ضمیر فروش طوائف


طوائف کا لفظ جیسے ہی ہمارے ذہنوں میں اترتا ہے تو فوراً ایک بدکردار، جسم فروش اور قنوطیت کا غلبہ امڈ کر آ جاتا ہے۔ جب یہ لفظ اور اس کا کردار اپنی بے حجابی کرواتا ہے تو بلاشبہ اسی معاشرے اور لوگوں کے اندرونی کرداروں کو بھی سامنے لا کھڑا کرتا ہے جو اس جسم کے ساتھ کھیل کر اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔ جس معاشرے کا آپ اور میں حصہ ہوں اس میں صرف طوائف کو ہی منفی کردار دے کر اپنے آپ کو بری کر دیا جاتا ہے۔ مگر دوسری جانب جس کی وجہ سے اس کو یہ لقب یا نام ملا ہے اس کو خاطر خواہ نہیں لایا جاتا۔ طوائف کی زینت کون بنتا ہے اس کی جانب کسی کا اشارہ نہیں ہوا۔ اس کا خلاصہ تو پھر ادھورا رہا جو صرف اس کو بد نظر، بد کردار دے کر اپنا فریضہ ادا کرتے ملتے ہیں۔ مگر آج کی تاریخ میں اس کردار کا دوسرا رخ بھی جاننا ضروری ہے ورنہ میرے نزدیک سب سے بڑا ظلم ہو گا۔

ایک طرف طوائف اپنا جسم فروخت کر رہی ہے تو اس کو معاشرے کا گھٹیا ترین نام اور کردار عطا کیا جا چکا ہے۔ تو دوسری جانب ان طوائفوں کے کوٹھے پر جانے والے بے ضمیر سیاستدان جن کو معاشرہ لیڈر مانتا ہے اس کی ہوس کا نشانہ بھی یہی طوائف بنتی ہے۔ ضمیر فروش کو کبھی کس نے برا لفظ نہیں دیا حالانکہ اگر جسم فروش ہے تو ادھر ضمیر فروش بھی ہے۔ اس طوائف کی جسم فروشی اس معاشرے اور ایک لیڈر کی گھٹیا حرکت کا عکس ہے۔ جس نے ان کو مجبور کر دیا ورنہ یہ لوگ گلیوں اور بازاروں میں خواتین کو سرعام رقص طوائف کرنے پر مجبور کرتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ طوائفوں کے ہاں کون جاتا ہے؟ ان کے جسم سے کھیل کون کھیلتا ہے؟ ضمیر فروشی کا کاروبار کون کرتا ہے؟ دوسروں کی عزت کو مجروح کون کرتا ہے؟

ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے دل کو تھام لیں یہ نہ ہو کہ آپ بھی ان میں شامل ہو جائیں۔

پہلا اور اہم وہ مقدس پیشہ ور طبقہ جن کو سیاست دان، لیڈر اور قوم کا خیرخواہ تصور کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا بے ضمیر اور بدمعاش اور ضمیر فروش جو ان کے ہاں جا کر ایمان و عزت فروشی اور شراب نوشی کو ترجیح دیتا ہے۔ سب سے بڑا جرم دار یہ طبقہ جو بیویاں اور بیٹیوں کے باپ ہونے کے باوجود یہ دلال پن کرتا ہے۔ اس کے باوجود اس طوائف کا حوصلہ ہے جس نے ان سب کی کالے کرتوتوں کو ڈھانپ رکھا ہے۔ دوسرے نمبر پر وہ بے ضمیر طبقہ جاگیر دار ہے جو اپنی جاگیروں اور جائیدادوں کے عوض اس حوا کی بیٹی کا قتل عام کرنے میں پیش پیش ہے۔ غلام عباس اپنے افسانہ ”آنندی“ میں اس حوالے سے بیان کرتے ہیں :

ایک شریف بولا:

” رات کی نیند حرام ہے تو دن کا چین مفقود۔ علاوہ ازیں ان کے قرب سے ہماری بہو، بیٹیوں کے اخلاق پر جو برا اثر پڑتا ہے ان کا اندازہ ہر صاحب اولاد خود کر سکتا ہے۔“

اب سوال پیدا ہوا کہ رات کی نیند خراب/ حرام کروانے کے لیے کون جاتے ہیں؟ دل/ دن کا چین خراب کون کرتے ہیں؟ بہو، بیٹیوں کے اخلاق پر ضرب لگوانے کا موجب کون صاحبان بنتے ہیں؟

پھر صاحب اولاد بھی کون ہیں؟

ان سب سوالوں کے جواب صرف ایک ہی نقطہ پر متفق ہوں رہے جو ضمیر فروش سیاستدان اور جاگیر دار طبقہ ہے۔ شراب نوشی اور زر فروشی طبقہ جو خود کو صاحب اولاد بھی کہتے ہیں اور ان کے کوٹھوں کی زینت بھی بنتے ہیں۔

دوسری جانب ان کے کوٹھوں پر جانا، اس سسٹم کی خراب نیکی والے لوگ ہیں۔ میرے نزدیک یہ خراب سسٹم کی خراب نیکی ہے۔ خود کو عزت دار اور صاحب اولاد قرار دے کر بری قرار پاتے ہیں یہی لوگ تہذیب و تمدن کے مالک جب تہذیب کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں تو پھر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ان کے دفاتر، پارلیمنٹ ہاؤس میں نکلنے والی شراب بھی پانی ثابت ہو جاتی ہے۔

غلام عباس کے دیگر افسانوں کا جائزہ لیں تو ان میں ایک افسانہ بعنوان ”حمام میں“ دوسرا ”بھنور“ میں بھی طوائف کے خیالات اور زندگی ملتی ہے جو اس ظالم طبقہ کے ظلم کی داستان عمدہ انداز میں بیان ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ ان کے پیشے کو تقویت دینے ان پر ظلم کی انتہا کرنے میں ہمارے یہی طبقے پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اگر یہ طوائف ان بھیڑیوں کی آگ نہ ٹھنڈی کریں تو یہ بنت حوا کا گوشت نوچ نوچ کر کھا جائیں جو ابھی بھی معصوم کلیاں ہیں۔ مجھے بھی ایک طوائف کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا اس سے اس کی داستان اور اس پیشے کو اختیار کرنے کی وجہ پوچھی تو وہ بولی :

” غریب گھر سے تعلق، کوئی اس وجہ سے قبول نہیں کرتا تھا آخر یہ دوزخ ساتھ لگا ہے اس کا بھی تو انتظام کرنا تھا۔ بڑی کوشش کی کہ شادی ہو جائے گھر بار عزت محفوظ ہوگی لیکن جس معاشرے میں یہ بھیڑیے موجود ہیں وہاں پر کوئی عزت کی نگاہ نہ تھی۔“

اس بات کو سنتے ہی میرے تو ایک دم رونگٹے کھڑے ہو گئے جس کو معاشرہ کہاں جا رہا ہے کیا معاشرہ کہلانے کے قابل ہے؟ بات ابھی ختم نہیں ہوئی اس طوائف نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:

” آپ نے کبھی کتے کو پانی پیتے دیکھا ہے؟“
میں نے کہا: ”جی بالکل دیکھا ہے۔“

وہ بولی: ”اس پیشے کو اختیار کرنے کے بعد یہ لوگ تم لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور ہمارے تلوے چاٹتے ہیں جس طرح کتا چاٹتا ہے۔ مگر ایک بات یاد رکھنا ہر عورت وحشی نہیں ہوتی مگر ہر وحشی عورت ضرور ہوتی ہے۔“

یہ سب سننے اور جاننے کے بعد میں نے اس بات کا ارادہ کیا کہ جسم فروش طوائف پر نہیں بلکہ ضمیر فروش طوائف پر لکھوں۔ جو اپنی باتوں میں اور کرداروں میں قانون، ملک، عقیدہ، ضمیر، ایمان اور انصاف بیچتے ہوتے ہیں آخر میں تالیاں بجا کر کہتے ہیں۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments