خانگی تنازعات کا متبادل حل


خانگی تنازعات  جیسے کہ طلاق، جائیداد، نان و نفقہ ، بچوں کی  تحویل، اور ملاقات جیسے قانونی  مسائل  کے حل کے لیے دنیا بھر میں سب سے موئثر طریقہ کار  قانونی چارہ جوئی ہے جو نہ صرف عوامی طور پر تصفیہ کی ایک زیر انتظام شکل ہے بلکہ عمل، شواہد اور گواہی کے لازمی اور قانونی اصولوں کی پابند ہوتے ہوئے ایک مقبول فورم میں انجام دیا جاتا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ عدالتوں کی زریعے خاندانی قانونی چارہ جوئی کے عمل کو تیز کرنے اور اس کی لاگت کو کم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن ہر دور میں ان تنازعات کو حل کرنے کا یہ ایک مہنگا، وقت طلب، رسمی اور دباؤ والا طریقہ ثابت ہوا ہے۔ جس کے بعد، قانونی چارہ جوئی میں پیش آنے والے کچھ خاندانی تنازعات کا حل  ثالثی  کے زریعے کروانے کا طریقہ متعارف کرایا گیا۔ وقت کی ساتھ  دنیا کے خاندانی عدالتی نظاموں نے بھی اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اے۔ ڈی۔آر،

(متبادل تنازعات کے حل)  کو ایک امکان کی طور پر تسلیم کرنا شروع کر دیا ۔ )Alternative Dispute Resolution(

متذکرہ بالا حالات میں، اے۔ ڈی۔آر کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ ” خانگی تنازعات میں فریقین کی باہمی رضامندی سے تنازعات کے حل کے دو قائم شدہ اور روایتی طریقوں، یعنی قانونی چارہ جوئی کا کوئی بھی قانونی یا رسمی متبادل اور ثالثی کا کوئی بھی قانونی طریقہ، اے۔ ڈی۔آر کی اصطلاح سے منسلک ہے۔ اے۔ ڈی۔آر  کے زریعے  ثالثی ، فریقین کی درمیان ایک مسلط کردہ فیصلہ ہوتا ہے جس سے خاندانی تنازعات میں فریقین کو اپنی ساکھ اور رشتہ بچانے اور اپنے تنازعات کو رازداری سے حل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں موجودہ خاندانی عدالتی نظام کی جڑیں قرون وسطیٰ اور اس سے بھی پہلے کے دور سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔ آج ہم جس خاندانی عدالتی نظام پر عمل پیرا ہیں وہ ہندو دور، مسلم حکمرانی بشمول مغلیہ خاندان، برطانوی نوآبادیاتی دور اور آزادی کے بعد کے دور پر محیط کئی ادوار سے گزرا ہے۔ اس ملک میں؛ لوگ عام طور پر اپنے گھریلو جھگڑوں یا تنازعات کے حل کے لیے فیملی کورٹس کا سہارا لیتے ہیں۔ تاہم، یہ ایک غلط تاثر ہے کہ پاکستان میں اے۔ ڈی۔آر کو اپنانے کا بڑھتا ہوا رجحان مغرب کی ایماء پر ایک درآمدی منصوبہ ہے۔ “پنچایت” اور “جرگوں” جیسے متبادل تنازعات کے حل کے طریقہ کار کے ذریعے گھریلو تنازعات کا تصفیہ ہماری ثقافت میں صدیوں سے مضبوط جڑیں رکھتا ہے۔ بعد میں، عوامی ادارے ایسے خاندانی تنازعات کو جدید اور روائتی اے۔ ڈی۔آر کے طریقوں سے حل کرنے میں شامل ہو گئے۔

پاکستان میں رائج خاندانی انصاف کے نظام میں اے۔ ڈی۔آر  کی دو قسمیں ہیں: روایتی اے۔ ڈی۔آر  اور قانونی اے۔ ڈی۔آر  ۔ روایتی اے۔ ڈی۔آر صدیوں پرانے نظام بشمول پنچایت اور جرگہ کا احاطہ کرتا ہے۔ تاہم، ان کے فیصلے قانونی طور پر غیر پابند ہیں اور عام طور پر خاندانی تنازعات میں شامل فریقین پر لاگو ہوتے ہیں۔ مؤخر الذکر سے مراد عوامی اداروں سے منسلک اے۔ ڈی۔آر  ہے۔ مثال کے طور پر، ثالثی کونسل، یونین کونسل، مصالحتی عدالتیں، اور مصلحت انجمن۔  پاکستاں میں متبادل تنازعات کے حل کا ایکٹ 2017 میں منظور کیا گیا، اس کے  بعد پنجاب ، خیبر پختون خواہ اور سندھ میں بھی اے-ڈی- آر ایکٹ باقاعدہ طور پر متعلقہ اسمبلیوں سے پاس کیے گئے جس کا مقصد پنچائیت اور جرگہ کے نظام کو باضابطہ انصاف کے نظام میں ضم کرنا ہے۔ ایکٹ سے متعلق شیڈول میں مذکور فوجداری مقدمات، دیوانی مقدمات اور خاندانی مقدمات کو نمٹانے کے لیے ملک بھر میں بہت سے اے-ڈی-آر  مراکز قائم کیے گئے ہیں ۔

خاندانی معاملات میں اے۔ ڈی-آر نظام کا بنیادی طور پر امداد کے تین طریقے ہیں جو ریاست کی طرف سے فراہم کیے جاتے ہیں۔

1۔ جب بھی فریقین کے لیے فیملی کورٹ سے رجوع کرنے سے پہلے اپنے تنازعات (یا تو پورا تنازعہ یا انفرادی مسائل شامل ہیں) کو طے کرنا مناسب ہو، تو وہ یونین کونسل ( اے-ڈی-آر) سے رجوع کر سکتے ہیں جہاں تصفیہ ممکن ہے۔  فریقین حکومت کے منظور شدہ پینل سے ایک غیر جانبدار ثالث کو منتخب کرتے ہیں اور جس پر فریقین باہمی طور پر متفق ہو جائیں تو باضابطہ طور پر کاروائی کر کے تنازعہ خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فیصلے کی صورت میں عدالت فیصلے/قانون کی حکمرانی کو باضابطہ بنائے گی، اور اگر تںازعہ کا حل اس طریقے سے ممکن نہ ہو تو فریقین اپنی شکایات کے لیے مزید باضابطہ عدالتی کاروائی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔  فریقین پنچایت اور جرگہ کے نظام کو بھی  اپنا سکتے ہیں لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ثالثی کے عمل ثالثی کے مقررہ قوانین کی دفعات کے تحت نہیں کیے جاتے، وہ عام طور پر معاشرے کے رواجوں کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، جو ثالثی ایکٹ میں متعین نہیں ہیں۔ مزید برآں؛ اس کارروائی کا فیصلہ عام طور پر عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا سکتا ، جو کہ ثالثی ایکٹ 1940 کے تحت ضروری ہے اور اسی وجہ سے فیصلہ اپنا قانونی وجود کھو دیتا ہے۔

2۔ جہاں عدالتی کارروائی کے پہلے مرحلے پر کسی تنازعہ یا مسئلے کا حل طے کرنا ممکن  ہو تو پاکستان کے عائلی قوانین نے فیملی کورٹس پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ پری ٹرائل اور ٹرائل اسٹیج پر میاں بیوی کے درمیان مصالحت کے لیے کوششیں کریں۔ ویسٹ پاکستان فیملی کورٹس ایکٹ، 1964 کے سیکشن 10 اور 12 تنازعات کے خوش اسلوبی سے تصفیہ کی فراہمی سے متعلق ہیں، اور ان دفعات سے قانونی چارہ جوئی کا فائدہ اٹھانا لازمی ہے۔

3۔ اے۔ ڈی۔ آر کی سہولت کو حتمی کارروائی میں شامل کر کے، ایک مخصوص وقت کے اندر، فیملی کورٹ ٹرائل کے بعد بھی تنازعات کو حل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے تحت ثالثی کونسلیں قائم کی گئی ہیں جن میں یونین کونسل کا ایک چیئرمین اور ہر پارٹی کا ایک نمائندہ ہوتا ہے۔ کونسل کو خاندانی مسائل جیسے طلاق، خلع، اور نان و نفقہ کے تنازعات کو حل کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔

اے۔ ڈی۔ آر کے تحت  پیروی کرنے والے فریقین کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ جب خاندانی تنازعہ کسی بھی اے۔ ڈی۔ آر کے عمل میں ہو تووہ  حد بندی کے قانون (لمیٹیشن لاء ) میں دیے گئے مقررہ قانونی وقت  کے مطابق حل ہوں گے اور کسی تنازعہ کے حل کے لیے قانونی میعاد ختم ہونے کے بعد، قانونی چارہ جوئی دستیاب نہیں ہو سکتی۔

اس امر پر اتفاق رائے ہے کہ خاندانی طریقہ کار کے قوانین کی پیچیدگی، اخراجات اور تاخیر شہریوں کی ایک بڑی تعداد، خاص طور پر خواتین کو عدالتوں میں اپنے جائز حقوق کا دعویٰ کرنے سے روکتی ہے۔ خاندانی مقدمات کے التوا کو کم کرنے اور عدالت سے باہر ایک باوقار اور جلد انصاف فراہم کرنے کے لیے،  اے۔ ڈی۔ آر کو اپنانے کے علاوہ کوئی بہتر آپشن نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے کے کلچر اور خواتین مدعیان کے وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے  اے۔ ڈی۔ آر کی کارروائی عدالت کے احاطے میں مناسب جگہوں پر کی جاتی ہے۔ مزید برآں؛ یہ نظام  قانونی پیچیدگیوں سے پاک ہے اور یوں یہ سہولت ایک مناسب  باہمی حل پر تیزی سے پہنچنے کا ایک آسان طریقہ ہے۔  اس طریقے میں کسی قانونی نمائندہ یا وکیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ عمل خود ہدایت ہے لہذا مدعیان کے آزادانہ طور پر بات چیت کرنے، اور ماہرانہ  ثالثی تجاویز کو برائے راست سننے اور اسکی بنیاد پر مصالحت کے لیے زیادہ آسان طریقہ ہے۔  چونکہ  اے۔ ڈی۔ آر طریقہ کو اپنا کر فریقین کو کچھ بھی خرچ نہیں کرتا پڑتا تو کسی بھی  اضافی اخراجات کو انصاف اور انسان کے درمیان حائل نہیں کیا جا سکتا۔  فریقین اس بات پر متفق ہو سکتے ہیں کہ مذاکرات یا ثالثی کی سماعتوں کے دوران ظاہر کی گئی معلومات کو بعد میں استعمال نہیں کیا جا سکتا چاہے قانونی چارہ جوئی ہی کیوں نہ ہو۔ نتیجہ کو نجی بھی بنایا جا سکتا ہے اگر فریقین ایسا کرنے پر متفق ہوں۔

 اے۔ ڈی۔ آر فریقین کو خاندانی تنازعہ کو حل کرنے اور باہمی طور پر قابل قبول حل تک پہنچنے کے لیے غیر جانبدار ثالث یا ثالث کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف، مفاہمت کے اس نظام نے وہ مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کیے ہیں جو ممکن تھے۔  یہ ضروری نہیں کہ یہ ناکامی  قانون یا ادارے میں کسی ساختی مسئلے کی وجہ سے ہو بلکہ عوامی بیداری کی کمی اور اس موضوع پر ججوں کی ناکافی واقفیت/تربیت بنیادی وجوہات ہیں۔  ضروت اس امر کی بھی ہے کہ خانگی مسائل کا حل چاہے ثالثی کے زریعے ہو یا عدالتی کاروائی کر کے مگر دونوں میں مقدمے کی سماعت کے مرحلے اور اپیل کے مرحلے پرایک غیر جانبدار پینل کی ضرورت ہر طور رہتی ہے جس کی تشکیل میں ریٹائرڈ ججز، سائیکاٹرسٹ، علمائے کرام، فقہاء، ماہر قانون دان، ٹیکنو کریٹس، ماہرین اور ایسے دیگر نامور شہری موجود ہوں جو اہنی قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر خاندانی 

تنازعات کا حل بہترین طریقے سے ممکن بنائیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments