اساتذہ کا عالمی دن


چونکہ سردیوں کا موسم تقریباً آ پہنچا ہے اور راتیں لمبی ہونے لگی ہے۔ مجھ جیسے شخص جو ہر وقت نیند میں کھویا رہتا ہے جب ان راتوں میں میری نیند پوری ہو سکتی ہے تو میرے خیال میں سب کی پوری ہوگی۔ پچھلے دو ہفتوں سے صبح کی نماز سے پہلے میری آنکھیں نیند سے بیدار ہوجاتی ہے۔ اور پچھلے دو دن سے باجماعت نماز فجر ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ آج صبح جب میں نیند سے بیدار ہوا تو میری موبائل کے گھڑی میں پانچ بج رہے تھے، یعنی نماز فجر کے لئے ایک گھنٹہ باقی تھا۔

وقت کی فراہمی دیکھ کر میں نے موبائل کی انٹرنیٹ آن کی اور فیس بک کو کھولا، کھولنے کے ساتھ ہی اوپر مجھے ایک سال پرانی میموری آ گئی، وہ میموری ٹیچر ڈے کے حوالے سے تھی۔ فیس بک نے مجھے آپشن دیا اگر آپ یہ میموری شیئر کرنا چاہتے ہوں تو ہم شیئر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ میں نے فیس بک (اپنے آپ سے کہا) اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے بالکل شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ جیسے ہی میں اس میموری کو پوسٹ کرنے لگا پھر اچانک رک سا گیا۔

خود سے کہا اس پوسٹ کو شیئر نہیں کرتا بلکہ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ایک نیا پوسٹ ایک نئے انداز می کرنا چاہتا ہوں، خیر ادھر میرا ارادہ بدلا ادھر نماز فجر کا وقت آ پہنچا، میں نماز کے لئے چلا گیا۔ نماز کے بعد سیدھا ہمارے دوسرے کمرے گیا جہاں میری کتابیں وغیرہ ہوتی ہے اور وہاں اپنے چھوٹی سی لائبریری (کتابوں کی جگہ) سے قلم اور کچھ صفحات لے کر اپنی سونے والے کمرے میں آ گیا۔

ابھی باہر اندھیرا تھا اور کمرا تو بالکل سیاہ تھا تو میں نے لائٹ آن کیا اور کرسی پر براجمان ہوا، پہلے کچھ منٹ بیٹھ کر میں نے دماغ پر زور دیا تاکہ سوچنے کے نئے در کھل سکیں اور ماضی میں جانے کی کوشش کی اور اپنے اساتذہ کو یاد کرنے کی کوشش کیں۔ شروع جماعت سے لے کر میرے سارے اساتذہ ذہن میں آ گئے۔ جب سکول کے اساتذہ کو یاد کیا تو کتنے محبتوں کے ساتھ ان کو پایا وہ اساتذہ جنہوں نے ہمیں الف سے ے تک، اے سے لے کر زیڈ تک وہ سب کچھ سکھایا، اس وقت ہمیں سکھایا جب ہمیں سکھانے میں ان کو کافی تکلیف پیش آ رہی تھی اور ہم بہت مشکل کے ساتھ سمجھتے تھے۔

پانچویں جماعت تک میں بہت قابل رہا ہوں لیکن صرف ایک ہی سبجیکٹ میں اور وہ سبجیکٹ تھا ریاضی کا اور باقی مجھے کچھ نہیں آتا تھا اردو کے الفاظ ادا کرنا مجھ سے نہیں ہوتے تھے۔ اور آج الحمدللہ اس اردو کو بلا جھجک لکھ اور بول سکتا ہوں۔ یہ سب میرے اساتذہ کا کمال ہے۔ پانچویں پاس کرنے کے بعد میں گورنمنٹ پرائمری سکول سے ہائی سکول میں چلا گیا وہاں بھی بہت اچھے اور قابل اساتذہ ملے۔ ہائی اسکول میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہمارے اذہان ابھی کچے تھے، چیزوں کو سمجھتے نہیں تھے۔ میں ایک دوست کے ساتھ بہت زیادہ مرتبہ سکول سے درمیان میں نکل کر کبھی کدھر گھومنے نکل جاتے تھے تو کبھی کدھر،

میرے ایک دوست کے ساتھ ایک سائیکل تھی ہم سکول سے نکل کر اس سائیکل پر مختلف علاقوں کو دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہمارے تمام تر ہائی سکول کے اساتذہ بہت ہی قابل اور ہمارے ساتھ محنت کرتے تھے۔ ہمیں بہت کچھ سکھایا اور قائل کرنے کی بھی کوشش کرتے جہاں ہم غلط ہوتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہماری ذہنوں میں کچھ نہیں بیٹھتا، نویں کلاس میں ہمارے بورڈ کے ایگزام آ گئے۔ ایگزام ہوئے نتیجہ اس طرح آیا جس طرح ہم نے سکول لائف کو انجوائے کرنے کی کوشش کی تھی یعنی نہم میں تین سو ستائیس اور دہم میں تین سو ستانوے نمبر حاصل کیے جو ٹوٹل نمبر بنتے ہیں سات سو چوبیس یعنی میں نے اپنی میٹرک سات سو چوبیس نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔

گھر میں، میں نے سب کو کہا کہ اب میں کالج جاؤں گا اور مجھے اجازت دے دی گئی کیونکہ سب کو پڑھا رہے تھے مجھے انکار کر نہیں کر سکتے تھے۔ میں نالائق ہی سہی لیکن مجھے اجازت دے دی گئی کہ آپ جہاں کالج پڑھنا چاہتے ہیں ہماری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ جیسے ہی کالجوں میں داخلے دینا شروع ہوئی میں نے اپنی قریبی شاہین کالج میٹھا خیل میں داخلہ لے لیا۔ کالج میں اردو ورژن سے جب اچانک آپ انگریزی ورژن میں تبدیل ہوتے ہیں تو پھر سمجھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔

خیر ایک وقت تک مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ اساتذہ کیا پڑھا رہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ معمول پر آ گئے اور ہمارے اساتذہ ایک سے بڑ کر ایک تھے۔ انٹروڈکشن میں جب استاد ہمیں کہتا کہ میں نے بی ایس، ماسٹر، ایم فل کیا ہے تو میں اپنے آپ سے کہتا کہ یہ کیا چیز ہے اور کبھی ہم بھی یہ کر پائیں گے یا نہیں؟ خیر میرے کالج ٹائم کے اساتذہ بہت زیادہ قابل اور ذہین تھے میں اپنے آپ سے کہتا کہ یہ شاید میرے زندگی کے سب سے قابل ٹیچر ہے اور اس سے زیادہ شاید مجھے کہی پر بھی نہ مل سکے لیکن جیسے ہی ایک شخص اپنی زندگی میں آگے بڑھتا ہے اس کو اس سے زیادہ بھی قابل اساتذہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

میرے کالج کے اساتذہ اپنی جگہ بہت قابل تھے۔ کالج میں ہمارا ایک استاد جس کا ذکر میں ضرور کرنا چاہوں گا وہ ہمارے ٹیچر وسیم اللہ آتش تھے، سر وسیم ہم کو انگریزی پڑھاتے تھے۔ بہت ہی زیادہ ذہین اور اپنے سبجیکٹ پر عبور رکھتے تھے۔ اور اس کے ساتھ ان کو اور چیزوں کا بھی علم تھا جس پر ان سے گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ سر وسیم کے ساتھ کالج کے تین سال گزر کر ہم اب بھی رابطے میں ہیں۔ اب بھی کبھی کبھی بطور مہمان ان کو اپنی پروگراموں میں مدعو کرتے ہیں اور بہت سارے موضوعات پر باتیں ہوتے رہتی ہے اور ان سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کالج میں میرے اور بھی بہت سارے پسندیدہ اساتذہ تھے جن کی اگر میں بات کروں تو یہ قصہ بہت لمبا ہو جائے گا۔ کالج کے دو سال بہت سارے بہترین اساتذہ کے بیچ میں گزرے اور آخر میں آٹھ سو چوبیس نمبروں کے ساتھ اپنی ایف ایس ڈگری مکمل کر لیں۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ یہ میرا آخر اساتذہ کے ساتھ سیکھنے کا عمل تھا جو اب روک جائے گا کیونکہ میں آگے کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا کہ میں آگے بھی پڑھوں گا۔ ہمارے گاؤں میں انٹر کے بعد طالبعلم یونیورسٹیوں کے لئے ایپلیکیشن جمع کر رہے تھے۔

مجھے بھی ایک دن اچانک دماغ میں آئیڈیا آیا کہ آپ کو بھی کرنی چاہیے اور سیکھنے کا عمل رکنا نہیں چاہیے اور میں پڑھ سکتا ہوں، یعنی میں خود سے کہتا کہ میں کچھ بڑا کرنے یا بننے کے لئے بنا ہوں۔ آخر کار میں نے یونیورسٹی کی دہلیز پر بھی قدم رکھا (ایڈمشن کر لیا) ۔ یونیورسٹی میں اب تک میرے دو سال بیت چکے ہیں اور ان دو سالوں میں میں نے زندگی گزارنے کے اصل سبق سیکھے ہیں اور آگے سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں کالج تک میری ایسی حالت تھی کہ دو، تین لوگوں کے سامنے بول تک نہیں سکتا اور اب الحمدللہ میں ایک مجموعہ میں اپنے خیالات کا اظہار بلا خوف و ہراس کے کر سکتا ہوں یہ سب میرے یونیورسٹی اساتذہ کی وجہ سے ممکن ہوا۔

میرے یونیورسٹی کے اساتذہ نے مجھے کچھ نیا سکھانے کے ساتھ ساتھ اس سے زیادہ وہ سب کچھ سیکھا دیا جو لوگوں کے درمیان بیٹھ کر میرے کام آ سکیں۔ جس طرح مجھے اپنے کالج کے وقت میں لگا کہ میرے کالج کے اساتذہ سب سے زیادہ قابل تھے اب مجھے اپنے یونیورسٹی کے اساتذہ اس سے بھی زیادہ قابل نظر آتے ہیں اور کل میں کسی اور جگہ بھی جاؤں تو وہاں مجھے آج کے اساتذہ سے بھی زیادہ قابل اور ذہین میسر آئیں گے۔ میرے نزدیک یونیورسٹی کسی انسان کے لیے ایک آخری درسگاہ ہوتی ہے۔

اگر کوئی اپنی سکول اور کالج میں خود کو نہیں پہچانتا تو وہ یونیورسٹی میں اپنے اساتذہ سے استفادہ حاصل کر کے ایک بڑی کامیابی تک خود کو پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ میرا معاملہ بالکل اسی طرح ہے۔ میں نے سکول اور کالج کے وقت کو اس طرح قیمتی نہیں بنایا جو مجھے بنانا چاہیے تھا لیکن اب میں اپنے آخری موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہوں اس امید سے کہ ایک دن ایک بڑے مقام تک بآسانی پہنچ سکوں گا اور انشاءاللہ ایسا ہو گا۔

آج جو میں ہوں اس میں میرے تمام اساتذہ کا کردار ہے کیونکہ سب نے اپنی اپنی جگہ مجھے خوب پڑھایا، اور آج جو میں دو لفظ بول سکتا ہوں، لکھ سکتا ہوں، محفل میں بیٹھ کر حالت حاضرہ پر اپنا اظہار کر سکتا ہوں، مختلف موضوعات پر اپنے دوستوں کے ساتھ بحث کر سکتا ہوں تو یہ سب کچھ میرے اساتذہ کے بدولت ممکن ہوا، آج اساتذہ کے اس دن پر میں اپنے تمام تر اساتذہ کو سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ آج جو میں ہوں آپ لوگوں کے بدولت سے ہوں

سلام ٹیچر ڈے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments