صدر مملکت کا پارلیمنٹ سے خطاب


مجھے یہ کالم صبح اٹھتے ہی لکھنا ہوتا ہے۔ اکثر یہ کالم بھجوا دینے کے بعد مگر کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جو ذہن میں اٹکا رہے تو دوسرے دن چھپا کالم باسی محسوس ہوتا ہے۔ جمعرات کی صبح اس تناظر میں ذرا مختلف نظر آرہی ہے۔ جو سوال میرے ذہن میں کئی دنوں سے کھدبد کا باعث ہے اس کا جواب جمعرات کی شام پانچ بجے مل جائے گا۔ طویل انتظار کے بعد بالآخر صدر مملکت عارف علوی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کو آمادہ ہو گئے ہیں۔

”عمومی“ حالات میں سربراہِ مملکت کا پارلیمان سے خطاب محض ایک رسم شمار ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے نئے پارلیمانی سال کا روایتی آغاز ہوتا ہے۔اپنے خطاب کے ذریعے سربراہِ مملکت قوم کو یہ بتانے کی کوشش البتہ کرتے ہیں کہ گزرا برس کیسا رہا۔ اس دوران اگر کوئی ”بحران“ نمودار ہوا تو منتخب حکومت نے اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے کونسی حکمت عملی اختیار کی۔ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنائی طویل المدت پالیسی کا ذکر بھی ہو جاتا ہے۔

وطن عزیز میں تاہم بدقسمتی سے حالات شاذہی ”عمومی “ رہے ہیں۔ جو پارلیمانی سال گزر چکا ہے اس کے دوران بلکہ نہایت ہی غیر معمولی واقعات نمودارہوئے۔ جولائی 2018ء میں ہوئے انتخاب کی بدولت وزیر اعظم کے منصب پرفائز عمران خان صاحب کو گیارہ کے قریب اپوزیشن جماعتوں نے باہم مل کرتحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کی گیم لگائی۔ رواں برس کے مارچ کی آٹھ تاریخ کو مذکورہ تحریک قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی گئی تو عمران حکومت نے اس پر گنتی کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہمارا تحریری آئین مگر اس کی اجازت نہیں دیتا۔ گنتی سے مفرممکن ہی نہیں۔

عمران خان صاحب جب یہ حقیقت تسلیم کرنے کو مجبور ہوئے تو نہایت مہارت سے ”سائفر کہانی“ ایجاد کرلی۔اس کی بدولت عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہوئی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے تئیں عمران خان صاحب کو گھر بھیجنے کی بابت سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ انہیں درحقیقت امریکہ نے تحریک عدم اعتماد کی راہ دکھائی۔ واشنگٹن یہ راہ دکھانے کے لئے خان صاحب کی جارحانہ وطن پرستی کی وجہ سے مجبورہوا۔ انہیں رام کرنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ امریکہ کو خوش رکھنے کے بجائے مگر عمران خان صاحب روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے سے عین ایک دن قبل ماسکوتشریف لے گئے۔ روسی صدر پوٹن سے ملاقات کے بعد خود کو ”امریکی کیمپ“سے نکال کرتیل اورگیس کے ذخائرسے مالا مال ملک کے ساتھ گہرے اور دیرپا تعلقات استوار کرنے کا پیغام دیا۔ واشنگٹن اس کی وجہ سے چراغ پا ہو گیا۔ اپوزیشن میں بیٹھے ”چور اور لٹیروں“ کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کو اکسایا۔

مبینہ امریکی سرپرستی کے باوجود اپوزیشن عمران خان صاحب کی نگاہ میں انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ نہ کر پاتی۔ اصل گلہ سابق وزیراعظم کا یہ ہے کہ انہیں گھربھیجنے کے لئے ہماری ریاست کے نگہبان ادارے بھی ”سہولت کاری“ میں ملوث ہو گئے۔

تحریک انصاف کے بنیادی اراکین میں شمار ہوتے عارف علوی اپنے قائد کے تیار کردہ بیانیے کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم کی بھیجی وہ ”ایڈوائس“ بھی فی الفور مان لی جو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نئے انتخاب کی طرف لے جا سکتی تھی۔ بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت سے تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے عمل سے گزرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہو گئے تو بطور صدر عارف علوی ان سے حلف اٹھوانے کو آمادہ نہ ہوئے۔ پنجاب پر قبضہ برقرار رکھنے کی کاوشوں میں بھی اپنی جماعت کا ڈھٹائی سے ساتھ دیتے رہے۔ مرکز میں تاہم ہونی کو ٹالنے سے روک نہیں پائے۔وزیر اعظم شہباز شریف سے ”ورکنگ ریلیشن“ استوار کرنا ہی پڑے۔

جو ہوا اس کی تفصیلات بیان کرنے میں مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے بنیادی سوال کی جانب لوٹنا ہو گا جو کئی دنوں سے میرے ذہن میں اٹکا ہوا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصول اور روایات تقاضا کرتے ہیں کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ خطاب کرتے ہوئے سربراہِ مملکت منتخب وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی اپنائی پالیسیوں کو ستائش آمیز انداز میں بیان کرے۔ یوں قوم کو حوصلہ دے کہ حکومت ملک کو درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہے اور ان کے حل کے لئے بارآور حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران وہ منتخب حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کرتا ہے۔”خالص“ پارلیمانی جمہوریت میں صدر مملکت بلکہ وہ ہی تقریر پڑھتا ہے جس کا متن اس کے لئے منتخب حکومت نے تیار کیا ہوتا ہے۔اپنی جانب سے وہ اس میں ایک فقرے کا اضافہ بھی نہیں کرتا۔

ہمارے ہاں 1985ء سے مگر ”آدھا تیتر آدھا بٹیر“نما ”پارلیمانی جمہوریت“ مسلط رہی ہے۔اٹھارہویں ترمیم سے قبل صدر مملکت کو منتخب اسمبلیاں برطرف کرنے کا اختیار بھی حاصل تھا۔وہ ختم ہو گیا تو صدر مملکت کے خطاب سے ”انہونی“ نمودار ہونے کی توقع بھی باقی نہ رہی۔ اب کی بار مگر ایک بار پھر تشویش بھرے تجسس کا عالم ہے۔ میں اگر ان دنوں بھی متحرک رپورٹر ہوتا تو اپنے تمام تر ”ذرائع“ سے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے بے تابی سے رجوع کرتا کہ جمعرات کی شام صدر مملکت جو تقریر پڑھیں گے اس کا متن کہاں تیار ہوا ہے۔ فرض کیا یہ عمل فقط ایوان صدر تک ہی محدود رہا تو اس کا حتمی متن وزیر اعظم کو بھی بھجوایا گیا ہے یا نہیں۔ مذکورہ متن اگر وزیراعظم کے دفتر بھیجا گیا تو وہاں سے اس کے مسودے میں ردوبدل کے لئے کوئی تحریری پیغام ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے یا نہیں۔

میرے ذہن میں جو سوال ہے اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے گزشتہ چند دنوں سے گھرپر آئے اخبارات کو مزید غور سے پڑھ رہا ہوں۔ میرے متحرک ساتھی مگر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں دلچسپی دکھائی دیتے نظر ہی نہیں آئے۔ ان کی سردمہری نے اس تاثر کو مزید تقویت پہنچائی کہ ”خبر“ نام تھا جس کا ہماری صحافت سے کاملاََ رخصت ہو چکی ہے۔”صحافی“ ہونے کے دعوے دار ہوتے ہوئے بھی ہم اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم کو مزید بھڑکانے ہی میں مصروف ہو چکے ہیں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments