹھتے ہوئے اپنی خوفناک کہانی سنانے کا آغاز کیا۔

ان کے چہرے پر چمکتا ہوا ایک پرانے زخم کا نشان اس طرح عیاں تھا جیسا کہ خشک دریا کی پھٹی ہوئی زمین پر کسی نے کوئلے سے ایک لکیر کھینچ دی ہو۔

بنگال میں سورج کی سخت تپش کے دوران انھوں نے اپنے پریشان سامعین کو اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا ’ہم نے صبح کا وقت مچھلیاں پکڑنے میں صرف کیا تھا۔ میں اُس وقت دریا کے کنارے پر کھڑا تھا جب میں نے جھاڑیوں میں سرسراہٹ سُنی۔‘

’میں نے فوراً مڑ کر دیکھنے کی کوشش کی، لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئی حرکت کرتا وہ جست لگا کر میرے اوپر آ چکا تھا۔‘

ایک شیر گیان پر جھپٹا جس کے زور سے وہ زمین پر گر گئے، اپنے طاقتور پنجوں سے شیر نے گیان کے سینے کو دبایا اور پھر نشتر جیسے تیز پنجے اس کے چہرے پر گاڑ دیے۔

’مجھے یقین تھا کہ میں مرنے والا تھا۔‘

گیان کے پاس اپنے بچاؤ کے لیے صرف ایک چھڑی تھی۔ مگر پھر مچھلیاں پکڑنے والے ان کے ایک ساتھی نے اپنی کشتی سے چھلانگ لگا کر اس خوفناک جانور سے گیان کو چُھڑوانے کی کوشش کی۔

گیان نے اپنے چہرے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا کہ ’شیر نے اُس کی طرف دیکھا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ کر اُس پر چھلانگ لگا دی، اس آدمی کو اپنے جبڑوں میں دبوچا اور جنگل میں غائب ہو گیا۔‘

جنوبی بنگلہ دیش اور انڈیا کے ریاست مغربی بنگال کے درمیان سرحد پر واقع سندربن کے لوگوں کے لیے شیر ایک عمومی خطرہ ہیں۔ اس علاقے کے گھنے ساحلی جنگلات کے جزیروں کے درمیان ایک مقامی کمیونٹی آباد ہے۔ یہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ قرار دی گئی ایک جگہ ہے جو ’بنگال ٹائیگرز‘ کی ایک بڑی آبادی کا گھر ہے۔

اس علاقے میں ایک اندازے کے مطابق 150 شیر رہتے ہیں۔

میں مقامی لوگوں کے اس چھوٹے سے ہجوم کے درمیان موجود تھا جو گیان کی دردناک کہانی سننے کے لیے سندربن کے داخلی مقام، دیا پور گاؤں کے مضافات میں میرے ساتھ جمع ہوئے تھے۔

میرے پاس نرنجن بیٹھے تھے، جنھوں نے ایک شیر کو اپنے والد کو مارتے ہوئے دیکھا تھا اور اس وقت وہ صرف 11 سال کے تھے۔ ان کے آگے ایک اور شخص سنیل بیٹھا تھا جنھوں نے ایک شیر کو اپنی بیوی کو مچھلی پکڑنے والی کشتی سے گھسیٹ کر جنگل میں لے جاتے دیکھا تھا۔

سندربن کے جنگلوں کے گائیڈز کو علاقے کے مکینوں اور شیروں کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے میں مدد دینے کا کام سونپا گیا ہے۔ ان کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی اس مسئلے کو زیادہ بڑھا رہی ہے کیونکہ جانوروں کی خوراک کے روایتی ذرائع آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’پہلے ہی دو یا تین جزیرے پانی کے اندر ہیں۔ لہٰذا ہرن اور جنگلی سؤر کے لیے گھاس کے میدان کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں (جو شیروں کی خوراک کا بنیادی ذریعہ ہیں)۔‘

نتیجتاً انسان، خاص طور پر ماہی گیر جو مچھلی پکڑنے کے لیے نئے مقامات کی تلاش میں جنگل کی گہرائی میں بھٹکتے ہیں، شیر کے لیے ہرن کا ایک اچھا متبادل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

خنجراب پاس پر بنی دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم جہاں پہنچنے کے لیے بادلوں سے گزرنا پڑتا ہے

ہمالیہ کی وہ ’خفیہ وادیاں‘ جو دنیا کے اختتام سے قبل انسانیت کی ’پناہ گاہ‘ بنیں گی

لداخ: وہ علاقہ جس پر خلیفہ ہارون الرشید کی بھی نظر تھی

اس تاریخی تنازع کی وجہ سے لوگوں میں شیروں کے خلاف ناراضگی بڑھنی چاہیے لیکن پھر بھی جب میں نے گیان اور وہاں موجود افراد کو شیروں سے بچنے کے مشورہ دیے تو اُن کا ردعمل حیران کن تھا۔

میری الجھن دیکھ کر سپترشی نے ہمیں وہاں سے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ ہم کسی ایسے شخص سے بات کریں جو اس معاملے کو سمجھنے میں میری مدد کر سکے۔

بنگال کے آدم خور شیر

جنگل میں بھٹکنے والے ماہی گیروں کو شیروں کے حملے کے خطرے کا سامنا رہتا ہے

اس کے بعد ہم جھیلوں سے گزرتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے راستے اور دھان کے کھیتوں سے ہوتے ہوئے لکڑی کی ایک تنہا جھونپڑی تک پہنچے۔ اس جھونپڑی کے باہر کوشلیا مونڈل چولہے میں آگ جلا کر اکیلی اس کے سامنے بیٹھی تھیں۔

ان کے شوہر بھی شیر کے حملے کا نشانہ بنے تھے اور اب مقامی آبادی میں انھیں ’شیر کی بیوہ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

کوشلیا نے وضاحت کی کہ ’میرے شوہر ماہی گیر تھے۔‘ اُن کی دھندلی آنکھیں چاول کے برتن پر جمی ہوئی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’گذشتہ سال ہم جنگل کے اندر ایک ساتھ مچھلیاں پکڑ رہے تھے جب شیر نے حملہ کیا۔ وہ سیدھا میرے شوہر کی طرف گیا اور انھیں کشتی سے پانی میں کھینچ لیا۔ پھر شیر انھیں منھ میں دبوچ کر جنگل میں چلا گیا۔ میں کچھ بھی نہ کر سکی۔‘

یہ بتاتے ہوئے اُن کے چہرے پر پریشانی واضح تھی۔ میں نے کوشلیا سے پوچھا کہ کیا وہ اس مخلوق سے دشمنی محسوس کرتی ہے جس نے ان کے شوہر کو مارا؟

انھوں نے کہا ‘میں شیر پر الزام نہیں لگاؤں گی۔ یہ ہماری غلطی تھی۔ ہم دوسرے راستے سے نہیں گئے بلکہ اس راستے سے گئے جہاں شیر موجود تھی۔ میں ابھی بھی دکشن رائے کی عبادت کرتی ہوں۔‘

’دکشن رائے‘ جسے مقامی بول چال میں شیر دیوتا کے نام سے جانا جاتا ہے، سندربن میں ایک قابل احترام دیوتا ہے۔ اس دیوتا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنگل کے محافظ ہیں اور اس علاقے کے تمام باشندوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

روزگار اور شکار حاصل کرنے کی غرض سے گھنے جنگل میں جانے سے قبل شہد جمع کرنے والے اور ماہی گیر دیوتا کی بہت سی عبادت گاہوں میں سے کسی ایک پر نذرانہ پیش کرتے ہیں۔

اگرچہ شیروں کے تئیں یہ تعظیم مذہبی توہم پرستی سے جُڑی ہو سکتی ہے لیکن اس میں ایک عملی عنصر بھی ہے۔

سپترشی نے کہا کہ ’سندربن کو اپنے شیروں کی ضرورت ہے۔‘

پھر ہم تیزی سے واپس بندرگاہ کی طرف چل پڑے۔ روشنی ختم ہو رہی ہے، شیر کے مہلک حملے کا میرا خوف بڑھ رہا تھا۔ ’ورنہ ہم جنگل سے زندہ نہیں جا سکیں گے۔‘

بنگال کے آدم خور شیر

سندربن میں ہر سال تقریباً 30 افراد شیروں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں

کہا جاتا ہے کہ سندربن کا نام خطرے سے دوچار سندری کے درخت سے اخذ کیا گیا ہے جو کہ ساحلی جنگلات میں درختوں کی ایک قسم ہے جو اس خطے میں پھلتی پھولتی ہے۔ اس کی سخت اور باریک دانے والی لکڑی اعلیٰ درجے کی مصنوعات بشمول فرنیچر کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔

شیروں کے آبائی وطن کے تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششیں سندربن کو ترقی سے بھی دور رکھتی ہیں اور شیروں پر مبنی سیاحت کے ذریعے فوری آمدن فراہم کرتی ہے۔

سپترشی نے مزید کہا کہ ’جنگل ان لوگوں کو بہت کچھ دیتا ہے۔ یہ بڑھتے ہوئے پانی کا فعال طور پر مقابلہ کرتا ہے اور سونامی اور طوفانوں (جو خلیج بنگال میں بہت زیادہ ہیں) کے خلاف رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔‘

یہی وجہ ہے کہ دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے معذور دیکھنے کے باوجود، سندربن کے لوگ شیروں سے نفرت نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی قسمت بالآخر قاتل شیروں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ شیر جنگل کی حفاظت کرتے ہیں اور جنگل لوگوں کی حفاظت کرتا ہے۔

خوفناک آدم خوروں کے ساتھ نسل در نسل اپنا گھر بانٹنے کے بعد آپ کو یہ ماننے کے لیے معاف کر دیا جائے گا کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے ان مضبوط کمیونٹیز کو ڈرایا جا سکے۔ لیکن بدقسمتی سے آپ غلط ہوں گے۔

جب سپترشی اور میں اس گودی پر پہنچے جہاں سے کشتی واپس روانہ ہوتی ہے تو سورج پانی کی طرف آہستگی سے پھیلا ہوا تھا جب کہ ہوا کے باعث درختوں کی سرسراہٹ سنی جا سکتی تھی۔

قریب ہی موجود گیان، جو اب اکیلے زندگی بسر کر رہے ہیں، نے پوری لگن کے ساتھ گاؤں کی عبادت گاہ کو ‘دکشن رائے’ تک پہنچایا، جس کے لیے اسے ماہی گیری سے ریٹائرمنٹ کے بعد نگراں مقرر کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے

کراچی کا وہ جزیرہ جہاں کئی مذاہب کی برسوں پرانی عبادت گاہیں آج بھی موجود ہیں

ایشیا کا وہ شہر جس کے دامن میں ہر آنے والے کے لیے گنجائش ہے

بلتت کا قلعہ ’جو جہیز میں ملا‘

پھر اچانک ایک خوفناک گڑگڑاہٹ نے منظر کا سکون کو برباد کر دیا جب ایک مال بردار جہاز سندربن کے خاموش پانیوں سے گزر رہا تھا۔ ٹینکر سے تیز دھواں نکل رہا تھا جو گلابی رنگت والے آسمان پر پگھلا ہوا بھورا داغ بنا رہا تھا۔

سنہ 2016 کے آخر میں بنگلہ دیش نے سندربن کے جنگل سے صرف 65 کلومیٹر اوپر کی طرف ملک کے سب سے بڑے کول پاور سٹیشن کی تعمیر شروع کی تھی۔

ماحولیاتی تنظیموں بشمول یونیسکو کی طرف سے اس سٹیشن کی تعمیر کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی اور اسے سندربن کے ماحولیاتی نظام کے لیے ایک ’سنگین خطرہ‘ قرار دیا تھا۔

تنظیم کی تفصیلی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کوئلے کی راکھ اور گندے پانی سے ہونے والی آلودگی، نیز شپنگ اور ڈریجنگ میں اضافہ، اس نازک خطے میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو تیز کرے گا اور ’ناقابل تلافی نقصان‘ کا سبب بنے گا۔

سندربن سے 70 کلومیٹر شمال میں کلکتہ یونیورسٹی میں ماحولیاتی سائنس کے سربراہ ڈاکٹر پنرباسو چودھری، یونیسکو کے خدشات سے متفق ہیں اور سٹیشن کے اس پورے منصوبے کے ممکنہ وسیع اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’تقریباً پچیس لاکھ لوگ اپنی روزی روٹی کے لیے اس خطے کے ساحلی جنگلات پر انحصار کرتے ہیں۔‘ اگر ماحولیاتی نظام کو مستقل طور پر نقصان پہنچتا رہا تو وہ شیر، نباتات اور اس علاقے پر انحصار کرنے والے تمام جانور نمایاں طور پر متاثر ہوں گے۔

اگرچہ بنگلہ دیش کے سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اس پاور سٹیشن سے جنگل پر کوئی نقصان دہ اثر نہیں پڑے گا تاہم چوہدری اور یونیسکو دونوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس منصوبے کو منتقل یا مکمل طور پر ختم کر دیا جانا چاہیے۔

جب میں کشتی پر سوار ہو کر پانی اور دلدلی علاقوں سے واپس خشک زمین پر پہنچا، میں نے ایک آخری نظر گیان پر ڈالی، جو اب عبادت گاہ کی سیڑھیوں پر خاموش بیٹھے ہیں۔ اس کے پیچھے، دکشن رائے کا ایک مجسمہ ہمیشہ غراتی ہوئی صورت میں ایک اور قاتل جست کی صورت میں نصب تھا۔

اگرچہ یہ سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے کہ ایک کمیونٹی ایک ایسی مخلوق کی پوجا کیسے کر سکتی ہے جو ان کے لوگوں کو اس طرح کی تکلیف دینے کا باعث بنتی ہو۔

سندربن کے شیر اگرچہ خطرناک ہیں، تاہم بالآخر یہ وہاں بسنے والوں کی سرزمین کی حفاظت کرتے ہیں۔

تو آپ ہی بتائیے آدم خور شیر زیادہ خوفناک ہیں یا آدمی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments